
مجیب:مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی
مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FSD-9293
تاریخ اجراء:12 رمضان المبارک 1446 ھ/13 مارچ 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کےبارےمیں کہ کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں یہ روایت درست ہے؟ ”عن الحسن أن رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قال: إذا رأيتم معاوية على المنبر فاقتلوه“ ترجمہ: حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جب تم لوگ معاویہ کو منبر پر دیکھو،تو اسے قتل کر دو۔ اس کا مکمل تحقیق کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں،علاقے میں لوگوں کو کافی تفتیش ہو رہی ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
سوال میں ذکر کردہ روایت (إذا رأيتم معاوية على المنبر فاقتلوه) موضوع،یعنی من گھڑت ہے،کیونکہ یہ روایت تین سندوں سے مروی ہے اور ان تینوں سندوں میں اس کے مرکزی راوی تین ہیں: ایک سند میں عمرو بن عبید،دوسری میں مجالد بن سعید اور تیسری میں حکم بن ظہیر فرازی،اور یہ تینوں افراد محدثین کی نظر میں متروک و ناقابلِ اعتبار،مجروح اور جھوٹے ہیں۔
عمرو بن عبید کے متعلق محدث ابن عون رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ امام حسن بصری کی طرف جھوٹی روایات منسوب کرتا ہے۔ سعید بن عامر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ جھوٹا گنہگار ہے۔ امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عمرو بن عبید متروک الحدیث ہے۔ امام ابو نعیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ قابلِ اعتبار نہیں ہے۔ امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: یہ گمراہ معتزلی تھا۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ "سیراعلام النبلاء" میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: عمرو نامی راوی نے جھوٹ بولا،اور بھی کئی محدثین نے اس پر جرح کی ہے۔
مجالد بن سعید کے متعلق امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ کوئی قابلِ اعتبار بندہ نہیں ہے۔ یحییٰ بن سعید قطان، یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ اور امام بخاری فرماتے ہیں: یہ کذاب تھا، اس کی حدیث سے استدلال نہیں کیاجاسکتا۔ عبد الرحمن بن مہدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مجالد کی روایت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ امام ازدی اور دارقطنی فرماتے ہیں: یہ ضعیف ہے، اس کی روایت نہیں لی جائے گی۔ امام ابن ِ مہدی رحمۃ اللہ علیہ اس سے روایت ہی نہیں لیتے تھے، دیگر محدثین نے بھی اس پر جرح کی ہے۔
حکم بن ظہیر فزاری کوفی کے متعلق یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ کوئی قابلِ اعتبار شخص نہیں تھا۔ عبد الرحمن بن مہدی اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہمافرماتے ہیں: حکم بن ظہیر متروک الحدیث تھا، اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: یہ منکر الحدیث تھا۔ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ قوی نہیں۔ امام ابن ِ حبان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ صحابہ کو گالیاں دیتا تھا اور ثقہ راویوں کے حوالے سے موضوع روایات روایت کرد یتا تھا،جیسا کہ یہ روایت (اذا رایتم معاویہ الخ) ہے۔
بالترتیب جزئیات:
عمرو بن عبید والی روایت: العلل ومعرفۃ الرجال لاحمد، الجامع لعلوم الامام احمد، السنۃ لعبد اللہ بن احمد، الضعفاء الکبیر للعقیلی، الکامل فی ضعفاء الرجال، تاریخ ِ بغداد، الاباطیل و المناکیر، تاریخ مدینہ دمشق، احادیث مختارہ من موضوعات الجوزقانی، تاریخ الاسلام للذہبی، اکمال تہذیب الکمال، البدایہ و النہایہ، امتاع الاسماع للمقریزی، اللآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ میں ہے، و اللفظ للاول: ”حدثنا سليمان بن حرب قال حدثنا حماد بن زيد قال: قال رجل لأيوب إن عمرو بن عبيد روى عن الحسن أن رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال إذا رأيتم معاوية على المنبر فاقتلوه فقال كذب عمرو بن عبيد“ ترجمہ: سلیمان بن حرب نے بیان فرمایا، وہ فرماتے ہیں: مجھے حماد بن زید نے بیان فرمایا،وہ فرماتے ہیں ایک شخص نے حضرت ایوب رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کیا کہ عمرو بن عبید نے امام حسن رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جب تم معاویہ کو منبر پر دیکھو، تو اس کو قتل کردو، تو حضرت ایوب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: عمرو بن عبید نے جھوٹ بولا۔ (العلل و معرفۃ الرجال لاحمد، جلد 1، صفحہ 406، مطبوعہ دار الخانی)
اس روایت کو "الاباطیل والمناکیر" میں امام ابو عبداللہ ہمدانی جوزقانی رحمۃ اللہ علیہ ذکر کرکے لکھتے ہیں: ”و ليس هذا إلا من فعل المبتدعة الوضاعين، خذ لهم الله في الدارين من اعتقد هذا و أمثاله أو خطر بباله أن هذا مما جرى على لسان رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فهو زنديق، خارج من الدين، و عمرو بن عبيد، الذی روى هذا الحديث، قد رمي بالكذب“ ترجمہ: یہ صرف بدعتی اور جھوٹ گھڑنے والوں کا کام ہے، اللہ تعالیٰ دارین میں اُن کو رسوا کرے، جو اس کا یا اس کی مثل کا اعتقاد رکھے یا اپنے دل میں اس کا خیال لائے کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان پر جاری ہوئی، تو وہ زندیق ہے، دین سے خارج ہے، اور عمرو بن عبید جس نے یہ حدیث روایت کی، اس پر کذب کی تہمت ہے۔ (الاباطیل و المناکیر و الصحاح و المشاھیر، کتاب الفضائل، باب فی خلافۃ معاویہ، جلد 1، صفحہ 351، دار الصمیعی ریاض)
مجالد بن سعید والی روایت: تاریخ الاسلام للذہبی، البدایہ و النہایہ، اللآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ، سمط النجوم العالی فی انباء الاوائل میں ہے، و اللفظ للاول: ”حدثنا محمد بن بشر، قال: حدثنا مجالد،عن أبي الوداك، عن أبي سعيد، قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: إذا رأيتم معاوية على منبري فاقتلوه ”مجالد ضعيف“ ترجمہ: ہمیں محمد بن بشر نے بیان کیا، وہ فرماتے ہیں: ہمیں مجالد نے بیان کیا ابوالوداک سے کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا :نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جب تم معاویہ کو میرے منبر پردیکھو، تو اس کو قتل کردو، مجالد ضعیف ہے۔(تاریخ الاسلام للذھبی، جلد 2، صفحہ 544، مطبوعہ دار الغرب الاسلامی)
البدایہ والنہایہ میں ہے: ”ھذاالحدیث کذب بلا شک“ ترجمہ: یہ حدیث بلا شک جھوٹ ہے۔(البدایہ و النھایہ، ترجمۃ معاویہ، جلد 7، صفحہ 141، مطبوعہ دار احیاء التراث عربی)
حکم بن ظہیر فرازی کوفی والی روایت: تذکرۃ الحفاظ لابن قیسرانی، معرفۃ التذکرہ، ذخیرۃ الحفاظ، اللآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ میں ہے، و اللفظ للاول: ”إذا رأيتم معاوية على منبري فاقتلوه رواه الحكم بن ظهير الفزاري الكوفي، عن عاصم، عن زر بن حبيش، عن عبد الله بن مسعود و الحكم هذا يضع الحديث“ ترجمہ: جب تم معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو، تو اسے قتل کردو، اس روایت کو حکم بن ظہیر فرازی کوفی نے روایت کیا عاصم سے، زربن حبیش سےاور عبد اللہ بن مسعود سے، اور حکم نے یہ حدیث گھڑی ہے۔(تذکرۃ الحفاظ لابن قیسرانی، باب اذا علی الترغیب، صفحہ 34، مطبوعہ دارالصمیعی ریاض)
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :یہ موضوع ہے، جیسا کہ اللآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ میں ہے: ”اذا رایتم معاویۃ علی المنبر فاقتلواہ موضوع“ ترجمہ: جب تم معاویہ کو منبر پر دیکھو، تو اسے قتل کردو، یہ روایت موضوع ہے۔ (اللآلی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ، کتاب المناقب، جلد 1، صفحہ 388، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
اس روایت کی ساری سندوں میں محدثین کا کلام ہے، جيسا کہ "تاریخ مدینہ دمشق" میں علامہ ابوالقاسم ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”و ھذہ الاسانید کلھا فیھا مقال“ ترجمہ: ان تمام اسانید میں کلام ہے۔ (تاریخ مدینہ دمشق، جلد 59، صفحہ 157، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
عمرو بن عبید کے متعلق محدثین کے تاثرات:
المجروحین لابن حبان میں ہے: ”حدثنا حماد بن سلمہ قال: قال لی حمید لاتاخذن عن ھذا شیئا فانہ یکذب علی الحسن یعنی عمرو بن عبید“ ترجمہ: ہمیں حماد بن سلمہ نے بیان فرمایا، وہ فرماتے ہیں: مجھے امام حمید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: تم ہرگز اس سے کچھ روایت مت لو، کیونکہ وہ امام حسن پر جھوٹ باندھتا ہے، یہاں مراد عمرو بن عبید ہے۔(المجروحین لابن حبان، باب العین، جلد 11، صفحہ 36، دار الصمیعی)
الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم میں ہے: ”بكر بن حمران قال كنا عند ابن عون فسأله انسان عن مسألة فقال ما ادرى فقال الرجل عمرو بن عبيد يقول عن الحسن كذا و كذا، فقال ما لنا و لعمرو بن عبيد عمرو بن عبيد يكذب على الحسن“ ترجمہ: بکر بن حمران رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہم ابن عون رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھےتھے، تو ایک شخص نے ان سے ایک مسئلہ کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: میں نہیں جانتا، تو ایک شخص نے کہا عمرو بن عبید نے امام حسن رحمۃ اللہ علیہ سے اس اس طرح بیان کیا، تو انہوں نے فرمایا: ہمیں عمرو بن عبید سے کیا کام، وہ تو امام حسن رحمۃ اللہ علیہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔(الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم، جلد 6، صفحہ 246، دار احیاء التراث عربی)
لسان المیزان میں ہے: ”عمرو بن عبید المعتزلی الضال“ ترجمہ: عمرو بن عبید معتزلی اور گمراہ تھا۔(لسان المیزان لابن حجر، باب حرف العین المھملہ، جلد 9، صفحہ 385، مطبوعہ دارالبشائر الاسلامیہ)
الضعفاء الکبیر للعقیلی میں ہے: ”سعيدبن عامر،وذكر عنده عمرو بن عبيد في شيء قاله،فقال: كذب، و كان من الكاذبين الآثمين“ ترجمہ: سعید بن عامر رحمۃ اللہ علیہ کے پاس عمرو بن عبید کا ذکر ہوا کہ اس نے یہ بات کی ہے، تو آپ نے فرمایا : اس نے جھوٹ بولا ہے،وہ تو جھوٹا گنہگار ہے۔(الضعفاء الکبیر للعقیلی، باب العین، جلد 3، صفحہ 278، مطبوعہ دار المکتبۃ المدینہ)
الاباطیل و المناکیر و الصحاح و المشاہیر میں ہے: ”و قال نعيم بن حماد: سمعت ابن عيينة مرارا، يقول: حدثني عمرو بن عبيد و كان كذابا، و قال العباس الدوري: سمعت يحيى بن معين، يقول: عمرو بن عبيد ليس بشيء، و قال عبد الرحمن بن أبي حاتم الرازي: سألت أبي عن عمرو بن عبيد؟ فقال: كان متروك الحديث“ ترجمہ: نعیم بن حماد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے ابن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ کو کئی بار یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مجھے عمرو بن عبید نے حدیث بیان کی حالانکہ وہ کذاب ہے اور عباس دوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے یحیی بن معین رحمۃ اللہ علیہ کو فرماتے ہوئے سنا : عمرو بن عبید کوئی شے نہیں اور عبدالرحمن ابن ابی حاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے اپنے والد صاحب سے عمرو ابن عبید کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے فرمایا :وہ متروک الحدیث تھا۔ (الاباطیل و المناکیر و الصحاح و المشاھیر، باب فی خلافۃ معاویہ، جلد 1، صفحہ 352، دار الصمیعی ریاض)
مجالد بن سعید کے بارے تاثرات:
لسان المیزان میں ہے: ”مجالد۔۔۔قال احمد بن حنبل لیس بشئی یرفع احادیث موقوفۃ و ھذا الکلام لاحمد نقل عنہ فی المجالد بن سعید“ ترجمہ: مجالد۔۔۔ امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ قابل اعتبار شخص نہیں، یہ احادیث موقوفہ کو مرفوع روایت کرتا ہے یہ جو امام احمد نے کلام کیا ہے یہ مجالد بن سعید کے متعلق ہیں۔ (لسان المیزان لابن حجر، جلد 6، صفحہ 464، دار البشائر الاسلامیہ)
الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم میں ہے: ”مجالد بن سعید ھمدانی کوفی۔۔۔ عبد الرحمن بن مھدی یقول: حدیث مجالد عند الاحداث یحیی بن سعید وابی سامۃ لیس بشئی۔۔۔ عن یحییٰ بن معین انہ قال مجالد لا یحتج بحدیثہ“ ترجمہ:مجالد بن سعید ہمدانی کوفی۔۔۔ عبدالرحمن ابن مہدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ مجالد کی حدیث یحیی بن سعید اور ابواسامہ کے نزدیک قابل اعتبار نہیں۔۔۔ یحی بن معین رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں کہ مجالد کی احادیث سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی۔(الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم، جلد8، صفحہ 361، مطبوعہ دار احیاء التراث عربی)
الاباطیل والمناکیر میں ہے: ”عن يحيى بن معين،أنه قال: مجالد لا يحتج بحديثه،وقال مرة أخرى: مجالد كذاب،وقال محمد بن إسماعيل البخاري: مجالد كذاب“ ترجمہ:یحی بن معین رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مجالد کی حدیث سے دلیل نہیں پکڑی جائے گی اور دوسری بار فرمایا کہ مجالد کذاب ہے۔ امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجالد کذاب ہے۔(الاباطیل و المناکیر و الصحاح و المشاھیر، کتاب الفضائل، باب فی خلافۃ معاویہ، جلد 1، صفحہ 354، دار الصمیعی ریاض)
حکم بن ظہیر فرازی کوفی کے بارے تاثرات:
الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم میں ہے: ”یحییٰ بن معین یقول: الحکم بن ظھیر لیس حدیثہ بشئی۔۔۔ ابن ابی شیبہ لایرضی الحکم بن ظھیر ولم یدخلہ فی تصنیفہ۔۔۔ حدثنا عبد الرحمٰن سمعت ابی یقول: الحکم بن ظھیر متروک الحدیث لایکتب حدیثۃ“ ترجمہ: یحیی بن معین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حکم بن ظہیر کی حدیث قابل اعتبار نہیں۔۔۔ امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ حکم بن ظہیر کو پسند نہیں کرتے تھے،اس لیے انہوں نے اس کی روایت کو اپنی تصنیف میں داخل نہیں کیا۔۔۔ عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد صاحب کو فرماتے ہوئے سنا کہ حکم بن ظہیر متروک الحدیث ہے،اس کی حدیث نہیں لکھی جائےگی۔(الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم، باب الحاء، جلد 3، صفحہ 119، مطبوعہ دار احیاء التراث عربی)
الضعفاء والمترکون للنسائی میں ہے: ”الحکم بن ظھیر متروک الحدیث کوفی“ ترجمہ: حکم بن ظہیر متروک الحدیث ہے کوفی ہے۔( الضعفاء و المترکون للنسائی، باب الحاء، صفحہ 30، مطبوعہ دار الوعی)
تہذیب التہذیب میں ہے: ”قال ابن ابی خیثمة عنہ لیس حدیثہ بشئی۔۔۔ قال ابوزرعۃ واھی الحدیث متروک الحدیث۔۔۔قال ابوحاتم متروک الحدیث لایکتب حدیثہ۔۔۔ قال البخاری متروک الحدیث۔۔۔ و فی الکامل لابن عدی قال : یحییٰ: کذاب و قال ابن حبان کان یشتم الصحابہ و یروی عن الثقات الاشیاء الموضوعات و ھو الذی رویٰ عن عاصم۔۔ اذا رایتم معاویہ“ ترجمہ: امام ابن ابی خیثمہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حکم بن ظہیر کی حدیث قابل اعتبار نہیں۔۔۔ امام ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حکم بن ظہیر واہی الحدیث،متروک الحدیث ہے۔۔۔ امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے،اس کی حدیث نہیں لکھی جا سکتی۔۔۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے اور کامل ابن عدی میں ہے کہ امام یحیی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حکم بن ظہیر کذاب ہے، امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ صحابہ کو گالیاں دیتا تھا، ثقہ راویوں سے من گھڑت روایتیں نقل کرتا تھا اور یہ وہ روایت ہے جس کو حکم بن ظہیر نے عاصم کے حوالے سے روایت کیا کہ جب تم معاویہ کو منبر پردیکھو،تو اسے قتل کردو۔(تھذیب التھذیب،باب الحاء،جلد 2،صفحہ 428،مطبوعہ دائرۃ المعارف ھند)
معرفۃ التذکرۃ لابن قیسرانی میں ہے: ”إذا رأيتم معاوية على منبري فاقتلوه: فيه الحكم بن ظهير الفزاري و هو يضع“ ترجمہ: جب تم معاویہ کو منبر پر دیکھو،تو اسے قتل کر دو،اس میں حکم بن ظہیر فزاری ہے،جو کہ حدیثیں گھڑتا تھا۔(معرفۃ التذکرۃ لابن قیسرانی،حرف الالف،صفحہ 92،مطبوعہ مؤسسۃ الکتب الثقافیہ بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم