
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک دوست مجھے یہ آفر کر رہا ہے کہ میں آپ کو رقم دیتا ہوں، آپ اس سے جانور خریدیں، پالیں اور پھر بیچیں، جو نفع ہوگا وہ آدھا آدھا تقسیم ہوگا۔کیا اس طرح کاروبار ہو سکتا ہے ؟ جبکہ میری طرف سے صرف کام ہوگا، رقم بالکل شامل نہیں کی جائے گی۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
آپ کے دوست کا پیسہ ہو اور کام آپ کریں یعنی جانور خریدیں اور پال کر بیچیں، یہ جائز ہے۔ فقہی اصطلاح میں اسے مضاربت کہتے ہیں، پیسہ دینے والا آپ کا دوست رب المال اور آپ مضارب کہلائیں گے۔
مضاربت میں نفع کے متعلق اصول یہ ہے کہ نفع فکس مقدار میں مقرر کرنے کے بجائے، فیصد کے اعتبار سے مقرر کیا جائے مثلاً: آدھا، تہائی، چوتھائی وغیرہ، اور فیصد میں نفع مقرر کرنے کے لئے شریعت کی جانب سے کوئی حد بندی بھی نہیں ہے، دونوں کو اختیار ہے کہ باہمی رضا مندی سے چاہیں تو برابر برابر نفع مقرر کریں، چاہیں تو کم زیادہ۔ اس میں نفع نکالنے کا طریقہ یہ ہوگا کہ جانور فروخت ہونے کے بعد، پہلے مضاربت سے متعلق ہونے والے ضروری اور معروف اخراجات(جیسا کہ جانور لانے یا بیچنے کے لئے لے جانے کی صورت میں گاڑی کا کرایہ، چارہ، چوکر وغیرہ ان کو پالنے کا خرچہ، جگہ کرائے کی ہو، تو جگہ کا کرایہ وغیرہ) نکالے جائیں، راس المال یعنی اصل انویسٹ کو پورا کیا جائے، اس کے بعد جو بچے وہ نفع ہے، جو دونوں کے درمیان طے شدہ فیصد کے اعتبار سے تقسیم کیا جائے گا۔
نیز مضاربت میں نقصان کے متعلق اصول یہ ہے کہ وہ رب المال کو برداشت کرنا ہوگا، مضارب پر نقصان نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ مضارب امین ہوتا ہے اور امین اپنی تعدی و کوتاہی سے جو نقصان کرے اس کا تو وہ ذمہ دار ہوتا ہے، تعدی و کوتاہی کے بغیر ہونے والے نقصان کا وہ ذمہ دار نہیں۔ نقصان رب المال پر ڈالنے کی تفصیل یہ ہے کہ اگر کام میں نفع، نقصان دونوں ہوں اور نفع، نقصان سے زیادہ ہو تو پہلے نقصان کو "نفع" میں سے پورا کیا جائے گا، اس کے بعد جو رقم بچے گی درحقیقت وہی نفع شمار ہو گی اور مقرر کردہ فیصد کے حساب سے دونوں میں تقسیم ہو گی، اور اگر نقصان، نفع سے زیادہ ہو، یا نفع بالکل نہ ہو، صرف نقصان ہی ہو، تو ان صورتوں میں نقصان کو "راس المال" یعنی کاروبار میں لگائی گئی اصل رقم میں سے پورا کیا جائے گا۔ نیز ان آخری دو صورتوں میں مضارب یعنی کام کرنے والے فرد کو اپنے کام کا کوئی بدلہ نہیں ملے گا اور اس کی محنت ضائع جائے گی کیونکہ مضارب کا حق فقط نفع میں ہوتا ہے، جب نفع ظاہر ہی نہ ہوا، تو اسے کچھ نہیں ملے گا۔
تنویر الابصار و درمختار میں ہے:
’’(ھی )شرعاً (عقد شرکۃ فی الربح بمال من جانب) رب المال (و عمل من جانب) المضارب۔ملخصا‘‘
مضاربت شرعی اعتبار سے نفع میں شرکت کا عقد ہے رب المال کی جانب سے مال اور مضارب کی جانب سے عمل کے ساتھ۔ (تنویر الابصار و درمختار مع رد المحتار، ج8، ص497، مطبوعہ کوئٹہ)
تنویر الابصار و درِ مختار میں ہے:
’’(وکون الربح بینھما شائعا)فلو عین قدراً فسدت‘‘
اور مضاربت کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ نفع ان دونوں کے درمیان مشترک ہو، لہٰذا اگر کوئی مقدار مقرر کردی تو مضاربت فاسد ہوجائے گی۔ (تنویر الابصار ودرمختار مع ردالمحتار، ج8، ص501، مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے: ’’نفع دونوں کے مابین شائع ہو یعنی مثلاً نصف نصف، یا دوتہائی ایک تہائی، یا تین چوتھائی ایک چوتھائی، نفع میں اس طرح حصہ معین نہ کیا جائے جس میں شرکت قطع ہوجانے کا احتمال ہو، مثلاً یہ کہہ دیا کہ میں سَو روپیہ نفع لوں گا، اس میں ہوسکتا ہے کہ کل نفع سو ہی ہو یا اس سے بھی کم تو دوسرے کی نفع میں کیوں کر شرکت ہو گی، یا کہہ دیا کہ نصف نفع لوں گا اور اُس کے ساتھ دس روپیہ اور لوں گا، اِس میں بھی ہوسکتا ہے کہ کل نفع دس ہی روپے ہو تو دوسرا شخص کیا پائے گا۔‘‘ (بھار شریعت، ج03، ص02، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اخراجات نکالنے کے بعد نفع تقسیم ہوگا۔ چنانچہ تنویر الابصار و درمختار میں ہے:’’(ويأخذ المالك قدر ما أنفقه المضارب من رأس المال إن كان ثمة ربح، فإن استوفاه و فضل شيء) من الربح (اقتسماه) على الشرط، لأن ما أنفقه يجعل كالهالك، والهالك يصرف إلى الربح كما مر. (وإن لم يظهر ربح فلا شيء عليه) أي المضارب‘‘
اگر وہاں نفع ہو، تومالک اتنا مال لے گا جتنا مضارب نے راس المال میں سے خرچ کیا، پس اگر وہ اس کو پورا کردے اور نفع میں سے کچھ بچ جائے، تو وہ دونوں اس کو طے شدہ حساب سے تقسیم کرلیں، کیونکہ جو اس نے خرچ کیا وہ ہلاک ہونے والے کی طرح ہے اور ہلاک ہونے والے کو نفع کی طرف پھیرا جاتا ہے، جیسا کہ گزرا اور اگر نفع ظاہر نہ ہو، تو مضارب پر کچھ نہیں ہے۔ (تنویر الابصار ودرمختار مع رد المحتار، ج5، ص658، دارالفکر، بیروت)
العقود الدریہ میں ہے:
’’(سئل) فيما إذا وضع المضارب مال المضاربة في حانوت لحفظ مال المضاربة فهل تكون أجرة الحانوت في مال المضاربة؟ (الجواب): نعم وكذلك يستأجر البيوت لحفظ الأموال ذخيرة من الفصل التاسع ومثله في البحر‘‘
سوال: اگر مضارب نے مضاربت کا مال حفاظت کے لیے کسی دکان میں رکھا، تو کیا اس دکان کی اجرت مضاربت کے مال سے دی جائے گی؟
جواب: جی ہاں۔ اسی طرح مال کو محفوظ رکھنے کے لیے اجرت پر مکان لینا بھی جائز ہے۔ یہ مسئلہ "ذخیرہ" کی نویں فصل میں مذکور ہے، اور اسی کی مثل بحر الرائق میں بھی ہے۔ (العقود الدریہ، ج02، ص118، مبطوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
بہارشریعت میں ہے: ’’جو کچھ نفع ہوا پہلے اس سے وہ اخراجات پورے کیے جائیں گے جو مضارِب نے راس المال سے کیے ہیں، جب راس المال کی مقدار پوری ہوگئی، اُس کے بعد کچھ نفع بچا، تو اُسے دونوں حسبِ شرائط تقسیم کرلیں اور نفع کچھ نہیں ہے تو کچھ نہیں۔“(بھارشریعت، ج3، ص25، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مضاربت میں نقصان کس طرح پورا کیا جائے گا، اس کے متعلق صاحبِ ہدایہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
’’(و ما ھلک من مال المضاربۃ فھو من الربح دون راس المال)لان الربح تابع و صرف الھلاک الی ما ھو التبع اولی کما یصرف الھلاک الی العفو فی الزکاۃ (فان زاد الھالک علی الربح فلاضمان علی المضارب) لانہ امین‘‘
اور مالِ مضاربت میں سے جو کچھ ضائع ہو تو وہ نفع میں سے ہو گا نہ کہ راس المال میں سے، کیونکہ نفع تابع ہے اورہلاکت کو تابع کی طرف پھیرنا زیادہ بہتر ہے جیسا کہ زکوٰۃ میں ہلاکت کو عفو کی طرف پھیرا جاتا ہے، لہٰذا اگر ضائع ہونے والا مال نفع پر زائد ہو جائے تو مضارب پر کوئی تاوان نہیں ہو گا، کیونکہ وہ امین ہے۔ (ھدایہ مع فتح القدیر، ج7، ص438۔439، مطبوعہ کوئٹہ )
صدر الشریعہ مفتی محمدامجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القویّ مضاربت میں نقصان پورا کرنے کے طریقۂ کار کے متعلق فرماتے ہیں: ’’مالِ مضاربت سے جو کچھ ہلاک اور ضائع ہو گا وہ نفع کی طرف شمار ہو گا، راس المال میں نقصانات کو نہیں شمار کیا جا سکتا مثلا سو روپے تھے، تجارت میں بیس روپے کا نفع ہوا اور دس روپے ضائع ہو گئے تو یہ نفع میں منہا کئے جائیں گے، یعنی اب دس ہی روپے نفع کے باقی ہیں۔اگر نقصان اتنا ہو ا کہ نفع اس کو پورا نہیں کر سکتا مثلا بیس نفع کے ہیں اور پچاس کا نقصان ہوا تو یہ نقصان راس المال میں ہو گا۔ مضارب سے کُل یا نصف نہیں لے سکتا کیونکہ وہ امین ہے اور امین پر ضمان نہیں، اگرچہ وہ نقصان مضارب کے ہی فعل سے ہوا ہو۔ ہاں اگر جان بوجھ کر قصدا اس نے نقصان پہنچایا یا مثلا شیشہ کی چیز قصدا اس نے پٹک دی اس صورت میں تاوان دینا ہو گا کہ اس کی اسے اجازت نہ تھی۔‘‘ (بھارِ شریعت، ج03، ص19 ۔20، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مضارب کا حق فقط نفع میں ہونے کے متعلق درمختار میں ہے:
’’من شروطھا کون نصیب المضارب من الربح‘‘
مضاربت کی شرطوں میں سے ایک، مضارب کا حصہ نفع میں سے ہونا ہے۔ (درمختار مع ردالمحتار، ج8، ص501، مطبوعہ کوئٹہ)
مضاربت میں مضارب کے اضافی کام کرنے اور اس کی اجرتِ مثل و معاوضہ کا حکم:
عام طور پر مضاربت میں مضارب محض خریدو فروخت کا کام کرتا ہے اور چیز بکنے سے پہلے والے دورانیہ میں چیز کی حفاظت بھی کرتا ہے لیکن سوال کی صورت جس میں مضارب نے محض جانوروں کی خریدو فروخت نہیں کرنی، بلکہ ان کو پالنا بھی ہے جو کہ اضافی کام اور اچھی خاصی محنت کا متقاضی ہے کیا یہ صورت بھی مضاربت میں ہو سکتی ہے؟ اور کیا ایسی مضاربت جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو کیا اس کا مضارب کو اضافی معاوضہ یا اجرت مثل وغیرہ ملے گی؟ کیونکہ ہو سکتا ہے یہ دو، چار، چھ ماہ جانوروں کو سنبھالے، پالے، محنت کرے لیکن وہ ہلاک ہوجائیں یا اور کسی طرح نقصان ہو جائے تو پالنے کا اضافی معاوضہ یا اجرت مثل نہ ملنے کی صورت میں اس کا سراسر نقصان ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مضاربت جائز ہے اور مضارب کا جانوروں کو پالنا، مضاربت کے منافی نہیں ہے، مضاربت میں مضارب نفع کے حصول کے لئے اس طرح کا اضافی کام کر سکتا ہے۔ اس کی نظیر یہ صورت ہے کہ کسی شخص کو بطور مضاربت اس شرط پر ایک ہزار درہم دیئے جائیں کہ وہ ان سے کپڑا خریدے اور کاٹ کر سیئے، پھر بیچے، جو نفع ہوگا وہ باہم مقررہ طریقہ کار کے مطابق تقسیم ہوگا، ایسی مضاربت کو فقہائے کرام نے جائز قرار دیا ہے۔کپڑے میں کی جانے والی اس مضاربت میں بھی مضارب اضافی کام کرے گا کہ کپڑا کاٹ کر سیئے گا، یوں اضافی محنت ہوگی۔جس طرح اس صورت میں مضاربت درست ہے، یونہی جانوروں کو پال کر بیچنے والے صورت میں بھی مضاربت درست ہے۔
چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:
’’لو دفع إليه ألف درهم مضاربة على أن يشتري به الثياب ويقطعها بيده ويخيطها على أن ما رزق الله تعالى في ذلك من شيء فهو بينهما نصفان فهو جائز على ما اشترطا؛ لأن العمل المشروط عليه مما يصنعه التجار على قصد تحصيل الربح، وكذلك لو قال له على أن يشتري به الجلود والأدم يخرزها خفافا ودلاء ورداء بيده وأجزائه فكل هذا من صنيع التجار فيجوز شرطه على المضارب، كذا في المبسوط‘ ‘
اگر مضارب کو بطور ِمضاربت اس شرط پر ایک ہزار درہم دیئے کہ وہ ان سے کپڑے خریدے اور اپنے ہاتھ سے انہیں کاٹ کر سیئے تو اس میں جو اللہ پاک رزق عطا فرمائے گا وہ دونوں کے درمیان نصف نصف ہوگا، تو ان کی شرائط کے مطابق یہ عقد جائز ہے، کیونکہ مضارب پر جس کام کو شرط کیا گیا ہے یہ ان کاموں میں سے ہے جو عام طور پر تاجر حضرات حصول نفع کے لئے کرتے ہیں۔ یونہی اگر مضارب سے یہ کہا کہ وہ ان دراہم سے کھالیں اور رنگ خرید کر موزے تیارے کرے اور اپنے ہاتھ سے ڈول اور چادریں بنائے تو یہ جائز ہے، کیونکہ یہ تمام کام تجار کے معمول سے ہیں لہذا ان کو مضارب پر شرط کرنا جائز ہے، مبسوط میں یونہی ہے۔ (فتاوی عالمگیری، ج04، ص 366، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
فتاوی تتارخانیہ میں ہے:
’’لو دفع إليه ألف درهم مضاربة على أن يشتري به الثياب ويقطعها بيده ويخيطها على أن ما رزق الله تعالى في ذلك من شيء فهو بيننا نصفین او على أن يشتري به الجلود والأدم يخرزها خفافا فهو جائزعلی ماشرطا‘‘
اگر مضارب کو بطور مضاربت اس شرط پر ایک ہزار درہم دیئے کہ وہ ان سے کپڑے خریدے اور اپنے ہاتھ سے انہیں کاٹ کر سیئے تو اس میں جو اللہ پاک رزق عطا فرمائے گا وہ ہم دونوں کے درمیان نصف نصف ہوگا، یا مضارب سے یہ کہا کہ وہ ان دراہم سے کھالیں اور رنگ خرید کر موزے تیارے کرے، تو ان کی شرائط کے مطابق یہ عقد جائز ہے۔" (فتاوی تتارخانیہ، ج15، ص 519، مطبوعہ کوئٹہ )
نیز اس صورت میں مضارب کو اس کام کا اضافی معاوضہ یا نفع نہ ہونے کی صورت میں اجرتِ مثل بھی نہیں ملی گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مضاربت میں مضارب کی نفع میں شرکت، اس کے عمل کی وجہ سے ہی ہوتی ہے یعنی تھوڑا یا زیادہ بہرحال اس کی طرف سے کام ہوتا ہے، اسی کی بنیاد پر وہ نفع میں شریک ہوتا ہے تو جس کام کی وجہ سے، اسے نفع میں سے حصہ ملتا ہے، اگر اس پر اجرت کا استحقاق بھی ہو تو یہ ایک کام کی وجہ سے دو طرح سے عوض وصول کرنا ہوگا، جو کہ درست نہیں ہے، لہذا مضاربت میں مضارب چاہے کتنا ہی زیادہ کام کرے، اس کو اس کام کے بدلے اضافی معاوضہ یا نفع نہ ہونے کی صورت میں اجرت مثل نہیں مل سکتی، وہ نفع ظاہر ہونے کی صورت میں محض نفع سے ہی اپنا مقررہ حصہ پا سکتا ہے، اس سے زائد کچھ نہیں۔
چنانچہ المبسوط للسرخسی میں ہے:
’’وإذا دفع إلى رجل ألف درهم مضاربة بالنصف على أن للمضارب بما عمل في المال أجر: عشرة دراهم كل شهر فهذا شرط فاسد ولا ينبغي له أن يشترط مع الربح أجرا؛ لأنه شريك في المال بحصته من الربح، وكل من كان شريكا في مال فليس ينبغي له أن يشترط أجرا فيما عمل؛ لأن المضارب يستوجب حصة من الربح على رب المال باعتبار عمله له، فلا يجوز أن يستوجب باعتبار عمله أيضا أجرا مسمى عليه، إذ يلزم عوضان لسلامة عمل واحد له، وإن اعتبرنا معنى الشركة في المضاربة كان رأس مال المضاربة عمله ورأس ماله، فلا يجوز أن يستوجب باعتبار عمله على رب المال أجرا، فإن عمل على هذا الشرط فربح فالربح على ما اشترطا، ولا أجر للمضارب في ذلك؛ لأنه ما سلم عمله بحكم الإجارة على رب المال، والمضاربة شركة، والشركة لا تبطل بالشرط الفاسد إذا كان لا يؤدي ذلك إلى قطع الشركة بينهما في الربح بعد حصوله‘‘
ترجمہ: جب کسی شخص کو بطورِ مضاربت نصف نفع پر ایک ہزار درہم دے اور یہ شرط کردے کہ مضارب جو مال میں کوئی کام کرے گا تو اس پر ہر مہینے اسے دس درہم دیئے جائیں گے تو یہ شرط فاسد ہے، اس کے لئے یہ جائز نہیں نفع کیساتھ اجرت کو بھی شرط کرے، کیونکہ وہ نفع کے حصے کی مقدار مال میں شریک ہے، اور ہر وہ شخص جو مال میں شریک ہو اس کے لئے اپنے کام کی اجرت شرط کرنا جائز نہیں ہوتا، کیونکہ مضارب اپنے کام کے بدلے رب المال سے منافع کا حصہ حاصل کرتا ہے۔ اس لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے کام کے بدلے مقرر کردہ اجرت بھی طلب کرے، کیونکہ اس صورت میں ایک ہی عمل سپرد کرنے پر دو عوض طلب کرنا لازم آئے گا، اور اگر ہم مضاربت میں شرکت کے معنی کو مدنظر رکھیں تو مضاربت کے سرمائے کا مقصد اس کا کام اور اس کا سرمایہ دونوں ہیں، لہذا اسے اپنے کام کے بدلے رب المال سے اجرت طلب کرنا جائز نہیں ہے، اگر وہ اس شرط پر کام کرے اور منافع ہو تو منافع دونوں کے درمیان معاہدے کے مطابق تقسیم ہوگا، اور مضارب کو اس پر کوئی اجرت نہیں ملے گی؛ کیونکہ اس نے اپنا کام رب المال کو اجارے کی بنیاد پر نہیں دیا، بلکہ مضاربت ایک قسم کی شرکت ہے، اور شرکت کا معاہدہ فاسد شرط کے باوجود اس وقت تک برقرار رہتا ہے جب تک کہ یہ شرط فاسد نفع کے حصول کے بعد میں اس میں شرکت کے ختم ہونے کی طرف نہ لے جائے۔ ( المبسوط للسرخسی، باب شروط المضاربۃ، ج08، ص139، مطبوعہ بیروت )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: ابو محمد محمدسرفراز اخترعطاری
مصدق: مفتی فضیل رضا عطاری
فتوی نمبر: Mul-1350
تاریخ اجراء: 24 شوال المکرم 1446 ھ/23اپریل25 20 ء