کرایہ مقرر کیے بغیر گاڑی چلانے کا حکم

 

ٹیکسی یا رکشے والوں کا کرایہ طے نہ کرنا کیسا ؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے یہاں ٹیکسی یا رکشہ والے بعض لوگ اس طرح کرایہ طے کرتے ہیں کہ جو مناسب ہو دے دینا یا جو مرضی ہو، خوشی سے دے دینا،  ایسا کرنا کیسا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

شرعی اُصولوں  کے مطابق عقدِ اجارہ میں اُجرت معلوم ہونا شرط ہے۔ اُجرت میں جہالت ہونے کی صورت میں کیا گیا اِجارہ ، فاسد ہے۔اور اجارہ فاسدہ کا حکم یہ ہے کہ منفعت حاصل ہونے کی صورت میں اُجرتِ مثل دینا واجب ہے۔پوچھی گئی صورت میں ٹیکسی یا رکشہ والوں کا اس طرح کرایہ طے کرنا کہ ”جو مناسب ہو دے دینا یا جو مرضی ہو ، خوشی سے دے دینا “جائز نہیں ، بلکہ اُجرت مجہول ہونے کی وجہ سے یہ اجارہ فاسد ہے جس میں  اجرت مثل دینا واجب ہے۔ یعنی وہاں کے لوگ اتنے سفر کا جتنا معاوضہ عام طور پر  دیتے ہیں وہ دینا لازم ہے۔ یہ اجرت اگر چہ حلال ہے لیکن اس طرح عقد کرنا،گناہ ہے جس سے توبہ کرنا اور آئندہ اس سے بچنا لازم ہے۔

اجارہ فاسدہ کے حکم سے متعلق دُرمختار میں ہے:

”(حکم الاول)وھو الفاسد (وجوب اجر المثل بالاستعمال)“

 یعنی: اجارہ فاسدہ کا حکم یہ ہے کہ استعمال کرنے  کی صورت میں اُجرتِ مثل واجب ہو گی۔ (در مختار مع رد المحتار، جلد 9، صفحہ 75، مطبوعہ کوئٹہ)

اجارہ کے شرعاً درست ہونے کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ اُجرت معلوم ہو جیسا کہ مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:

”يشترط ان تکون الاجرۃ معلومۃ“

یعنی: صحتِ اجارہ کی ایک شرط یہ ہے کہ اُجرت معلوم ہو۔(مجلۃ الاحکام العدلیہ، صفحہ86، مطبوعہ کراچی)

اجارہ فاسدہ سے متعلق سیدی اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فتاوی رضویہ شریف میں تحریر فرماتے ہیں :”اجارہ فاسدہ میں بھی بعد استیفائے منفعت اُجرت، کہ یہاں وہی اجر مثل ہے، واجب ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔ اس ملک میں خبث بھی نہیں ہوتا، اجیر کے لئے طیب ہوتی ہے اگرچہ اصل عقد گناہ وفاسد تھا۔“(فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 535، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

اُجرت طے نہ کرنے سے بھی اجارہ فاسد ہو جاتا ہے جیسا کہ صدرُ الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”جہالت سے اجارہ فاسد ہوجاتا ہے۔  اس کی چند صورتیں ہیں:  جو چیز اُجرت پر دی جائے وہ مجہول ہویامنفعت کی مقدار مجہول ہو یعنی مدت بیان میں نہیں آئی مثلاًمکان کتنے دنوں کے لیے کرایہ پر دیا یا اُجرت مجہول ہو یعنی یہ نہیں بیان کیا کہ کرایہ کیا ہوگا۔“(بہارِ شریعت جلد 3، صفحہ 141،مکتبۃ المدینہ کراچی)

اجارہ فاسدہ کا حکم بیان کرتے ہوئے صدرُ الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”اجارہ فاسدہ کا حکم یہ ہے کہ اس استعمال کرنے پر اُجرت مثل لازم ہوگی اور اس میں تین صورتیں ہیں:  اگر اُجرت مقرر ہی نہیں ہوئی یا جو مقرر ہوئی معلوم نہیں ، ان دونوں صورتوں میں جو کچھ اُجرت مثل ہو دینی ہوگی۔“(بہارِ شریعت جلد 2، صفحہ 141،مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0151

تاریخ اجراء: 29 رجب المُرجب 1445 ھ/10 فروری  2024   ء