Padhne Ke Liye Kitab Li Tu Gum Hone Par Tawan Hoga Ya Nahi?

 

کسی سے پڑھنے کے لیے کتاب لی، تو گم ہونے پر تاوان ہوگا؟

مجیب:مفتی  محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD- 9054

تاریخ اجراء: 16صفر المظفر1446ھ/22اگست2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ ایک شخص نےزید سے ایک  کتاب کچھ  دنوں  کے لیے پڑھنے کے لیے مانگی، لیکن چند دنوں بعد اس شخص سے وہ کتاب گُم ہو گئی، تو کیا اس شخص پر شرعاًاس کتاب کا تاوان لازم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شریعت مطہرہ میں بلاعوض کسی شخص کو اپنی چیز کی منفعت کا مالک کر دینا ، عاریت کہلاتا ہے اور عاریت کا حکم یہ ہے کہ وہ چیز  مستعیر( عاریتاً چیز لینے والے )  کے پاس امانت ہوتی ہے ۔ اگر وہ چیز  چوری یا گم ہو جائے، تو مستعیر پر اس چیز کا تاوان لازم ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے  شرعی اصول یہ ہے کہ اگر عاریتاً لینے والے کی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے وہ چیز ہلاک(ضائع، چوری یا گم)  ہوئی، تو  اس کا ذمہ دار مستعیر ہی  ہوگا، اگرچہ  یہ غفلت غلطی یا بھولے سے ہی کیوں نہ واقع ہوئی ہو ، البتہ اگر مستعیر نے اس چیز کی حفاظت میں کسی طرح کی غفلت  اور کوتاہی کا مظاہرہ نہ کیا ، بلکہ اس کو سنبھال کر رکھا ، پھر بھی وہ چیز  ہلاک ہو گئی، تو اس صورت میں مستعیر ذمہ دار نہیں ہوگا، لہٰذا  پوچھی گئی صورت میں شخصِ مذکور کے پاس سے اگر اس کی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے  کتاب گم ہوئی، تو اس پر بطور تاوان بعینہٖ (Same) اسی اوصاف و کوالٹی  کی  کتاب  دینا لازم ہوگا اور اگر بعینہٖ اسی طرح کی  کتاب   مارکیٹ میں ملنا مشکل ہو یا کتاب ملتی تو ہو، مگر دوسرے کتب خانہ سے چھپی ہویا ایک ہی کتب خانہ سے چھپی ہو، لیکن اس  نے دوسرے  ایڈیشن میں چھاپی ہو اور اس  میں صفحات یا جلد کی کوالٹی  تبدیل کر دی ہو، یا اغلاط کی تصحیح  یا کچھ اضافہ کر دیا وغیرہ، الغرض کسی بھی طرح کی کوئی تبدیلی کی جس کی وجہ سے اس کی قیمت میں فرق ہو گیا، تو اب گم ہونے والی کتاب کی مثل نہ ہونےکی وجہ سے بطورِ تاوان اس کتاب کی قیمت دینا لازم ہے، البتہ اگر  شخصِ مذکور  نے کتاب کو بحفاظت رکھا اور کسی طرح کی غفلت  اور کوتاہی کا مظاہرہ نہ کیا، پھر بھی وہ کتاب گم ہوگئی، تو اس پر  اس کتاب کا تاوان لازم نہیں ہوگا۔

   عاریت کی تعریف کے متعلق علامہ بُر ہانُ الدین  مَرْغِینانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:593ھ /1196ء) لکھتے ہیں:”العارية جائزۃ، لانها نوع احسان وقد استعار النبی  صلی اللہ تعالي عليه وسلم دروعا من صفوان ، وهي تمليك المنافع بغير عوض“ترجمہ: یعنی عاریت پرکسی چیز کو لینا دینا ، جائز ہے ، کیونکہ یہ ایک طرح کا احسان ہے اور نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت صفوان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے چند زرہیں عاریت پر لی تھیں ، اور  بلاعوض کسی شخص کو اپنی چیز کی منفعت کا مالک کر دینا عاریت ہے۔(الھدایہ، كتاب العاریۃ ، جلد 3 ، صفحہ 218،مطبوعہ  دار احياء التراث العربي ،بيروت )

   عاریت پر لی ہوئی چیز مستعیر کے پاس امانت ہوتی ہے، جیسا کہ امام احمد قُدُوری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:428ھ /1036ء) لکھتے ہیں:”قال اصحابنا: العارية امانة لا يضمنها المستعير الا بالتعدی “ ترجمہ: ہمارے اصحاب رَحِمَھُمُ اللہُ السَّلاَمْ فرماتے ہیں: عاریت  پر لی ہوئی چیز امانت ہوتی ہے، تعدی کے بغیر ہلاک ہو جائے، تو مستعیر اس کا ضامن  نہیں ہوگا۔(التجرید للقدوری، کتاب العاریۃ،جلد7،  صفحہ3263، مطبوعہ دار السلام ، القاهرة)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: ”دوسرے شخص کو چیز کی منفعت کا بغیر عوض مالک کردینا عاریت ہے۔۔عاریت کا حکم یہ ہے کہ چیز مستعیر کے پاس امانت ہوتی ہے اگرمستعیر نے تعدی نہیں کی ہے اور چیز ہلاک ہوگئی، توضمان واجب نہیں۔“(بھارِ شریعت ، جلد3،حصہ 14، صفحہ54،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   عاریت پر  لی ہوئی  چیز  چوری یا گم ہو جائے، تو مستعیر پر اس چیز کا تاوان لازم ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے در مختار میں ہے:ولا تضمن بالهلاك من غير تعد“ترجمہ: بلاتعدی عاریت پر  لی ہوئی چیز کے ہلاک ہونے پر ضمان لازم نہیں آتا۔(الدرالمختار ،کتاب العاریۃ، جلد4، صفحہ443، مطبوعہ  کوئٹہ)

   امانت  میں غلطی سے ہی تعدی پائی گئی،تب بھی تاوان لازم ہے، جیساکہ علامہ ابو المَعَالی  بخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:616ھ/1219ء) لکھتےہیں:”ان ظن أنہ جعلھا فی جیبہ فاذا ھی لم تدخل فی الجیب فعلیہ الضمان “ترجمہ:اگر امین نے گمان  کیا کہ اس نے امانت کے دراہم کو جیب میں ڈال لیا ہے، جبکہ وہ اس وقت جیب میں نہیں گئے تھے، تو (اس صورت میں اگرچہ وہ دراہم غلطی سے باہر گر گئے، لیکن پھر بھی)  اس پر ضمان لازم ہے۔(المحیط البرھانی، جلد5، صفحہ535، مطبوعہ دارالکتب العلمیه، بیروت)

   بھول کر تعدی پائی جانے کے باوجود تاوان لازم ہوتا ہے، جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے:”لو قال المودع وضعت الودیعۃ بین یدی قمت و نسیتھا فضاعت ضمن و بہ یفتی“ترجمہ:اگر مودع نے کہا  کہ میں نے امانت اپنے سامنے رکھی تھی، پھر میں کھڑا ہو گیا اور اسے بھول گیا، تو وہ ضائع ہوگی، (لہٰذا اس صورت میں ) وہ ضامن ہوگا اور اسی پر فتوی ہے۔(الفتاوى الھندیۃ، جلد4، صفحہ342،مطبوعہ دار الفكر، بيروت )

   اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”اور جو تلف ہوگیا اگر بے فعلِ حسام الدین تلف ہُوا ، مثلاًچوری ہوگیا،  جل گیا،  ٹوٹ گیا اور اُس میں حسام الدین کی طرف سے کوئی بے احتیاطی نہ تھی، تو اُس کا تاوان نہیں لے سکتی ، فان العاریۃ امانۃ لاتضمن الابالتعدی (اس لئے کہ عاریت امانت ہے اور بلا تعدی اس میں ضمان لازم نہیں آتا)،  اسی طرح جو کُچھ حسام الدین کے پہننے برتنے میں تلف ہوا،  نقصان ہوا، اس کا بھی تاوان نہیں، جبکہ اُس نے عادت وعرف کے مطابق اُسے برتا استعمال کیا ہو،’’فان کان بتسلیط منھا وما کانت العاریۃ الا للاستعمال ‘‘ (کیونکہ وُہ اس عورت کی تسلیط سے اس کے پاس تھا اور عاریت تو ہوتی ہی استعمال کے لئے ہے) ، ہاں جو کچھ حسام الدین نے قصداً خراب کیا یا اُس کے بے احتیاطی سے ضائع ہُوا یا عرف و عادت سے زیادہ استعمال کرتے میں ہلاک ہوگیا،  اُس کا تاوان حسام الدین سے لے سکتی ہے،لحصول التعدی (تعدی حاصل ہونے کی وجہ سے)۔“(فتاوی رضویہ، جلد12،صفحہ248،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   مفتی محمد نور اللہ نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1403ھ/1982ء) سے سوال ہوا کہ” مدارس  میں مدرسین اور طلبہ کو دار العلوم کی لائبریری سے کتب پڑھنے کے لئے دی جاتی ہیں، اگر کوئی کتاب بلاتعدی گم ہو جائے، تو اس سلسلہ میں شرعاً کیا حکم ہے؟تو جواباً ارشاد فرمایا:اگر بلاتعدی گم ہو جائے، تو ضمانت نہیں پڑتی۔“(فتاوی نوریہ ،جلد2،صفحہ198،مطبوعہ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ، بصیر پور)

   اصولِ شرع کے مطابق اگر کوئی کسی کی ایسی چیز تلف کرتا ہے جو مثلی ہو،تو اس پر بطورِ تاوان اسی طرح کی چیز دینا  لازم ہوتا ہے اور اگر ایسی چیز تلف کی  جو قیمی ہو یعنی جس کی مثل ملنا مشکل ہو، تو بطورِ تاوان  قیمت دینا لازم ہوتا ہے ، جیسا کہ تنویر الابصار و درمختار میں ہے:”يجب رد (مثله إن هلك وهو مثلی۔۔۔وتجب القیمۃ فی القیمی)“ یعنی غاصب پر غصب شدہ چیز کی مثل لوٹانا واجب ہے، اگر وہ ہلاک  ہو چکی ہو اور وہ مثلی چیز ہو۔۔۔اور قیمی چیز کی قیمت دینا واجب ہے۔ (تنویر الابصار و درمختار ، جلد9،صفحہ307،مطبوعہ كوئٹہ)

   فی زمانہ کتاب مثلی  ہے ، لہٰذا بطورِ تاوان اسی طرح کی کتاب دینا ہو گی ، چنانچہ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:”کتاب کو علماء نے قیمی ٹھہرایا ہے،  نہ مثلی، مگر اس وقت تک چھاپے نہ تھے اور کہہ سکتے ہیں کہ اگر اسی چھاپے کی ہویعنی اسی بار کی چھپی ہواور کاغذ بھی ایک ہو اور جلد نہ بندھی ہو، تو عجب نہیں کہ مثلی ہو سکے، یعنی کتاب کے معاوضہ میں ایسی ہی کتاب دینی آئے۔“  (فتاوی رضویہ، جلد16،صفحہ227،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   مجلس افتاء کے جاری کردہ رسالے "مثلی ا و رقیمی اشیاء کی پہچان اور شرعی احکام " میں ہے:”اور عرف شاہد ہے کہ فی زمانہ مطبوعہ کتابوں میں اس جیسا کوئی فرق نہیں ہوتا، لہٰذا آج کے اس زمانہ میں کتاب مثلی ہے، بلکہ اگرغور کیا جائے، تو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اسی جزئیہ میں خود بھی اس طرف اشارہ فرما دیا کہ کتابوں میں مذکورہ فرق ختم ہو جائے، تو وہ مثلی ہو سکتی ہیں۔۔۔یہاں پر آپ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃنے کتاب کے مثلی ہونے کو بیان کرتے ہوئے اگرچہ یہ قید لگائی ہے کہ " جلد نہ بندھی ہو" ، لیکن یہ بھی اس دور کے اعتبار سے ہے، کیونکہ اُس وقت جلد ایک جیسی نہیں ہوتی تھی اور فی زمانہ جب کاغذ، سیاہی اور جلد وغیرہ سب کچھ ایک جیسا ہوتا ہے، تو مطبوعہ مجلد کتب (چھپی ہوئی ایسی کتابیں، جن کو جلد کر لیا گیا ہو، وہ) بھی مثلی ہیں اور یہ کہنا بعید نہیں کہ یہی امام اہل سنت کا "قول ضروری" بھی ہے۔“(مثلی ا و رقیمی اشیاء کی پہچان اور شرعی احکام ، صفحہ 64،مجلس افتاء)

   مذکورہ مسئلہ کی نظیر  صابن کا قیمی سے مثلی  ہونا ہے کہ ایک وقت تھا کہ صابن  بنانے میں جو تیل جاتا تھا، وہ کبھی کم، کبھی زیادہ ہوتا تھا، جس کی وجہ سے اسے مثلی نہیں، بلکہ قیمی شمار کیا جاتا تھا ، لیکن ساتھ ہی فقہائے کرام نے یہ بھی فرمایا کہ اگر ایک ہی طرح کے اجزاء سے اور ایک ہی طریقے پر صابن تیار کیا جائے، توا ب اسے مثلی کہا جائے گا،  چنانچہ درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:”الصابون من هذا القبيل قيمي لان الزيت الذی في الصابون يكون كثيرا فيه وقليلا في الصابون الآخر  اما اذا كان الزيت متساويا في صابونين فيكون مثليا فلذلك اذا صنع الصابون من نوع زيت وكانت جميع اجزائه بعين الجنس والمقدار فيكون مثليا“ترجمہ: صابن اسی قبیل سے قیمی ہے، کیونکہ صابن میں جو تیل ڈالا جاتا ہے ، وہ ایک میں زیادہ ہوتا ہے اور دوسرے میں کم۔ بہرحال جب دو صابنوں میں تیل برابر ہو، تو وہ مثلی ہوں گے، اسی وجہ سے جب ایک ہی طرح کے تیل سے صابن بنایا اور اس کے تمام اجزاء بعینہٖ اسی جنس اور مقدار سے بنے ہوں، تو وہ مثلی ہوگا۔ ( درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام ، جلد 3،صفحہ 107، مطبوعہ دار الجیل)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم