
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ امجد نے قاسم کو جانوروں کے کاروبار کے لیے ایک لاکھ بیس ہزار روپے دئیے، جس میں طے یہ ہوا کہ اس کا نفع جو ہوگا وہ امجد اور قاسم کے درمیان آدھا آدھا ہوگا۔ پیسہ سارا امجد کا تھا اور جانوروں کی دیکھ بھال قاسم کرتا تھا، جانوروں کے اوپر جو خرچ ہوتا وہ نفع میں سے کیا جاتا۔ اب اس کام میں سے نقصان ہوا، آیا کہ نقصان بھی امجد اور قاسم کے درمیان آدھا آدھا ہوگا، یا نقصان کسی ایک پر ہوگا؟ اگر ایک پر ہوگا تو کس پر ہوگا امجد پر یا قاسم پر؟ نفع زیادہ ہے نقصان کم ہے یعنی اگر ایک لاکھ روپے نفع ہوا ہے تو اس میں سے 40 ہزار نقصان ہوا ہے۔اب یہ 40 ہزار کوئی ایک دے گا یا دونوں آدھا آدھا دیں گے، یا پھر نفع میں سے نقصان کو پورا کیا جائے گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
بیان کردہ صورت کے مطابق جبکہ جانوروں کے اس کاروبار میں امجد نے رقم انویسٹ کی ہے اور قاسم کام کر رہا ہے، تو یہ فقہی اصطلاح کے اعتبار سے ”مُضاربت“ کی صورت ہے۔ مضاربت میں نقصان ہو جائے، تو اِس کا اصول یہ ہوتا ہے کہ اگر کام کرنے والے کی لاپرواہی و کوتاہی کے بغیر نقصان ہو، تو اُسے نفع سے پورا کیا جاتا ہے، اور اگر مضاربت میں ہونے والا نقصان، نفع سے زیادہ ہو، تو ایسی صورت میں یہ نقصان، رب المال (Investor) کا ہوتا ہے، مُضارب (Working Partner) یعنی کام کرنے والا نقصان میں شریک نہیں ہوتا، بلکہ اس کی صرف محنت ضائع جاتی ہے۔ پوچھی گئی صورت میں سب سے پہلے تو نفع کی رقم سے جانوروں پر ہونے والے اخراجات کو پورا کر کے راس المال یعنی انویسٹر کی طرف سے دئیے جانے والے سرمایہ کی رقم کو پورا کیا جائےگا، اس کے بعد نفع سے بچ جانے والا روپیہ، اگر نقصان سے زیادہ ہو، جیسے اخراجات پورا کرنے کے بعد ایک لاکھ روپے نفع کے بچ گئے اور چالیس ہزار روپے کا نقصان ہوا ہے، تو چونکہ نفع کی رقم نقصان سے زیادہ ہے،لہذا نفع کی رقم سے چالیس ہزار روپے کے نقصان کو پورا کیا جائے گا، اور اب نفع کے صرف ساٹھ ہزا ر باقی ہوں گے، جو کہ مضارب(قاسم) اور رب المال (امجد) میں سے ہر ایک کے درمیان ان کے طے شدہ حصہ کے مطابق آدھا، آدھا تقسیم ہوگا۔
جب فریقین میں سے ایک کا پیسہ، اور دوسرے کا کام ہو، تو یہ مضاربت کہلاتی ہے، چنانچہ تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:
(عقدشرکۃ فی الربح بمال من جانب (رب المال) و عمل من جانب) المضارب
ترجمہ:مضاربت تو وہ رب المال کی طرف سے مال کے ساتھ، اور مضارب کی طرف سے عمل کے ساتھ نفع میں شرکت کا ایک عقد ہے۔ (تنویر الابصار مع در مختار، جلد 8، کتاب المضاربۃ، صفحہ 497، دار المعرفۃ، بیروت)
مضاربت میں حاصل ہونے والے نفع سے سب سے پہلے اخراجات پورے کرکے راس المال کی مقدار کو پورا کیا جائے گا، چنانچہ تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:
(و يأخذ المالك قدر ما أنفقه المضارب من رأس المال إن كان ثمة ربح، فإن استوفاه و فضل شيء) من الربح (اقتسماه) على الشرط، لأن ما أنفقه يجعل كالهالك، و الهالك يصرف إلى الربح كما مر (و إن لم يظهر ربح فلا شيء عليه) أي المضارب
ترجمہ: اگرمضاربت میں نفع ہو، تو مالک اتنا مال لے گا جتنا مضارب نے راس المال میں سے خرچ کیا، پھر اگر وہ نفع، راس المال کو پورا کردے اور نفع میں سے کچھ بچ بھی جائے، تو وہ دونوں اس نفع کوطے شدہ حساب سے آپس میں تقسیم کرلیں، کیونکہ جو اس نے خرچ کیا وہ ہلاک ہونے والے کی طرح ہے اور ہلاک ہونے والے کو نفع کی طرف پھیرا جاتا ہے، جیسا کہ گزرا اور اگر نفع ظاہر نہ ہو، تو مضارب پر کچھ نہیں ہے۔ (تنویر الابصار مع در مختار، جلد 8، کتاب المضاربۃ، صفحہ 517، دار المعرفۃ، بیروت)
بہار شریعت میں ہے: ’’جو کچھ نفع ہوا پہلے اس سے وہ اخراجات پورے کیے جائیں گے جو مضارِب نے راس المال سے کیے ہیں، جب راس المال کی مقدار پوری ہوگئی، اُس کے بعد کچھ نفع بچا، تو اُسے دونوں حسبِ شرائط تقسیم کرلیں اور نفع کچھ نہیں ہے تو کچھ نہیں۔“ (بھار شریعت، جلد 3، حصہ 14، صفحہ 25، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اگر مضاربت میں ہونے والا نقصان نفع سے کم ہو، تو اسے بھی نفع سے پورا کیا جائے گا، چنانچہ ہدایہ میں ہے:
و ما هلك من مال المضاربة فهو من الربح دون رأس المال لأن الربح تابع و صرف الهلاك إلى ما هو التبع أولى كما يصرف الهلاك إلى العفو في الزكاة، فإن زاد الهالك على الربح فلا ضمان على المضارب لأنه أمين
ترجمہ: اور مال مضاربت سے جو ہلاک ہوگا،وہ نفع سے ہوگا، راس المال سے نہیں ہوگا، کیونکہ نفع تابع ہے اور ہلاک شدہ مال کو تابع کی طرف پھیرنا اولی ہے جیسا کہ زکوۃ میں ہلاک شدہ مال کو عفو کی طرف پھیرا جاتا ہے، اگر ہلاک ہونے والا مال نفع سے زائد ہو تو مضارب پر ضمان نہیں ہوگا،کیونکہ وہ امین ہے۔ (ھدایہ، جلد 3، کتاب المضاربۃ، صفحہ 207، دار احياء التراث العربي، بيروت)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشادفرماتے ہیں: ’’مضارب کے ذمہ نقصان کی شرط باطل ہے، وہ اپنی تعدی ودست درازی وتضییع کے سوا کسی نقصان کا ذمہ دار نہیں، جو نقصان واقع ہو، سب صاحبِ مال کی طرف رہے گا۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ، جلد 19، صفحہ 131، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی بہارِ شریعت میں ارشاد فرماتے ہیں: ”مالِ مضارَبت سے جو کچھ ہلاک اور ضائع ہوگا وہ نفع کی طرف شمار ہوگا، راس المال میں نقصانات کو نہیں شمار کیا جاسکتا مثلاً سو روپے تھے تجارت میں بیس20روپے کا نفع ہوا اور دس 10روپے ضائع ہوگئے تو یہ نفع میں منہا کیے جائیں گے یعنی اب دس 10 ہی روپے نفع کے باقی ہیں۔ اگر نقصان اتنا ہوا کہ نفع اُس کو پورا نہیں کرسکتا، مثلاً بیس 20 نفع کے ہیں اور پچاس 50 کانقصان ہوا، تویہ نقصان راس المال میں ہوگا مضارِب سے کُل یا نصف نہیں لے سکتا کیونکہ وہ امین ہے اور امین پر ضمان نہیں اگر چہ وہ نقصان مضارِب کے ہی فعل سے ہوا ہو۔ ہاں اگر جان بوجھ کر قصداً اُس نے نقصان پہنچایا مثلاً شیشہ کی چیز قصداً اُس نے پٹک دی۔ اس صورت میں تاوان دینا ہوگا کہ اس کی اُسے اجازت نہ تھی۔“(بھار شریعت، جلد 3، حصہ 14، صفحہ 19، 20، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-491
تاریخ اجراء: 22 محرم الحرام 1446ھ / 29 جولائی 2024ء