
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض دکاندار شادی میں پہننے کے لئے تیار شدہ (Readymade)لیڈیز سوٹ کرائے پر دینے کا کام کرتے ہیں، کیا ہمارا کرائے پر تیار شدہ (Readymade)کپڑے لینا شرعاً جائز ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ کا تیار شدہ (Readymade) لیڈیز سوٹ شادی میں پہننے کے لئے طے شدہ اُجرت کے عوض کرائے پر لینا جائز ہے۔
جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے :
”اذا استاجرت المراة درعا لتلبسه اياما معلومة ببدل معلوم فهو جائز“
یعنی :اگر کسی عورت نے زنانہ قمیض معلوم ایام تک پہننے کی غرض سے معلوم معاوضے کے بدلے کرائے پر لی تو یہ جائز ہے۔(فتاوی عالمگیری جلد 4، صفحہ 465، مطبوعہ کوئٹہ)
اسی طرح بحر الرائق میں ہے:
” صح استئجار الدابۃ والثوب لان المنفعة مقصودة معهودة معلومة “
یعنی :جانور یا کپڑے کرائے پر لینا درست ہے کیونکہ منفعت مقصود، معہود اور معلوم ہے۔(البحر الرائق شرح كنز الدقائق، جلد 7، صفحہ 307، مطبوعہ بیروت)
مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:
” یجوز اجارة الالبسة “
یعنی :کپڑوں کا اجارہ کرنا ، جائز ہے۔(مجلۃ الاحکام العدلیہ، صفحہ100، مطبوعہ کراچی)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ بہارِ شریعت میں تحریر فرماتے ہیں:”کپڑے کو پہننے کے لیے کرایہ پرلے سکتا ہے۔“(بہار شریعت، جلد3،صفحہ128، مکتبۃ المدینہ کراچی)
تنبیہ: ان کپڑوں کو اپنے ذاتی کپڑے بتا کر جھوٹ بولنا، جائز نہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر:IEC-0196
تاریخ اجراء:15شوال المُکرم 1445 ھ/24 اپریل 2024ء