Ghar Kharidne Ke Baad Ismein Sone Ki Chain Mili To Hukum

 

گھر خریدنے کے بعد اس میں سونے کی چین ملی تو کیا کیا جائے؟

مجیب:مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3521

تاریخ اجراء: 28رجب المرجب 1446ھ/29جنوری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   نوید نے یونس سے گھر خریدا۔ نوید کو 2 سال بعد گھر سے سونے کی چین gold chain ملی۔ اس کے بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا نوید یہ سونے کی چین رکھ سکتا ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اس سونے کی چین کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگربیچنے والا(یعنی یونس)یہ کہتاہے کہ یہ میری ہے تواسے دے دی جائے ورنہ یہ لقطہ ہےاورلقطہ کے متعلق حکم ہے کہ اس کی تشہیرواعلان کیاجائے اگرمالک آجائے تواسے دے دے اوراگر تشہیرواعلان کے بعدمالک نہ آیااوراتنا وقت گزرگیا کہ حقیقی مالک سے مایوسی ہو گئی  کہ وہ اب نہیں آئے گا تواختیارہے کہ خریدار(یعنی نوید)اس کی حفاظت کرے یا کسی شرعی فقیر کودےدےیا نیک کام مثلا مسجد یا مدرسے وغیرہ میں  دے دے اور اگر خود شرعی فقیرہوتوخودبھی رکھ سکتاہے ۔

   ردالمحتارمیں ہے "وفي التتارخانية عن الينابيع اشترى دارا فوجد في بعض الجدار دراهم. قال أبو بكر: إنها كاللقطة. قال الفقيه وإن ادعاه البائع رد عليه، وإن قال ليست لي فهي لقطة۔"ترجمہ: اور تتارخانیہ میں ینابیع سے ہے کہ گھر خریدا تو اس کی کسی دیوار میں درہم پائے تو ابوبکر کہتے ہیں کہ یہ لقطہ ہے ۔ فقیہ نے کہا: اگر بائع اس کا دعوی کرے تو اسے لوٹا دیے جائیں ، اور اگر وہ کہے میرے نہیں ہیں تو یہ لقطہ ہیں ۔(ردالمحتار علی الدرالمختار ، جلد 04 ، صفحہ 285، دارالفکر بیروت )

   فتاوی ہندیہ میں ہے: ”یعرّف الملتقط اللقطۃ فی الأسواق والشوارع مدۃ یغلب علی ظنہ أن صاحبھا لا یطلبھا بعد ذلک ..... ثم بعد تعریف المدۃ المذکورۃ الملتقط مخیر بین أن یحفظھا حسبۃ و بین أن یتصدق بھا.“ یعنی جسے کوئی گری ہوئی چیز ملے وہ بازاروں اور راستوں میں اتنی مدت تک اس کا اعلان کرے کہ غالب ظن ہو جائے کہ اب مالک یہ چیز تلاش نہیں کرے گا۔ پھر اتنی مدت تشہیر کرنے کے بعد اٹھانے والے کواختیار ہے کہ ثواب کی نیت سے لقطہ کی حفاظت کرے یااسے صدقہ کردے۔(الفتاوی الھندیۃ، جلد2، صفحہ289،دار الفکر، بیروت)

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اپنے ایک فتوے میں چندہ دہندگان کے نہ ملنے کی صورت میں حکم ارشاد فر ماتے ہیں:’’ہاں جو اُن میں نہ رہا اور اُن کے وارث بھی نہ رہے یا پتانہیں چلتا یا معلوم نہیں ہوسکتا کہ کس کس سے لیاتھا، کیا کیا تھا، وہ مثل مالِ لقطہ ہے، مصارفِ خیر مثل مسجد اور مدرسہ اہل سنت ومطبع اہل سنت وغیرہ میں صَرف ہو سکتا ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ جلد 23،صفحہ 563،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم