رقم دے کر نفع لینے کے جائز طریقے کیا ہیں؟

کسی کو رقم دے کر نفع لینے کے جائز طریقے

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ زید نے بکر سے کہا کہ تم مجھے بیس لاکھ روپے دے دو، میرا کپڑے کا کاروبار ہے۔ میں اس میں رقم لگاؤں گا اور مال بکنے کے بعد تمہیں پچیس لاکھ روپے دوں گا۔ اس پر بتایا گیا کہ یہ تو سود ہے۔ عرض یہ ہے کہ کیا اس کی کوئی ایسی جائز صورت ہے کہ زید کو رقم بھی مل جائے اور بکر کے لیے نفع بھی حلال ہو؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اگر زید کاروبار کے لیے بکر سے قرضہ لینا چاہے اور بکر بغیر نفع کے قرضہ دینے پر راضی نہ ہو تو اِس کے لیے نیچے دیے گئے تین جائز طریقے اور ماڈلز اختیار کیے جا سکتے ہیں۔

(1) بیع مرابحہ(Cost-plus financing)

اِس کی صورت یہ ہے کہ زید نے جو چیز قرضہ لے کر اپنے کاروبار کے لیے خریدنی ہے، وہ زید مالکانہ حیثیت سے نہ خریدے، بلکہ اَوَّلاً بکر کا وکیل بن کر خریدے، یعنی بکر 20 لاکھ روپے زید کو دے اور اُسے اپنا وکیل بنائے کہ تم جا کر میرے لیے فلاں قسم کا کپڑا خریدو اور یہ وہی کپڑا ہو گا، جو زید کو اپنے کاروبار کے لیے درکار ہے۔ زید جب کپڑا خرید لے، تو بکر اُس پر قبضہ کرے اور قبضہ کرنے کے بعد وہی 20 لاکھ کا کپڑا 25 لاکھ میں زید کو ادھار بیچ دے۔ یاد رہے کہ زید کو ادھار بیچتے ہوئے مدت کا متعین ہونا اور کسی جرمانے وغیرہ کی شرط نہ ہونا ضروری ہے، ورنہ عقد فاسد اور ناجائز ہو جائے گا۔ اب زید اُس کپڑے کو خرید کر اپنا کاروبار شروع کرے اور جب رقم کی ادائیگی کا وقت آئے تو بکر کو اِس خریدے ہوئے کپڑے کی قیمت یعنی 25 لاکھ روپے ادا کر دے۔

(2)مضاربت(Mudarabah)

دوسرا جائز طریقہ مضاربت ہے۔ مضاربت ایسا کاروباری معاہدہ ہے کہ جس میں ایک جانب سے مال اوردوسری جانب سے کام کرکے نفع میں شرکت کی جاتی ہے۔صورتِ مسئولہ میں اِسے یوں اختیار کیا جائے کہ دیگر تمام شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے بکر 20 لاکھ روپے بطورِ مضاربت زید کے سپرد کرے، کہ زید اِس رقم سے کاروبار کرے اور جو بھی نفع ہو گا، وہ زید اور بکر کے درمیان متعین فیصد کے اعتبار سے تقسیم ہو جائے، یعنی اصل 20 لاکھ بکر کے ہی رہیں گے اور جو ماہانہ نفع ہو گا، وہ باہم مشورے سے متعین کر لیں گے۔یوں بکر کو 20 لاکھ روپے انویسٹ کر کے نفع بھی ملتا رہے گا، زید کو کاروباری منافع بھی حاصل ہو جائیں گے اور جب یہ دونوں مضاربت ختم کرنا چاہیں تو بکر کو اُس کا 20 لاکھ واپس بھی مل جائے گا۔ یادرہے کہ عموماً مضاربت میں کام کرنے والے پر نقصان کی شرط لگادی جاتی ہے کہ اگر نقصان ہوا تو اس میں اتنا نقصان تمہیں (مضارِب) بھرنا پڑےگا۔ یہ شرط ناجائز و گناہ ہے، البتہ اس کی وجہ سے مُضَارَبَت فاسد نہیں ہوگی، بلکہ خود یہ شرط ہی باطل قرار دی جائے گی، کیونکہ کام کرنے والا اپنی کوتاہی سے جونقصان کرے، اس کا تو ذمّہ دارہے، اس کے علاوہ کسی نقصان کا وہ ذمہ دار نہیں ۔لہٰذا اگر کاروبار میں نفع ہونے کے بجائے نقصان ہوگیا تو یہ سارا نقصان مال والے کا ہوا،وہ اس پر کام کرنے والے سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

مضاربت کا مفہوم، شرائط اور دیگر ضروری مسائل کو جاننے کے لیے اِس لنک پر کلک کیجیے۔

https://www.fatwaqa.com/ur/fatawa/muzaribat/mudarabat-aur-is-ke-zaroori-ahkam

(3)شِرکت(Partnership)

دو یا دو سے زائد افراد کا مل کر کام کرنا شرکت(Partnership) کہلاتا ہے۔ سوال میں بیان کردہ صورت میں ”شرکتِ بالمال (Partnership by Capital)“ کو اختیار کرنا ممکن ہے، یعنی بکر 20 لاکھ روپے شامل کرے اور زید کے لیے جتنی رقم ممکن ہے، وہ بھی شامل کرے اور دونوں آپس میں پارٹنر شپ کا ایگریمنٹ کر لیں اور جو نفع ہو گا، اُسے فیصد کے اعتبار سے متعین کر لیں خواہ وہ پچاس پچاس فیصد ہی کیوں نہ ہو۔ اب اگرچہ بکر عملاً شرکت نہ کرے، سارا کام زید ہی کرے، یہ شرعاً درست ہے، لیکن یاد رہے کہ کام نہ کرنے والا پارٹنر (Sleeping Partner) اپنے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ نفع کا تناسب مقرر نہیں کرسکتا۔اِس انداز میں بکر اپنے 20 لاکھ کا مالک رہے گا اور ماہانہ یا جو مدت طے ہو، اُس اعتبار سے نفع کا حصول بھی ہوتا رہے گا۔

شرکت کا مفہوم، شرائط اور دیگر ضروری مسائل کو جاننے کے لیے اِس لنک پر کلک کیجیے۔

https://www.fatwaqa.com/ur/fatawa/shirkat/partnership-aur-is-ke-zaroori-ahkam

اِن تینوں طریقوں میں زید کو کاروبار کے لیے مال بھی حاصل ہو جائے گا، بکر کو ملنے والا نفع بھی حلال ہو گا اور کسی غیر شرعی طریقے کو اختیار کرنے سے بھی حفاظت رہے گی۔

بیع مرابحہ کے جزئیات:

”درر الحكام شرح مجلة الأحكام “ میں ”بیع مرابحہ“ کے ماڈل کے متعلق لکھا گیا:

هو البيع الذي يقع بعد بيان البائع ثمن المبيع الذي اشتراه به على ربح معلوم زيادة على ذلك الثمن و ذلك كأن يقول البائع للمشتري: قد كلفني هذا المال مائة قرش فأبيعه لك بمائة وعشرة قروش

ترجمہ:”بیعِ مرابحہ“ کاروبار کی وہ صورت ہے کہ جو یوں وقوع پذیر ہوتی ہے کہ بائع اپنی خریدی ہوئی چیز کے ثمن کو بیان کرتا ہے اور مزید معلوم نفع رکھ کر آگے بیچ دیتا ہے۔اِس کی مثال یہ ہے کہ بائع خریدار سے کہے: مجھے یہ مال 100 قِرْش(سلطنت عثمانیہ اور اُس کے علاقوں میں استعمال ہونے والی کرنسی کا نام) میں پڑا ہے، میں اِسے تمہیں 110 قِرْش میں بیچتا ہوں۔(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام، جلد 01، صفحہ 114، مطبوعہ دار الجیل)

بکر کا خود یا وکیل کے ذریعے مال پر قبضہ کرنے کےبعد آگےبیچنا جائز ہے، چنانچہ ابوحسین امام مسلم بن حجاج قشیری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(وِصال: 261ھ/ 875ء) روایت لائے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:

من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يقبضه

ترجمہ:جو شخص غلہ خریدے تو اُس پر قبضہ کرنے سے پہلے اس کو آگے ہرگز نہ بیچے۔ (صحیح المسلم، جلد 03، باب بطلان بيع المبيع قبل القبض، صفحه 1160،مطبوعه دار احیاء التراث العربی، بیروت)

اس روایت کو نقل کرنے کے بعد شمس الآئمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 483ھ / 1090ء) لکھتے ہیں:

كذلك ما سوى الطعام من المنقولات لا يجوز بيعه قبل القبض عندنا

ترجمہ: ہم احناف کے نزدیک اِس حکمِ حدیث کے مطابق غلے کے علاوہ دیگر تمام منقولی (Moveable)چیزوں کا بھی یہی حکم ہے کہ قبضے سے پہلے ان کی بیع جائز نہیں۔ (المبسوط للسرخسی، جلد 13، باب البیوع الفاسدۃ، صفحہ08، مطبوعہ دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان)

جب بکر زید کو مال بیچے گا تو ادھار بیچے گا اور ادھار بیچتے ہوئے مبیع کی قیمت (Value) کو بڑھا دینا جائز ہوتا ہے، چنانچہ کمال الدین امام ابنِ ہُمَّامرَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 861ھ / 1456ء) لکھتےہیں:

ان كون الثمن على تقدير النقد ألفا و على تقدير النسيئة ألفين ليس في معنى الربا

ترجمہ: بے شک ثمن کا نقد کی صورت میں ہزار اور ادھار کی صورت میں دو ہزار طے ہونا سودی صورت نہیں، بلکہ جائز ہے۔ (فتح القدیر، جلد 06، باب البیع الفاسد، صفحہ 447، مطبوعہ مصطفٰی الحلبی، مصر)

البتہ ادھار بیچتے ہوئے قیمت کی ادائیگی میں تاخیر یا کسی دوسری وجہ سے مالی جرمانے کی شرط رکھنا، جائز نہیں، چنانچہ امامِ اہلِ سنَّت، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1340ھ/ 1921ء) نے لکھا: تعزیر بالمال منسوخ ہےاور منسوخ پر عمل جائز نہیں۔ ”درالمختار“ میں ہے:

لاباخذمال فی المذھب

ترجمہ: روایتِ مذہب کے مطابق مال کو بطورِ جرمانہ وصول کر کے تعزیر کرنے کی اجازت نہیں۔(فتاوی رضویہ، جلد 05، صفحہ 111، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

بیع مضاربہ اور شرکت کے جزئیات:

”درر الحكام شرح مجلة الأحكام “ میں ”بیع مضاربہ“ کا تعارف یوں کروایا گیا:

المضاربة نوع شركة على أن يكون رأس المال من طرف والسعي والعمل من الطرف الآخر، ويدعى صاحب المال رب المال والعامل مضاربا

ترجمہ: ”بیعِ مضاربہ“ شرکت کی ایسی نوع ہے کہ جس میں ایک شخص کی طرف سے مال اور دوسرے شخص کی طرف سے کوشش اور عمل پایا جاتا ہے۔ جس کا مال ہو، اُسے ”رب المال(Investor) “ اور کام کرنے والے کو ”مضارِب (Working Partner)“ کہتے ہیں۔(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام، جلد 03، صفحہ 428، مطبوعہ دار الجیل)

مضاربت میں ہونے والے نقصان کے متعلق امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1340ھ /1921ء) لکھتے ہیں:” مضارب کے ذمہ نقصان کی شرط باطل ہے، وہ اپنی تعدِّی و دست درازی وتضییع کے سوا کسی نقصان کا ذمہ دار نہیں، جو نقصان واقع ہو، سب صاحبِ مال کی طرف رہے گا۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد 19، صفحہ 131، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

”Sleeping Partner“ اپنی انویسٹمنٹ کے تناسب سے زیادہ نفع وصول نہیں کر سکتا، چنانچہ صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1367ھ/ 1947ء) لکھتے ہیں: ”اگر دونوں نے اس طرح شرکت کی کہ مال دونوں کا ہوگا، مگر کام فقط ایک ہی کرے گااور نفع دونوں لیں گے اور نفع کی تقسیم مال کے حساب سے ہوگی یا برابر لیں گے یا کام کرنے والے کو زیادہ ملے گا، تو جائز ہے اور اگر کام نہ کرنے والے کو زیادہ ملے گا تو شرکت ناجائز۔“ (بھار شریعت، جلد 02، حصہ 10، صفحہ499، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FSD-9087

تاریخ اجراء: 05 ربیع الاوَّل 1446ھ /10 ستمبر 2024