
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کسی نے کرائے پر دینے کے لیے شاپ خریدی ہے تو کیا اس پر زکوۃ ہوگی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
کرایہ پر دینے کے لئے خریدی گئی دکان پر زکوۃ واجب نہیں ہے، البتہ! اس کے کرائے کی رقم خود یا دیگر اموالِ زکوۃ کےساتھ مل کر نصاب کو پہنچ رہی ہو اور اس پر سال گزر جائے اور دیگر شرائطِ زکوۃ بھی پائی جائیں، تو کرائے کی رقم پر زکوۃ فرض ہوگی، ورنہ نہیں۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے
و لو اشتری قدوراً من صُفْر یمسکھا و یؤاجرھا لا تجب فیھا الزکاۃ کما لا تجب فی بیوت الغلۃ
ترجمہ: اگر پیتل کی دیگ خریدی کہ اسے رکھے گا اور کرائے پر دے گا (تو) اس میں زکوۃ واجب نہیں جیسا کہ کرائے کے گھروں میں واجب نہیں ہوتی۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، صفحہ 180، دار الفکر، بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے ”(کرائے کے) مکانات پر زکوٰۃ نہیں اگرچہ پچاس کروڑ کے ہوں، کرایہ سے جو سال تمام پر پس انداز ہو گا اس پر زکوٰۃ آئے گی، اگر خود یا اور مال سے مل کر قدرِ نصاب ہو۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 161، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4040
تاریخ اجراء: 25 محرم الحرام 1447ھ / 21 جولائی 2025ء