کیا پارٹنر کا چیز مہنگی بیچ کر اضافی نفع خود رکھنا جائز ہے؟

پارٹنر کا چیز مہنگی بیچ کر اضافی نفع خود رکھنا کیسا ؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم دو افراد نے مل کر پارٹنر شپ کی ہے، پیسے دونوں کے آدھے آدھے ہیں جبکہ کام صرف میں کرتا ہوں، نفع دونوں آدھا آدھا رکھتے ہیں۔

پوچھنا یہ ہےکہ ہم نے بیچنے کی تمام چیزوں کے ریٹ اپنے طور پر فکس کیے ہوئے ہیں کہ فلاں آئٹم اتنے کا بیچنا ہے اور فلاں آئٹم اتنے کا، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ میں کسی بھی آئٹم کو فکس کیےہوئے ریٹ سے زیادہ میں بیچ دوں اور اس کا اضافی نفع خود رکھ لوں، اپنے پارٹنر کو اس میں شامل نہ کروں؟ کیونکہ خریداری سے لے کر نفع کی تقسیم تک ساری محنت میری ہوتی ہے۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں آپ کا ریٹ فکس کیے ہوئے آئٹم پر ملنے والا اضافی نفع خود رکھ لینا جائز نہیں بلکہ جتنا اضافی نفع حاصل ہو گا وہ بھی طے شدہ نفع کی فیصد کے مطابق آدھا آدھا  آپ دونوں پارٹنرز کے درمیان تقسیم ہو گا۔

مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ شرکتِ عقد میں  ہر شریک  دوسرے کا وکیل و امین ہوتا ہے، مالِ شرکت میں سے  جو بھی شریک   کوئی آئٹم فروخت کرے  گا وہ فقط اپنی جانب سے  فروخت نہیں کررہا بلکہ اپنے دوسرے پارٹنر کی طرف سے بھی فروخت کر رہا ہے، نفع ہونے کی صورت میں دونوں  ہی پارٹنر  طے شدہ حصے کے مطابق  اس میں شریک ہونگے، لہذا آپ جو بھی آئٹم فروخت کریں گے  ، آپ دونوں کی طرف سے فروخت ہوگا ، اس میں ہونے  والے تمام نفع میں دونوں ہی پارٹنر طے شدہ حصے کے مطابق شریک ہونگے ۔

  پارٹنر کو بتائے بغیر  نفع میں سے کچھ مقدار بلا شرکت اپنے پاس رکھ لینا جائز نہیں  اگرچہ کہ آپ دونوں نے مل کر یہ طے کیاہے کہ فلاں آئٹم اتنے کا بیچنا ہے اور پھر اس سے زائد پر آپ نے بیچا ہو کیونکہ  اس طے کرنے سے  زائد نفع سے شریک کا حصہ ختم نہیں ہوا ، یہ طے کرنا تو محض نفع کے اندازے کے طور پر ہے ، اصل نفع سامان کو بیچنےکے بعد ظاہر ہوتا ہے۔

مذکورہ ناجائز صورت کا متبادل جائز طریقہ

پارٹنرشپ میں ورکنگ پارٹنر زیادہ نفع لینا چاہتا ہے تو اس کی جائز صورت یہ ہے کہ باہمی رضامندی(Mutual Understanding) سے اس کے لئے نفع(Profit) کا تناسب(Ratio) زیادہ مقرر کرلیا جائے،یوں ورکنگ پارٹنر کا زیادہ نفع لینا جائز ہوجائے گا۔

باطل طریقے سے دوسروں کا مال نہ کھانے سے متعلق حکم قرآنی ہے:

’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ‘‘

ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔ (پارہ:05،سورہ النساء،آيت:29)

دھوکہ دینے والوں کے متعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” ليس منا من غش “

یعنی:وہ شخص ہم میں سے نہیں جو دھوکہ دہی کرے۔(سنن ابی داود،جلد 3،  صفحہ:272،مطبوعه بیروت)

بغیر کسی سبب شرعی کے دوسروں کا مال لینے سے متعلق علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’لايجوز لاحد من المسلمين اخذ مال احد بغير سبب شرعى“

یعنی:کسی مسلمان کے لئے دوسرے کامال بغیر سبب شرعی کے لینا جائز نہیں۔ (رد المحتار مع درمختار ، جلد4، صفحہ61،مطبوعہ بيروت)

ہر شریک دوسرے شریک کا وکیل و امین ہے

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:

’’ كل قسم من شركة العقد يتضمن الوكالة فكل واحد من الشریکین فى تصرفه يعنى فى الاخذ والبیع وتقبل العمل من الناس بالاجرۃ وکیل عن الآخر“

یعنی:شرکت عقد کی تمام اقسام وکالت کو متضمن ہیں لہذ اہر شریک تصرف یعنی کسی بھی چیز کو لینے ، بیچنے یا لوگوں سے اجرت پر کام پکڑنے میں دوسرے کا وکیل ہوگا ۔

شرح مجلۃ  للاتاسی میں اس کی وضاحت یوں بیان کی گئی ہے:

’’يعنى ان كل صور عقود الشركة تتضمن الوكالة وذلك ليكون مايستفاد بالتصرف مشتركا بينهما فيتحقق حكم عقد الشركة المطلوب منه وهو الاشتراك فى الربح“

یعنی:مراد یہ ہے کہ شرکت عقد کی ہر ایک قسم وکالت کو متضمن ہے اور یہ اس لئے ہے تاکہ کسی بھی شریک کے تصرف سے جو کچھ بھی حاصل ہو وہ دونوں کے درمیان مشترک ہو لہذا شرکت عقد کا حکم جو کہ عقد شرکت سے مطلوب ہے یعنی ’’نفع میں اشتراک‘‘، وہ حاصل ہوجاتا ہے ۔(شرح المجلة للاتاسى، جلد4 صفحہ 257، مطبوعہ  كراچى)

درمختار میں ہے:

’’الشريك(امين فى المال)“

یعنی:مال شرکت میں شریک کی حیثیت امانت دار کی ہوتی ہے۔(درمختار مع رد المحتار، جلد6، صفحہ 489، مطبوعہ  کوئٹہ)

بہارشریعت میں ہے:”شریک کے پاس جو کچھ مال ہے اس میں وہ امین ہے۔“(بہارشریعت،جلد02،صفحہ503، مكتبة المدينة، كراچى)

ورکنگ پارٹنر کا  دوسرے  شریک کی رضا مندی سے زیادہ نفع رکھنا جائز ہے

فتاوی عالمگیری میں ہے:

’’لوكان المال منهما فى شركة العنان والعمل على احدهما ۔۔۔ ان شرطا الربح للعامل اكثر من راس ماله جاز على الشرط‘‘

یعنی:شرکت عنان میں اگر یہ صورت ہو کہ مال دونوں کا ہوگا اورکام ایک شریک کرے گا تو اگر کام کرنے والے شریک کے لئے اس کے سرمائے سے زیادہ نفع مقرر کیے جانے کی شرط کی جائے تو ایسا کرنا، جائز ہے۔(فتاوى عالمگيرى،جلد2،صفحہ336،دار الکتب العلمیۃ،  ملتقطا)

بہارشریعت میں ہے:”اگر دونوں نے اس طرح شرکت کی کہ مال دونوں کا ہوگا مگر کام فقط ایک ہی کریگا اور نفع دونوں لیں گے اور نفع کی تقسیم مال کے حساب سے ہوگی یا برابر لیں گے یا کام کرنے والے کو زیادہ ملے گاتو جائز ہے۔“(بہارشریعت،جلد02،صفحہ499، مكتبة المدينة، كراچى)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-302

تاریخ اجراء:17 محرم الحرام 1445ھ/24جولائی 2024ء