
میں علم کاشہراورابوبکراس کی بنیادہےِِ،اس روایت کی تحقیق
جواب: حدیث مذکور یعنی” أنا مدينة العلم وابوبکر اساسھا “پر اجلہ محدثین نے فقط ضعیف ہونے کا حکم دیا ہے ۔ لہذایہ موضوع نہیں فقظ ضعیف ہے اورضعیف حدیث فضائل میں ...
رجب میں روزہ نہ رکھنے سے متعلق حدیث پاک کی وضاحت
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید کا کہناہے کہ رجب کے مہینے میں روزے نہیں رکھنے چاہییں،اپنے اس قول پرمصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت کو بطور دلیل پیش کرتا ہے :’’عن خرشۃبن الحر،قال:رایت عمریضرب اکف الناس فی رجب،حتی یضعوهافی الجفان،ویقول:کلوا،فانماهوشهرکان یعظمہ اهل الجاهلیۃ‘‘ ترجمہ:خرشہ بن حررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،میں نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کولوگوں کوکھانے سے ہاتھ روکنے پرمارتے ہوئے دیکھا،یہاں تک کہ اُن کے لیے کھانا رکھ دیا جاتا ( اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ) فرماتے :’’ کھاؤ ‘‘ کیونکہ یہ وہ مہینہ ہے جس کی زمانہ جاہلیت میں تعظیم کرتے تھے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ ،حدیث نمبر 9758)مزید یہ کہتاہے کہ جن روایات میں رجب کے مہینے میں روزے رکھنے کے فضائل کاذکر ہے ، وہ روایات ضعیف ہیں، لہٰذاان پر عمل نہیں کرناچاہئے ۔ اس تناظر میں چند سوالا ت کے جوابات مطلوب ہیں: (1)رجب کے روزوں کاکیاحکم ہے ؟ (2) کیارجب کے روزوں کے فضائل سے متعلق ساری روایات ضعیف ہیں؟ (3)جوضعیف ہیں وہ تعددطرق سے حسن ہوتی ہیں یانہیں ؟اگرنہیں ہوتیں ، توان پرعمل کرناکیساہے؟ (4)زید نے جو روایت بیان کی ہے ، اس کاکیاجواب ہے؟
حدیث صحیح اور حدیث قدسی کی تعریف؟
سوال: حدیث قدسی اور حدیث صحیح کیا ہوتی ہے؟
ماہ رجب میں روزہ رکھنے کی ممانعت سے متعلق ایک حدیثِ پاک کی شرح
سوال: زید کا کہناہے کہ رجب کے مہینے میں روزے نہیں رکھنے چاہییں،اپنے اس قول پرمصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت کو بطور دلیل پیش کرتا ہے :’’عن خرشۃبن الحر،قال:رایت عمریضرب اکف الناس فی رجب،حتی یضعوهافی الجفان، ویقول :کلوا،فانماهوشهرکان یعظمہ اهل الجاهلیۃ‘‘ ترجمہ:خرشہ بن حررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،میں نے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کولوگوں کوکھانے سے ہاتھ روکنے پرمارتے ہوئے دیکھا،یہاں تک کہ اُن کے لیے کھانا رکھ دیا جاتا ( اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ) فرماتے :’’ کھاؤ ‘‘ کیونکہ یہ وہ مہینا ہے جس کی زمانہ جاہلیت میں تعظیم کرتے تھے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ ،حدیث نمبر 9758)مزید یہ کہتاہے کہ جن روایات میں رجب کے مہینے میں روزے رکھنے کے فضائل کاذکر ہے ، وہ روایات ضعیف ہیں، لہٰذاان پر عمل نہیں کرناچاہئے ۔ اس تناظر میں چند سوالا ت کے جوابات مطلوب ہیں: (1)رجب کے روزوں کاکیاحکم ہے ؟ (2) کیارجب کے روزوں کے فضائل سے متعلق ساری روایات ضعیف ہیں؟ (3)جوضعیف ہیں وہ تعددطرق سے حسن ہوتی ہیں یانہیں ؟اگرنہیں ہوتیں ، توان پرعمل کرناکیساہے؟ (4)زید نے جو روایت بیان کی ہے ، اس کاکیاجواب ہے؟
جس شخص نے سوتے ہوئے میری زیارت کی، عنقریب وہ جاگتے ہوئے بھی مجھے دیکھےگا۔ حدیث کی وضاحت
سوال: ایک مشہور فرمانِ مصطفیٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے کہ جو شخص سوتے ہوئے میری زیارت کرے گا، عنقریب وہ جاگتے ہوئے بھی مجھے دیکھے گا۔ اِس روایت کے متعلق میرے دوست کا سوال ہے کہ ہم بہت سارے افراد کے متعلق سنتے ہیں کہ اُسے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زیارت ہوئی ہے، لیکن بعد میں اُسے جاگتے ہوئے بھی دیدار ہوا ہے، ایسا نہیں سنا، یعنی جاگتے ہوئے دیدار نصیب ہونے کے واقعات انتہائی کم ہیں۔ الغرض سوال یہ ہے کہ مذکور حدیث کا کیا مطلب ہو گا؟
کیا درود پاک حق مہر بن سکتا ہے ؟
سوال: دُرود شریف کو حق مہر مقرر کیا جاسکتا ہے ، زید کا کہناہے کہ دُرود ِپاک وغیرہ کسی غیرِ مال چیز کوبھی حق مہر مقرر کیا جا سکتا ہے ،کیونکہ حدیث پاک سے ثابت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت حواء رضی اللہ عنہا کے مہر میں دُرود شریف پڑھا تھا،اِسی طرح ایک صحابیہ کا مہر تعلیمِ قرآن رکھا گیا تھا ،اس سے بھی ثابت ہوتاہے کہ جو چیز مال نہ ہو اسے مہر مقرر کیا جا سکتا ہے ، شرعی رہنمائی فرمائیےان روایات کے مطابق کیادُرود پاک کو مہر مقرر کیا جاسکتا ہے؟
کیا نماز جنازہ کی دعا حدیث سے ثابت ہے؟
سوال: کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں کہ ایک شخص نے اپنے ویڈیو کلپ میں یہ بات کہی کہ نمازِ جنازہ میں جو مشہور دعا ”اللھم اغفر لحینا و میتنا۔۔۔“ پڑھی جاتی ہے، یہ درست نہیں ہے، پھر اس نے ایک دعا ذکر کی اور کہا کہ یہ حدیث مبارک سے ثابت دعا ہے۔ آپ سے پوچھنا ہے کہ کیا جنازے کی معروف دعا احادیث سے ثابت ہے؟
امیر معاویہ کو منبر پر دیکھو تو قتل کر دو اس روایت کی تحقیق
جواب: حدیث ہے۔ امام ابو نعیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ قابلِ اعتبار نہیں ہے۔ امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: یہ گمراہ معتزلی تھا۔ امام...
سُترہ ایک انگل موٹا ہونا لازم ہے ؟نیزپردے یا باریک شیشے کے ذریعے سُترہ ہو جائےگا؟
سوال: نمازی کے آگے سے گزرنے کے لیے جو سترہ رکھتے ہیں، کیا اس کا ایک انگلی کے برابر موٹا ہونا ضروری ہے یا صرف مستحب ہے ؟یعنی اگر کسی نمازی کے سامنے ایک انگلی سے بھی باریک چھڑی نصب کی گئی ہویا اوپر سے زمین تک لٹکتا ہوا کپڑے کا پردہ ہو یا ایک انگلی سے باریک شیشہ ہو جیسا کہ عام طور پر مساجد وغیرہ میں ہوتا ہے،تو کیاان صورتوں میں سترہ ہو جائے گا؟اورنمازی کے آگے سے گزرنے والا گنہگار ہوگا یا نہیں ؟ بحرالرائق میں ہے: ’’اختلفوا فی مقدار غلظھا ففی الھدایۃ وینبغی أن تکون فی غلظ الاصبع لأن ما دونہ لا یبدو للناظر وکان مستندہ ما رواہ الحاکم مرفوعا استتروا فی صلاتکم ولو بسھم ویشکل علیہ ما رواہ الحاکم عن أبی ھریرۃ مرفوعا یجزیٔ من الستر قدر مؤخرۃ الرحل ولو بدقۃ شعرۃ ولھذا جعل بیان الغلظ فی البدائع قولا ضعیفا وأنہ لا اعتبار بالعرض وظاھرہ أنہ المذھب‘‘ ترجمہ:سترے کی موٹائی کی مقدار میں اختلاف ہے ،ہدایہ میں ہے کہ ایک انگلی کے برابر موٹا ہو، کیونکہ اس سے کم ہونے کی صورت میں دیکھنے والے کو ظا ہر نہیں ہوگا اور اور ان کا استناد اس مرفوع حدیث سے ہے جسے امام حاکم نے روایت کیا کہ نماز میں سترہ رکھو ،اگرچہ تیر کے ساتھ۔ اس پر اس روایت سے اشکال ہوتا ہے ،جو امام حاکم نے حضرت ابو ہریرہ سے مرفوعا روایت کی کہ سترے کے لیے کجاوے کی پچھلی لکڑی کافی ہے،اگرچہ وہ بال برابر باریک ہو ، اسی وجہ سے موٹائی کے بیان کو صاحب بدائع نے ضعیف قول قرار دیا اور کہا کہ چوڑائی کا اعتبار نہیں ہے ، اور بظاہر یہی مذہب ہے ۔(بحر، جلد2، صفحہ18)اس عبارت سے تو یہی لگتا ہے کہ موٹائی ہونا ضروری نہیں۔