ٹریولنگ کارڈ گرا ہوا ملا تو شرعی حکم کیا ہے؟

ٹریولنگ کارڈ گرا پڑا ملے تو کیا حکم ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں ایک میٹرو لائن میں جاب کرتا ہوں، وہاں مجھے ایک پیسنجر نے کسی کا ٹریولنگ کارڈ پکڑایا اور کہا کہ یہ کسی کا کارڈ گر گیا ہے، آپ اپنے پاس رکھ لیں، جس کا ہو اسے آپ دے دینا۔ اس کارڈ میں 710 روپے بیلنس تھا اور 130 روپے کارڈ کی اپنی پیمنٹ تھی، ٹوٹل 840 روپے بنتے تھے۔ میں نے وہ کارڈ پیسنجر سے لینے کے بعد چار سے پانچ دن تک کارڈ ہولڈ ر کا انتظار کیا، مگر کوئی بھی کارڈ لینے نہیں آیا، لہذا میں نےاُس ٹریولنگ کارڈ کو ریفنڈ کرالیا، اور اس سے ملنے والے 840 روپے اپنے پاس رکھ لئے ہیں۔ اب میں اُن پیسوں کا کیا کروں؟ میں نے سوچا تھا کہ اگر کوئی ایک ہفتے تک کوئی نہیں آئے گا، تو میں اُن پیسوں کو مسجد کے چندہ بکس میں ڈال دوں گا، میرے لئے کیا شرعی حکم ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اس ٹریولنگ کارڈ کی شرعی حیثیت ’’لقطہ‘‘ کی ہے، اور لقطہ کا شرعی حکم یہ ہے کہ لقطہ یعنی گری پڑی چیز کو اٹھا کر صرف اپنے پاس رکھ لینا اور مالک کا انتظار کرنا کافی نہیں ہوتا، بلکہ اتنے عرصہ تک اس چیز کی تشہیر و اعلان کرنا ہوتا ہے کہ لقطہ اٹھانے والے کو غالب گمان ہوجائے کہ مالک اب مطالبے کے لیے نہیں آئے گا، جب تشہیر کے بعد یہ غالب گمان ہوجائے کہ اب اس کا مالک نہیں آئے گا، تو لقطہ اٹھانے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو اسے مالک کے ملنے کی امید پر اپنے پاس سنبھال کر رکھ لے، اور چاہے تو کسی شرعی فقیر پر صدقہ کردے، یا دیگر مصارف خیر یعنی مسجد، مدرسہ وغیرہ میں صرف کردے، اگر خود شرعی فقیر یعنی مستحق زکوۃ ہو، تو خود بھی اپنے استعمال میں لاسکتا ہے۔

اب چونکہ یہاں سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے اُس کارڈ کی تشہیر نہیں کی، بلکہ صرف تین سے چار دن انتظار کے بعد اُسے ریفنڈ کرادیا، تو سب سے پہلے تو آپ کا اس کارڈ کی تشہیر کرے بغیر ہی اُسے ریفنڈ کرانا درست نہ ہوا، کیونکہ آپ کو بعینہٖ اس کارڈ کو محفوظ رکھ کے اس کی تشہیر اور مالک کے تلاش کرنے کا حکم تھا، اُسے ریفنڈ کروانے کی اجازت نہیں تھی، ٹریولنگ کارڈ کو کارڈ ہولڈر تک پہنچانے کیلئے گم شدہ کارڈ کو کسی قریبی میٹرو اسٹیشن پر جا کر اسٹاف کے حوالے کیا جاسکتا تھا، یونہی متعلقہ میٹرو سسٹم کی ہیلپ لائن پر کال کر کے گم شدہ کارڈ کی اطلاع بھی دی جاسکتی تھی،جس سے بعینہٖ وہی کارڈ مالک تک پہنچ سکتا تھا، ہاں البتہ اگر بعینہٖ کارڈ کو رکھنے میں مالک کا نقصان تھا، اس طرح کہ اگر کارڈ مالک تک پہنچ بھی جاتا، مگر کارڈ کی مدت ختم ہونے کی صورت میں یا کسی اور وجہ سے اس کے اندر موجود رقم ضائع ہوسکتی تھی، تو ایسی صورت میں آپ کا اس کارڈ کو ریفنڈ کروانا شرعاً درست تھا، بہرحال اب آپ کیلئے شرعی حکم یہ ہے کہ آپ اس کارڈ کی ممکنہ حد تک تشہیر کریں، بہتر طریقہ یہی ہے کہ میٹرو اسٹیشن کے اسٹاف کو اور اسی طرح میٹرو کی ہیلپ لائن پر کال کرکے اطلاع دیدیں اور ساری معلومات دے کر اپنا نمبر لکھوادیں،ممکن ہے کہ چند دنوں میں کارڈ کا مالک آپ سے رابطہ کر کے اپنی رقم حاصل کرلے۔ اس پروسس کے بعد جب اتنی مدت گزرجائے کہ آپ کو یہ غالب گمان ہوجائے کہ اب اس کا مالک رابطہ نہیں کرے گا، تو اب آپ چاہیں تو اس کارڈ کی رقم کو اپنے پاس سنبھال کر رکھ لیں،ورنہ چاہیں تو کسی شرعی فقیر پر صدقہ کردیں،اور اس رقم کو مسجد پرصرف کرنا چاہیں تو بھی کرسکتے ہیں۔ تاہم یہ یاد رہے کہ اُن پیسوں کو صدقہ کرنے کی صورت میں اگرچہ آپ برئ الذمہ ہو جائیں گے،لیکن اگر پھر کبھی کارڈ کے مالک نے آپ سے رابطہ کرلیا اور وہ صدقہ کرنے سے راضی نہیں ہوا، تو آپ کو وہ رقم اس کارڈ ہولڈر کو اپنے پاس سے ادا کرنی ہوگی۔

لقطہ کی تعریف کے متعلق در مختار اور فتاوی عالمگیری میں ہے:

و اللفظ للثانی: اللقطۃ ھی مال یوجد فی الطریق، و لا یعرف لہ مالک بعینہ کذا فی الکافی

ترجمہ: لقطہ وہ مال ہے جو راستہ میں کہیں پڑا ہوا مل جائے، اور بعینہ اس چیز کا مالک معلوم نہ ہو، اسی طرح کافی میں ہے۔ (الفتاوی الھندیہ، جلد 2، کتاب اللقطہ، صفحہ 308، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

لقطے کی تشہیر لازم ہے یہاں تک کہ غالب گمان ہو کہ اب مالک نہیں آئے گا، چنانچہ تبیین الحقائق میں ہے:

عرف اللقطۃ الی ان یغلب علی ظنہ ان صاحبھا لا یطلبھا۔۔۔ ثم تصدق ای تصدق باللقطۃ اذا لم یجیئ صاحبھا بعد التعریف لأن الواجب عليه حفظها وأداؤها إلى أهلها

ترجمہ: (لقطہ اٹھانے والا شخص) لقطہ کا اعلان کرے، یہاں تک اسے ظن غالب ہو جائے کہ اب اس مالک اسے تلاش نہیں کرے گا، پھر جب اعلان کرنے کے بعد مالک نہ آئے، تو لقطہ کو صدقہ کر دے، کیونکہ اس پر اس لقطہ کی حفاظت کرنا اور اسے اس کے مستحق تک پہنچنانا واجب ہے۔ (تبیین الحقائق جلد 3، کتاب اللقطۃ، صفحہ 302، 304، مطبوعہ قاهرة)

لقطہ کی تشہیر کے بعد اسے اختیار ہے، چاہے تو اپنے پاس سنبھال کر رکھ لے،اور چاہے تو فقیر شرعی پر صدقہ کردے، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:

ثم بعد تعریف المدۃ المذکورۃ الملتقط مخیر بین أن یحفظھا حسبۃ و بین أن یتصدق بھافإن جاء صاحبھا فأمضی الصدقۃ یکون لہ ثوابھا وإن لم یمضھا ضمن الملتقط أو المسکین إن شاء لو ھلکت فی یدہ فإن ضمن الملتقط لا یرجع علی الفقیر و إن ضمن الفقیر لا یرجع علی الملتقط و إن کانت اللقطۃ فی ید الملتقط أو المسکین قائمۃ أخذھا منہ

یعنی: پھر اتنی مدت تشہیر کرنے کے بعداٹھانے والے کواختیار ہے کہ ثواب کی نیت سے لقطہ کی حفاظت کرے یااسے صدقہ کردے، پھر اگر مالک آگیا اور اس نے صدقہ کو جائز کر دیا، تو اسے ثواب ملے گا اور اگرمالک صدقہ کرنا، جائز قرار نہ دے اور وہ چیز بھی ہلاک ہو چکی ہو، تو اسے یہ اختیار ہے کہ ملتقط (چیز اٹھانے والے) سے تاوان لے یا مسکین سے ،اگر ملتقط سے تاوان لیا، تو ملتقط مسکین سے رجوع نہیں کر سکتا اور اگر مسکین سے لیا، تو مسکین ملتقط سے رجوع نہیں کر سکتااور اگر وہ گمی ہوئی چیزملتقط یا مسکین کے پاس موجود ہے، تو وہ اپنی چیز اس سے لے لے گا۔ (الفتاوی الھندیہ، جلد 2، کتاب اللقطہ، صفحہ 308، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

لقطہ کی چیز کو بلا ضرورت تشہیر سے پہلے نہیں بیچا جاسکتا، ہاں تشہیر کے بعد مالک کے نہ ملنے کی صورت میں اس چیز کو بیچ کر رقم محفوظ کرنے کی اجازت ہے، جیسا کہ خلاصۃ الفتاوی میں ہے:

ثم ھو بالخیار ان شاء ادام الحفظ الی أن یظھر الغائب و إن شاء تصدق علی أن یکون الثواب لصاحبھا و ان شاء باعھا ان لم یکن دراھم أو دنانیر و امسک ثمنھا

ترجمہ: پھر (تشہیر کے بعد) لقطہ اٹھانے والے کو اختیار ہے کہ چاہے تو محفوظ کر کے رکھ لے یہاں تک کہ اس کا مالک ظاہر ہوجائے، اور چاہےتو صدقہ کردے اس طرح کہ صدقہ کا ثواب اس چیز کے مالک کیلئے ہو، اور اگر وہ درہم یا دینار نہ ہو، تو اسے بیچ دے اور اس کا ثمن محفوظ کرلے۔ (خلاصۃ الفتاوی، جلد 4، کتاب اللقطۃ، صفحہ 435، مطبوعہ کوئٹہ)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’لقطہ کاحکم تشہیر ہے، اس کے بعد فقیر پر تصدق نہ کہ بلاتشہیر بیع۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحہ 210، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

لقطہ اگر ایسی چیز ہو جس کے رکھنے میں مالک کا نقصان ہو، تو لقطہ اٹھانے والا اسے بیچ کر اس کی رقم محفوظ کرسکتا ہے، جیسا کہ اگر ودیعت جلدخراب ہونے والی چیز ہو تو اسے بیچ کر رقم محفوظ کرنے کی اجازت ہوتی ہے، چنانچہ جوہرۃ النیرۃ میں ہے:

المودع إذا خاف على الوديعة الفساد إن كان في البلد قاض رفع أمرها إليه و استأذنه في بيعها و إن لم يكن في البلد قاض باعها۔۔۔ و حفظ ثمنها لصاحبها و على هذا اللقطة

ترجمہ:ودیعت رکھنے والا جب ودیعت کے خراب ہونے کا خوف کرے تو اگر اس شہر میں قاضی ہو تو اسے بیچنے کے لیے قاضی تک معاملہ لے جائے، اور اسے بیچنے میں اس کی اجازت حاصل کرے، اور اگر اس شہر میں قاضی نہ ہو تو وہ خود اسے بیچ دے اور اس کی قیمت مالک کے لیے محفوظ رکھے، اور اسی پر لقطہ کا حکم ہے۔ (الجوھرۃ النیرۃ، جلد 1، کتاب العاریۃ، صفحہ 350، المطبعة الخيرية)

مال لقطہ کو مصارف خیر یعنی مسجد، مدارس وغیرہ پر بھی صرف کرسکتے ہیں، چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: ”وہ مثل مالِ لقطہ ہے، مصارفِ خیر مثل مسجد اور مدرسہ اہل سنت و مطبع اہل سنت وغیرہ میں صَرف ہوسکتا ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 563، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: ’’اُٹھانے والا اگر فقیر ہے، تو مدتِ مذکورہ تک اعلان کے بعد خود اپنے صرف میں بھی لا سکتا ہے۔‘‘ (بھارِ شریعت، جلد 2،، حصہ 10، صفحہ 476، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-498

تاریخ اجراء: 27 محرم الحرام 1446ھ / 03 اگست 2024ء