
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
دعائے حزب البحر، حیض کی حالت میں پڑھ سکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
حیض کی حالت میں مکمل دعائے حزب البحر نہیں پڑھ سکتے، کیونکہ اس میں قرآنِ پاک کی ایسی آیات بھی شامل ہیں کہ جن کا حیض کی حالت میں عورت کوپڑھنا حرام ہے۔
البتہ! قرآنِ پاک کی آیات کے علاوہ جو دعا کا حصہ ہے، وہ شرعی عذر کی حالت میں پڑھ سکتے ہیں، یونہی وہ آیات کہ جو دعا و ثناء پر مشتمل ہیں، انہیں بغیر تلاوت کی نیت کے، صرف دعا اور ثناء کی نیت سے پڑھنے کی اجازت ہے۔ نیز بہتر ہے کہ انہیں وضو یا کلی کر کے پڑھا جائے۔
امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”حاصل حکم یہ ٹھہرا کہ بہ نیت قرآن ایک حرف بھی روا نہی۔۔۔ قرآن عظیم کا خیال کرکے بے نیت قرآن ادا کرنا چاہے تو صرف دو صورتوں میں اجازت، ایک یہ کہ آیات دعا وثنا بہ نیت ودعا وثنا پڑھے دوسرے یہ کہ بحاجتِ تعلیم ایک ایک کلمہ مثلاً اس نیت سے کہ یہ زبان عرب کے الفاظ مفردہ ہیں کہتا جائے اور ہر دو لفظ میں فصل کرے متواتر نہ کہے کہ عبارت منتظم ہوجائے
کما نصوا علیہ
ان کے سوا کسی صورت میں اجازت نہیں ( جیسا کہ علماء نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ت)۔۔۔ اقول یہاں ایک اور نکتہ ہے بعض آیتیں یا سورتیں ایسی ہی دعا وثنا ہیں کہ بندہ ان کی انشا کرسکتا ہے بلکہ بندہ کو اسی لئے تعلیم فرمائی گئی ہیں مگر اُن کے آغاز میں لفظ
قل ہے جیسے تینوں قل اور کریمہ قل اللھم مٰلک الملک ان میں سے یہ لفظ چھوڑ کر پڑھے کہ اگر اس سے امر الٰہی مراد لیتا ہے تو وہ عین قراءت ہے اور اگر یہ تاویل کرے کہ خود اپنے نفس کی طرف خطاب کر کے کہتا ہے قل اس طرح کہہ یوں ثنا ودعا کر، تو یہ امر بدعا وثنا ہوا نہ دعا وثنا اور شرع سے اجازت اِس کی ثابت ہوئی ہے نہ اُس کی۔۔۔اقول یوں ہی وہ ادعیہ واذکار جن میں حروف مقطعات ہیں مثلاً صبح وشام کی دُعاؤں میں آیۃ الکرسی کے ساتھ سورہ غافر کا آغاز
حٰم، تنزیل الکتٰب من اللّٰہ العزیز العلیم، غافر الذنب و قابل التوب شدید العقاب لاذی الطّول ط لا الٰہ الا ھو ط الیہ المصیر
تک پڑھنے کو حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ جو صبح پڑھے شام تک ہر بلا سے محفوظ رہے اور شام پڑھے تو صبح تک
رواہ الترمذی والبزار وابنا نصر ومردویہ والبیھقی فی شعب الایمان عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ و سلم
بحال جنابت اسے نہیں پڑھ سکتا ہے کہ حروف مقطعات کے معنے اللہ و رسول ہی جانتے ہیں جل و علا و صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم۔ کیا معلوم کہ وہ ایسا کلام ہو جس کے ساتھ غیر خدا بے حکایت کلام الٰہی تکلم نہ کرسکتا ہو۔ معہذا اجازت صرف دعا وثنا کی ہے کیا معلوم کہ ان کے معنے میں کچھ اور بھی ہو واللہ تعالٰی اعلم۔اقول ہماری اُس تقریر سے یہ مسئلہ بھی واضح ہوگیا کہ جن آیات میں بندہ دعا وثنا کی نیت نہیں کرسکتا بحال جنابت وحیض انہیں بطور عمل بھی نہیں پڑھ سکتا مثلاً تفریق اعدا کے لئے سورہ تبت نہ کہ سورہ کوثر کہ بوجہ ضمائر متکلم
انا اعطینا
قرآنیت کے لئے متعین ہے عمل میں تین نیتیں ہوتی ہیں یا تو دعا جیسے حزب البحر، حرزیمانی یا اللہ عزوجل کے نام و کلام سے کسی مطلب خاص میں استعانت جیسے عمل سورہ یٰس و سورہ مزمل صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یا اعداد معینہ خواہ ایام مقدرہ تک اس غرض سے اس کی تکرار کہ عمل میں آجائے حاکم ہوجائے اُس کے موکلات تابع ہوجائیں اس تیسری نیت والے تو بحال جنابت کیا معنے بے وضو پڑھنا بھی روا نہیں رکھتے اور اگر بالفرض کوئی جرأت کرے بھی تو اس نیت سے وہ آیت وسورت بھی جائز نہیں ہوسکتی جس میں صرف معنی دعا وثنا ہی ہے کہ اولا یہ نیت نیت دعا وثنا نہیں، ثانیا اس میں خود آیت وسورت ہی کی تکرار مقصود ہوتی ہے کہ اس کے خدام مطیع ہوں تو نیت قرآنیت اُس میں لازم ہے۔ رہیں پہلی دو نیتیں جب وہ آیات معنی دعا سے خالی ہیں تو نیت اولیٰ ناممکن اور نیت ثانیہ عین نیت قرآن ہے اور بقصد قرآن اُسے ایک حرف بھی روا نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 1113 تا 1115، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’قرآنِ مجید کے علاوہ اَور تمام اذکار کلمہ شریف، درود شریف وغیرہ پڑھنا بلا کراہت جائز بلکہ مستحب ہے اور ان چیزوں کو وُضو یا کُلّی کر کے پڑھنا بہتر اور ویسے ہی پڑھ لیا جب بھی حَرَج نہیں۔‘‘ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 2، صفحہ 379، مکتبۃ المدینہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا عبد الرب شاکر عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4037
تاریخ اجراء: 23 محرم الحرام 1447ھ / 19 جولائی 2025ء