ورکنگ پارٹنر کے لیے زیادہ نفع رکھنے کا شرعی حکم کیا ہے؟

ورکنگ پارٹنر کے لیے زیادہ نفع رکھنے کا حکم

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم ایک کمپنی قائم  کررہے ہیں جو ایمازون پر جائز طریقے سے خریدوفروخت کرے گی  ۔ اس میں تین انویسٹر ہیں اور ایک ورکنگ پارٹنر ہے  تینوں  انویسٹر 99.99  فیصد   راس المال لگائیں گے اور ان میں سے کوئی بھی کام نہیں کرے گا اور میں ورکنگ پارٹنر کی حیثیت سے  0.01  فیصد راس المال شامل کروں گا۔کمپنی کو  جو نفع ہوگا اس کا 30فیصد ورکنگ پارٹنر کا  ہوگا اور بقیہ 70 فیصد انویسٹمنٹ   پارٹنرز کا ہوگا اور  نقصان سب اپنے سرمایہ کے مطابق برداشت کریں گے ۔نیز ورکنگ پارٹنر  کو ہر دو مہینے میں کمپنی سے  نفع نکالنے کا اختیار ہوگا ۔ یہ ارشاد فرمائیں کہ یہ طریقہ درست ہے؟

نوٹ: ایمازون پر اس کام کو کرنے کی شرعی اجازت  مرکز الاقتصاد سے دی  جاچکی ہے ۔مجھے اب اپنی پارٹنر شپ سے متعلق پوچھنا ہے ۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں بیان کردہ طریقہ کارکے مطابق پارٹنر شپ کرکے ایمازون پرجائز طریقےسےکاروبار کرنےکےلئےکمپنی بنانا شرعا ً جائز ہے ۔مذکورہ معاہدہ میں موجود تمام باتیں  شراکت داری  کے اصولوں کے مطابق   ہیں  کیونکہ شرعی اصولوں کے مطابق عقد شرکت میں ایک ورکنگ پارٹنر ہوسکتا ہے  اور  ورکنگ پارٹنر اپنے سرمایہ سے زائد نفع بھی  لے سکتا ہے جبکہ نقصان  میں تمام پارٹنرز کا حصہ سرمایہ کے مطابق ہوتا ہے، نیز مذکورہ معاہدے میں راس المال تمام شرکاء کی جانب سے ہے، نفع اس اندازمیں  متعین ہے جو شریعت کو مطلوب ہےاور نقصان کی تقسیم کاری بھی شرعی اصول کے مطابق ہے لہٰذا اس طرح شرکت کرنا بالکل جائز ہے ۔

شرکت عنان میں ورکنگ پارٹنر کے لئے اس کے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ نفع مقرر کرنا جائز ہے جبکہ نقصان ہمیشہ سرمایہ کے تناسب  سے ہوگا ،اس سے متعلق  فتاوی عالمگیری میں ہے :

”لو کان المال منھما فی شرکۃ العنان والعمل علی احدھما۔۔۔و ان شرطا الربح للعامل اکثر من راس مالہ جاز علی الشرط۔۔۔۔والوضیعۃ ابدا علی قدر رؤوس اموالھما“

یعنی:اگر شرکت عنان میں سرمایہ دونوں پارٹنر ز کا ہو اور کام ایک ہی پر مشروط ہو، اور کام کرنے والے پارٹنر کے لئے اس کے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ نفع شرط ہو تو اس شرط پر شرکت کرنا ، جائز ہے ،اور نقصان ہمیشہ سرمایہ کی مقدار کے مطابق ہوگا ۔(فتاوی عالمگیری،جلد2،صفحہ 336،دارا لکتب العلمیہ بیروت، ملتقطا )

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اگر دونوں نے اس طرح شرکت کی کہ مال دونوں کا ہوگا مگر کام فقط ایک ہی کریگا اور نفع دونوں۔۔برابر لیں گےیا کام کرنے والے کو زیادہ ملے گا تو جائز ہے ۔(بہار شریعت ،جلد 2،صفحہ 499،مکتبۃ المدینہ )

نقصان سے متعلق بہار شریعت میں ہے: نقصان جو کچھ ہوگا وہ راس المال کے حساب سے ہوگا، اس کے خلاف شرط کرنا باطل ہے۔(بہار شریعت ،جلد 2،صفحہ 491،مکتبۃ المدینہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-498

تاریخ اجراء:27شعبان 1446ھ/26فروری 2025ء