شرکت کی آمدنی دوسرے کاروبار میں لگانا کیسا؟

مال شرکت کو کسی دوسرے کام میں لگانا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا تین سے چار آئٹمز میں پارٹنرشپ پر کام چل رہا ہے۔جس میں سے ایک پیمپرز کا کام ہے جس میں میرے ساتھ تین پارٹنرز ہیں۔ اسی طرح ایک کولڈ ڈرنکس کا کام ہے، جس میں دو پارٹنرز ہیں۔ اسی طرح ایک دو اور کام ہیں جن میں بھی پارٹنرز ہیں۔اور ان مختلف کاموں سے آنے والی آمدن کا ریکارڈ بھی میرے پاس موجود ہوتا ہے اور ہر آئٹم کا حساب کتاب اور نفع نقصان الگ الگ تقسیم کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات مجھے کسی ایک آئٹم مثلا پیمپرز پر اچھا ڈسکاؤنٹ مل رہا ہوتا ہے جس کے سبب مجھے اس میں زیادہ انویسٹمنٹ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ تو میں اب اس مشترکہ مال(جو مختلف آئٹمز سے حاصل ہوا) میں سے پیمپرز کی خریداری میں انویسٹ کردیتا ہوں۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ میرا اس طرح مختلف کاموں سے آنے والی آمدن کا کسی ایک آئٹم میں انویسٹمنٹ کرنا کیسا؟ اور اگر میں سب آئٹمز کے اپنے شرکاء سے صراحتاً اجازت لے لوں تو کیا یہ درست رہے گا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

آپ نے جو تفصیل بتائی اس کے مطابق آپ کا ہر آئٹم کا کاروبار ایک جدا گانہ کاروبار ہے۔ اسی لئے آپ ہر ایک کا نفع و نقصان کا حساب کتاب بھی الگ رکھتے ہیں۔ تو ایسی صورت میں جب ایک آئٹم کی آمدن، دوسرے آئٹم کے کاروبار میں لگائیں گے تو یہ ایسے ہی ہےجیسے آپ نے ایک کاروبار کا مال دوسرے کاروبار میں لگا دیا۔ اور یہ اس غرض سے ہوتا ہے کہ وہ رقم آپ اس کاروبار کو واپس بھی کریں گے، تو یہ قرض کی ایک صورت بنتی ہے۔ گویا آپ ایک کاروبار کی رقم بطور قرض دوسرے کاروبار میں لگاتے ہیں۔ لیکن شرعی اصول یہ ہے کہ شریک (پارٹنر) کو دوسرے شرکاء کی صریح اجازت کے بغیر مالِ شرکت میں سے قرض لینے کی اجازت نہیں اور نہ ہی ایسا کام کرنے کی اجازت ہے جس سے مال کا تلف کرنا لازم آئے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ کا اپنے شرکاء سے اجازت لیے بغیر اس طرح ایک کاروبار کا مال دوسرے کاروبار میں صرف کرنا، جائز نہیں۔

البتہ اگر آپ سب آئٹمز کے اپنے شرکاء سے صراحتاً اس طرح کرنے کی اجازت لے لیں توپھر آپ کا اس طرح کرنا درست ہوجائے گا۔ لیکن کس کاروبار کی کتنی رقم قرض کے طور پر دوسرے کاروبار میں صرف ہوئی، اس کا حساب کتاب رکھنا اور پھر واپس اسی کاروبار میں اتنی رقم ڈالنا آپ کی ذمہ داری ہوگی۔

درر الحکام، تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:

و اللفظ للتنویر "و لا یجوز لھما فی عنان و مفاوضۃ۔۔۔ الھبۃ۔۔۔ و لا القرض الا باذن شریکہ اذنا صریحا فیہ۔۔۔ و کذا کل ماکان اتلافا للمال"

یعنی: شریکِ عنان ومفاوضہ کیلئے بغیردوسرے شریک کی صریح اجازت کے ہبہ ،قرض دینا جائز نہیں اور نہ ہی ہر وہ کام جائز ہے کہ جس میں مال کو تلف کرنا پایا جائے۔ ملتقطا (تنویر الابصار مع در مختار، كتاب الشركة، جلد 4، صفحه 318، مطبوعه دار الفكر، بيروت)

مذکورہ بالا عبارت کے تحت ردالمحتار میں علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

قولہ: و لا القرض ای الاقراض فی ظاھر الروایۃ

یعنی: صاحب تنویر الابصار کا قول "و لا القرض"سے مراد کسی کو مال شرکت میں سے قرضہ دینا جائز نہیں ظاہر الروایۃ کے مطابق۔ (رد المحتار، كتاب الشركة، جلد 4، صفحه 318، مطبوعه دار الفكر، بيروت)

قرض کی تعریف کے متعلق النهایہ فی شرح الہدایہ اور تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:

و اللفظ للآخر "القرض (هو) لغة: ما تعطيه لتتقاضاه، و شرعا: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه"

یعنی: لغت میں قرض: وہ چیز ہے جوکسی کو دی جائے تاکہ بعد میں واپسی کا تقاضا کیا جاسکے اور شرعاً: قرض اس معاہدے کو کہتے ہیں جس میں کوئی شخص کسی دوسرے کو ایسی چیز دیتا ہے جو مثلی ہو، تاکہ وہ بعد میں ویسی ہی چیز اس سے واپس لینےکا مطالبہ کرسکے۔(تنویر الابصار مع در مختار، فصل فی القرض، جلد 5، صفحه 161، مطبوعه دار الفكر، بيروت)

فتاوی رضویہ شریف میں سیدی اعلی حضرت ،امام اہلسنت،الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں: "بزازیہ و بحر الرائق وردالمحتار و تنویرالابصار وسراج وہاج وغیرہ میں ہے:

الھبۃ و القرض و ماکان اتلافا للمال او تملیکا من غیر عوض فانہ لایجوز مالم یصرح بہ نصااھ اقول: ھذا افادون فی شریکی العنان و المفاوضۃ مع ان کلامنھما وکیل عن صاحبہ و ماذون التصرف فی المال من جانبہ

یعنی: ہبہ اورقرض اور جس صورت میں مال کو تلف کرنا یابغیر عوض کے مالك بنانا پایا جائے ان صورتوں میں جب تك صراحتًا تصرف کی اجازت نہ دی گئی ہو ان میں تصرف کرنا، جائز نہیں اھ، میں کہتاہوں یہ ممانعت شرکت عنان ومفاوضہ میں ہے باوجودیکہ ان میں ہر ایك دوسرے کا وکیل ہوتاہے اورہرایك کو دوسرے کی طرف سے تصرف کی اجازت ہوتی ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 25، صفحہ 344، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

جو رقم میں امین ہو وہ صاحبِ مال کی اجازت سے بطور قرض تصرف کر سکتا ہے۔ چنانچہ فتاوی رضویہ شریف میں سیدی اعلی حضرت، امام اہلسنت، الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے مدرسے کے چندے میں تصرف کرنے کے متعلق سوال ہوا جس کےجواب میں آپ نے ارشاد فرمایا: "زر امانت میں اس کو تصرف حرام ہے۔۔۔ اگر کرے گا امین نہ رہےگا اور تاوان دینا آئے گا۔۔۔ ہاں چندہ دہندہ اجازت دے جائیں تو حرج نہیں، اس حالت میں جب سیٹھ تصرف کرے گا روپیہ امانت سے نکل کر اس پر قرض ہوجائے گاجو عندالطلب دینا آئے گا اگرچہ کوئی میعاد مقررکردی ہو۔ (فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 166، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: محمد ساجد عطاری

مصدق: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: NRL- 0318

تاریخ اجراء: 25ذو الحجۃ الحرام1446 ھ/23جون2025ء