دکان پر گاہک سامان بھول جائے تو کیا کریں؟

دکان پر کسمٹر اپنا سامان بھول جائے تو کیا حکم ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ دکان پر ایک کسٹمر آیا جو کہ پلاسٹک کا ایک چھوٹا سا ٹیبل دکان پر بھول کر چلا گیا، اور پتا نہیں کہ وہ کون تھا اور کہاں سے آیا تھا، اب جبکہ کافی ٹائم ہوگیا ہے اور کوئی اسے لینے نہیں آیا، تو اس ٹیبل کے بارے میں کیا حکم ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اس ٹیبل کی شرعی حیثیت لقطہ کی ہے۔لقطہ کو صرف اپنے پاس سنبھال کر رکھ لینا، اور مالک کا انتظار کرنا کافی نہیں ہوتا، بلکہ اس کا اعلان کرنا ضروری ہوتا ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر اب تک آپ نے اس کی تشہیر نہیں کی، تو آپ کو چاہئے کہ آس پاس والے دکان داروں سے معلوم کرلیں، ممکن ہے کہ کوئی اُسے جانتا ہو، کچھ عرصہ تک دکان کے باہر لکھ کر بھی لگایا جاسکتا ہے،پھر اس کے بعد جب مالک کے ملنے کی امید نہ رہے،یا اگر آپ اپنی طرف سے ممکنہ حد تک تشہیر کر چکے ہیں، تو اب جبکہ کافی ٹائم ہوگیا ہے اور مالک نہیں آیا، تو اب آپ کو اختیار ہے، چاہیں تو وہ ٹیبل اپنے پاس محفوظ کر کے رکھ لیں اور مزید انتظار کریں، یا چاہیں تو کسی شرعی فقیر پر صدقہ کردیں، مسجد و مدرسہ وغیرہ کسی کارخیر میں بھی دیا جاسکتا ہے۔ البتہ اگر بعد میں کبھی مالک آجاتا ہے ،تو اسے اختیار ہوگا کہ صدقہ کو نافذ کردے یا نہ کرے، اگر جائز کر دے گا، تو ثواب پائے گا اور جائز نہ کیا ،تو اگر وہ چیز موجود ہے، تو اپنی چیز لے لے اور ہلاک ہوگئی ہے، تو تاوان لے گا۔ اور اسے یہ اختیار ہوگا کہ ملتقط(اٹھانے والے) سے تاوان لے، یا فقیر شرعی سے،جس سے بھی لے گا، وہ دوسرے سے نہیں لے سکتا۔

لقطے کی تشہیر لازم ہے، یہاں تک کہ غالب گمان ہو کہ اب مالک نہیں آئے گا، چنانچہ تبیین الحقائق میں ہے:

عرف اللقطۃ الی ان یغلب علی ظنہ ان صاحبھا لا یطلبھا۔۔۔ ثم تصدق ای تصدق باللقطۃ اذا لم یجیئ صاحبھا بعد التعریف لأن الواجب عليه حفظها وأداؤها إلى أهلها

ترجمہ: (لقطہ اٹھانے والا شخص) لقطہ کا اعلان کرے، یہاں تک اسے ظن غالب ہو جائے کہ اب اس کا مالک اسے تلاش نہیں کرے گا، پھر جب اعلان کرنے کے بعد مالک نہ آئے، تو لقطہ کو صدقہ کر دے، کیونکہ اس پر اس لقطہ کی حفاظت کرنا اور اسے اس کے مستحق تک پہنچا نا واجب ہے۔ (تبیین الحقائق جلد 3، کتاب اللقطۃ، صفحہ 302، 304، مطبوعہ قاهرة)

لقطہ کی تشہیر کے بعد اُسے اپنے پاس رکھنے یا شرعی فقیر پر صدقہ کرنے کے متعلق،بدائع الصنائع میں ہے:

اذا عرفها و لم يحضر صاحبها مدة التعريف فهو بالخيار ان شاء امسكها الى ان يحضر صاحبها و ان شاء تصدق بها على الفقراء و لو اراد ان ينتفع بها فان كان غنيا لا يجوز ان ينتفع بها عندنا

ترجمہ: جب لقطے کی تشہیر کی اور اس کامالک اس تشہیر کی مدت میں نہیں آیا، تو لقطہ اٹھانے والے کو اختیار ہے، چاہے اپنے پاس روکے رکھے، یہاں تک کہ مالک آئے (تو اس کے سپرد کر دے) اور چاہے تو فقرا ء پر صدقہ کر دے، اور اگر خود نفع اٹھانا چاہتا ہے، تو اگر وہ غنی ہے، تو ہمارے نزدیک اس کے لیے نفع اٹھانا جائز نہیں ہے۔(بدائع الصنائع، جلد6، کتاب اللقطۃ، فصل فی بیان ما یصنع باللقطۃ، صفحہ 202، دارالکتب العلمیہ،بیروت)

مال لقطہ کو مصارف خیر یعنی مسجد،مدارس وغیرہ پر بھی صرف کرسکتے ہیں،چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: ”وہ مثل مالِ لقطہ ہے، مصارفِ خیر مثل مسجد اور مدرسہ اہل سنت ومطبع اہل سنت وغیرہ میں صَرف ہوسکتاہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 563، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

لقطہ کو صدقہ کرنے کے بعد مالک آئے، تو واپسی کا تقاضا کرسکتا ہے، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:

فإن جاء صاحبھا فأمضی الصدقۃ یکون لہ ثوابھا وإن لم یمضھا ضمن الملتقط أو المسکین إن شاء لو ھلکت فی یدہ فإن ضمن الملتقط لا یرجع علی الفقیر وإن ضمن الفقیر لا یرجع علی الملتقط وإن کانت اللقطۃ فی ید الملتقط أو المسکین قائمۃ أخذھا منہ

ترجمہ: پھر اگر مالک آگیا اور اس نے صدقہ کو جائز کر دیا، تو اسے ثواب ملے گا اور اگرمالک صدقہ کرنا ،جائز قرار نہ دے اور وہ چیز بھی ہلاک ہو چکی ہو،تو اسے یہ اختیار ہے کہ ملتقط(چیز اٹھانے والے ) سے تاوان لے یا مسکین سے، اگر ملتقط سے تاوان لیا ، تو ملتقط مسکین سے رجوع نہیں کر سکتا اور اگر مسکین سے لیا، تو مسکین ملتقط سے رجوع نہیں کر سکتااور اگر وہ گمی ہوئی چیزملتقط یا مسکین کے پاس موجود ہے، تووہ اپنی چیز اس سے لے لے گا۔(الفتاوی الھندیہ، جلد 2، کتاب اللقطہ، صفحہ 308،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-508

تاریخ اجراء: 09 صفر المظفر 1446ھ /15 اگست2024ء