
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میرے بھانجے کا فروٹ کا کام تھا ، میں نے اور میرے بھائی نے اس کو ڈیڑھ، ڈیڑھ لاکھ روپےدئیے (یعنی ڈیڑھ لاکھ میں نے اور ڈیڑھ لاکھ میرے بھائی نے) اور اس کو اس بات کا پابند کیا کہ ان سے الگ الگ تجارت کرنا، ان کا حساب کتاب الگ الگ ہی ہوگا، اس نے اس بات پر عمل کیا اور دونوں مالوں کو آپس میں نہیں ملایا۔ اس میں میرا معاہدہ اس طرح ہوا تھا کہ میرے ڈیڑھ لاکھ روپے سے فروٹ خریدو اور جو نفع ہو مجھے اس میں سے آدھا دے دینا، آدھا تمہارا ہوگا! تو وہ جب منڈی گیا، وہاں اسے مناسب قیمت میں اچھا سودا مل رہا تھا لیکن اس کیلئے ڈیڑھ لاکھ روپے کم پڑ رہے تھے، تو اس نے اس میں اپنے 50 ہزار روپے ملادئیے، یوں اس نے دولاکھ روپے کا مال خرید لیا اور اس طرح ہمارے فروٹ کے کام میں ہوتا بھی ہے کہ اگر مناسب سودا مل رہا ہو اور پیسے کم ہوں تو اپنے پیسے ملاکر مال خرید لیا جاتا ہے، اب اس نے یہاں اپنے شہر کراچی میں لاکر بیچا تو اس سے ٹوٹل 35 ہزار روپے کا پرافٹ ہوا۔
اور میرے بھائی کا اس سے معاہدہ اس طرح ہوا تھا کہ اس سے فروٹ خریدو، اس کام میں جو بھی نفع ہو، اس میں سے صرف 25 فىصد بھائی کا ہوگا، باقی 75 فيصد اس کا ہوگا۔ قضائے الٰہی سے درمیان میں ہی میرے بھائی کا انتقال ہوگیا اور ابھی ان کا آدھا مال ہی میرا بھانجا بیچ پایا ہے، اس میں سے آدھا مال موجود ہے۔
پوچھنا یہ ہے کہ:
(1) میرے معاہدے میں کل مال بک جانے کے بعد جو 35 ہزار روپے کا پرافٹ ہوا، اس کو کس طرح تقسیم کیا جائے گا؟ یعنی میرے والے مال میں 50 ہزار روپے میرے بھانجے نے بھی لگائے ہیں، اس کے بعد بھی ٹوٹل نفع میں سے آدھا آدھا ہوگا یا اس میں کوئی تبدیلی ہوگی؟
(2) میرے مرحوم بھائی کے پیسوں سے خریدے ہوئے باقی مال کو بیچنے کا بھانجے کو حق حاصل ہے یا نہیں؟ اور اس میں جو پرافٹ ہوگا، اس میں سے اس کو مقررہ نفع ملے گا یا سب میرے بھائی کے بچوں بچیوں کا ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
دونوں صورتوں کا حکم درج ذیل ہے:
(1) آپ کے اور آپ کے بھانجے کے مشترکہ پیسوں یعنی 2 لاکھ روپے سے خریدے ہوئے مال کو بیچ کر جو 35 ہزار روپے کا نفع ہوا، اس کو آپ دونوں کے سرمایہ کے تناسب کے حساب سے تقسیم کیا جائے گا، لہٰذا اس 35 ہزار روپے میں سے 8750 روپے تو آپ کے بھانجے کو ملیں گے، باقی 26250 روپے مال مضاربت کا نفع ہے، اس کو آپ کی طے شدہ قرارداد کے مطابق آدھا آدھا تقسیم کیا جائے گا، لہٰذا اس میں سے بھی آپ کے بھانجے کو 13125 روپے ملیں گے۔
(2) دوسرے فوت ہونے والے بھائی کے متعلق بیان کردہ صورت میں شرعی اعتبار سے آپ کے بھانجے کو باقی ماندہ مال بیچنے کا حق حاصل ہے اور اس میں نفع ہونے کی صورت میں اس بھانجے کو 75 فیصد حصہ بھی ملے گا، البتہ اس بھانجے پر یہ ضرور لازم ہے کہ وہ جتنا مال بیچ چکا ہے، اس کے پیسوں سے مزید خریداری نہ کرے اور باقی ماندہ مال کو بھی بیچے تو اسی شہر میں بیچے، کسی دوسرے شہر لے جاکر بیچنے کی اجازت نہیں۔
مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ یہاں دو الگ الگ معاہدے ہیں، ہر ایک میں جداجدا ایک طرف سے کام اور دوسری طرف سے صرف مال تھا، لہٰذا یہ دونوں معاہدے شرعی اعتبار سے عقد مضاربت ہیں، چنانچہ مضاربت کی تعریف کے متعلق شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
معناها الشرعي: نوع شركة في الربح على أن يكون رأس المال من طرف أي من جانب رب المال و لو كان متعددا، و السعي و العمل من الطرف الآخر و لو كان متعددا
ترجمہ: مضاربت کا شرعی معنیٰ یہ ہے کہ مضاربت نفع میں ایک طرح کی شرکت کا نام ہے، اس طرح کہ رأس المال رب المال کی طرف سے ہوگا اگرچہ وہ ایک سے زیادہ ہوں اور کام و کوشش دوسری طرف سے ہوگی اگرچہ وہ بھی ایک سے زائد ہوں۔ (درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام، ج 03، ص 425، المادۃ: 1404، دار الجیل)
اور پہلے معاہدے میں مضارب (بھانجے) کیلئے اپنے ذاتی پیسے مال مضاربت سے ملانا جائز تھا، کیونکہ سائل کی تصریح کے مطابق ان کے درمیان یہ عرف و عادت جاری ہے کہ ضرورت پڑنے کی صورت میں لوگ اس طرح اپنا مال ملالیتے ہیں اور اصل مالکان راضی ہوتے ہیں، منع نہیں کرتے، اور جب تاجروں میں اس طرح کا عرف ہو تو مضارب اپنا مال بھی مال مضاربت میں شامل کرسکتا ہے، چنانچہ فتاوٰی تاتارخانیہ، مجلۃ الاحکام العدلیہ اور مجمع الضمانات میں ہے،
بالفاظ متقاربۃ: لا يكون المضارب في المضاربة مأذونابمجرد عقد المضاربة بخلط مال المضاربة بماله و لا بإعطائه مضاربة، لكن إذا كان في بلدة من العادة فيها أن المضاربين يخلطون مال المضاربة بمالهم فيكون المضارب مأذونا بذلك في المضاربة المطلقة أيضا
ترجمہ: مضارب کو مضاربت میں صرف عقد مضاربت کی وجہ سے یہ اجازت نہیں مل جاتی کہ وہ مال مضاربت سے اپنا مال ملائے یا اس کو آگے کسی اور کو مضاربت پر دے دے لیکن جب شہر میں مضاربت کے متعلق یہ عادت ہو کہ مضار بین اس طرح مال مضاربت کو اپنے مال سے ملادیتے ہیں تو مضارب کو مضاربت مطلقہ میں بھی اس کی اجازت مل جائے گی۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، ج 15، ص 416، کوئٹہ) (مجلۃ الاحکام العدلیۃ، ج 01، ص 274، مطبوعہ کراچی)
امام اہلسنت علیہ الرحمۃ مضارب پر ضمان نہ ہونے کی صورتیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ھذا کلہ اذا لم یخلط او خلط و کان زید قال لہ ان اعمل فیہ کما تری او کان الخلط ھناك معروفا بین التجار اما اذا عرٰی عن ھذہ الوجوہ ضمن مال زید تماما لانہ استھلکہ بالخلط بغیر اذن و لا عرف فعاد غاصبا بعد ماکان مضاربا فعلیہ وضیعۃ و لہ ربحہ و لا یطھر لہ ربح مال المضاربۃ عند الامام و محمد رضی ﷲ تعالٰی عنھما فیتصدق بہ الا اذا اختلف الجنس فان الربح لایظھر الا عند اتحادہ
ترجمہ: یہ تمام بیان اس صورت میں ہے جبکہ اس نے اپنا ذاتی مال مضاربت کے مال میں نہ ملایا ہو یا اس نے ملایا اور زید (رب المال) نے اسے کہہ رکھا تھا کہ اپنی رائے سے جو چاہو کرو یا وہاں تاجروں میں اس طرح مال کو آپس میں ملادینا معروف ہے ورنہ ان صورتوں کے بغیر مال کو ملادینے سے عمرو، زیدکے تمام مال کا ضامن ہوگا کیونکہ اجازت اورعرف کے بغیر مال کو ملاکر اس نے مضاربت کے مال کو ہلاك کردیا اور مضارب کی بجائے وہ غاصب بن گیا اب نقصان اسی کا ہے اورمضاربت سے حاصل شدہ نفع بھی اسی کے لئے، اور امام ابوحنیفہ اور امام محمد رضی الله تعالیٰ عنہما کے نزدیك مال مضاربت کا نفع اس کے لئے پاك نہ ہوگا لہٰذا وہ اس کو صدقہ کرے گا ہاں اگر نفع اور رأس المال کی جنس مختلف ہو تو نفع اس کے لیےپاك ہوگا، کیونکہ نفع اتحاد جنس کی صورت میں ظاہر ہوتاہے۔ (فتاوٰی رضویہ، ج 19، ص 143، رضا فاونڈیشن، لاہور)
لہٰذا جب اپنے ذاتی پیسے ملانا اس کیلئے جائز تھا اس لئے وہ غاصب نہیں ہوگا اور سارا نفع اس کا نہیں ہوگا بلکہ دونوں کے سرمایہ کے تناسب کے حساب سے نفع کو تقسیم کیا جائے گا یعنی مضارب (بھانجے) کے ذاتی مال کا نفع تو مکمل اسی کو ملے گا اور باقی نفع کو مضاربت کی قرارداد کے مطابق تقسیم کیا جائے گا، چنانچہ المعاییر الشرعیہ اور شرح مجلہ میں ہے،
و اللفظ للآخر : (إذا خلط المضارب مال المضاربة بماله فيقسم الربح الحاصل على مقدار رأسي المال أي أنه يأخذ ربح رأس ماله و يقسم مال المضاربة بينه و بين رب المال على الوجه الذي شرطاه)۔۔ أي أنه يأخذ ربح رأس ماله خاصة؛ لأنه ربح ماله و يقسم ربح مال المضاربة بينه وبين رب المال على الوجه الذي شرطاه، مثلا لو أعطى رب المال خمسين دينارا مضاربة لآخر بنصف الربح و خلط المضارب على الوجه المبين في هذه المادة مال المضاربة المذكور بمائة دينار له و ربح ثلاثين فتكون عشرون دينارا ربح رأس ماله و تكون للمضارب خاصة و تكون عشرة دنانير الباقية ربح مال المضاربة فيقتسمها مع رب المال مناصفة
ترجمہ: جب مضارب نے مالِ مضاربت کو اپنے مال سے ملایا تو اس سے حاصل ہونے والے نفع کو دونوں کے رأس المال کی مقدار کے مطابق تقسیم کیا جائے گا یعنی وہ اپنے مال کا نفع تو خود لے لے گا اور مالِ مضاربت کو اس کے اور رب المال کے درمیان طے شدہ قرارداد کے مطابق تقسیم کردیا جائے گا۔۔ یعنی مضارب اپنے مال کا نفع تو خاص طور پر خود ہی لے گا ،کیونکہ وہ اسی کے مال کا نفع ہے اور مالِ مضاربت کے نفع کو اس کے اور رب المال کے درمیان طے شدہ قرارداد کے مطابق تقسیم کردیا جائے گا،جیسے اگر رب المال نے کسی کو پچاس دینار آدھے آدھے نفع کی قرارداد پر مضاربت پر دئیے تھے اور مضارب نے (اس مادہ میں بیان کردہ صورت کے مطابق) مذکورہ مال مضاربت میں اپنے ذاتی سو دینار بھی ملادئیے اور تیس دینار کا نفع ہوا تو بیس دینار مضارب کے مال کا نفع کہلائے گا اور وہ صرف اور صرف مضارب کو ملے گا جبکہ باقی دس دینار مالِ مضاربت کا نفع ہے جس کو مضارب و رب المال کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کردیا جائے گا۔ (المعاییر الشرعیۃ، المعیار الشرعی رقم: 13، ص 343،مطبوعہ بحرین) (درر الحکام، المادۃ: 1417، ج 03، ص 449، دار الجیل)
اس تمام تفصیل کے مطابق پہلی صورت میں ٹوٹل سرمایہ دو لاکھ روپے ہے جس میں سے ڈیڑھ لاکھ روپے (%75) رب المال (ماموں) کے جبکہ 50 ہزار روپے (%25) مضارب (بھانجے)کے ہیں، لہٰذا ٹوٹل نفع یعنی 35 ہزار روپے میں سے8750 روپے خاص بھانجے کے ہیں، کیونکہ یہ نفع کا 25 فیصد ہے اور باقی 26250 روپے مال مضاربت کا نفع ہے جو کل نفع کا 75 فیصد ہے، جس میں سے آدھا بھانجے کو ملے گا اور آدھا ماموں کو۔
اور دوسرے معاہدے میں شرعی اعتبار سے بھانجے کو باقی ماندہ فروٹ بیچ کر نقد کرنے تک کا حق حاصل ہے، کیونکہ جب رب المال کا انتقال ہوجائے اور مال مضاربت عروض کی صورت میں ہو تو صرف مال مضاربت کو دوسرے شہر میں لے جانے کا حق باطل ہوتا ہے، باقی تصرف کا حق اسے حاصل رہتاہے، چنانچہ شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
و إذا توفي رب المال و كان مال المضاربة الموجود من جنس رأس المال فتبطل المضاربة في حق التصرف و ليس للمضارب التصرف بعد ذلك فيها. أما إذا كان المال الموجود عروضا فتبطل المضاربة في حق المسافرۃ و لا تبطل في حق التصرف، و للمضارب أن يبيع العروض المذكورة في بلدة رب المال مقابل عروض أو نقد أي له بيع مال المضاربة بعرض و نقد ثم يكون العرض الثاني كالأول فله بيعه بعرض أيضا إلى أن يصير مال المضاربة مثل رأس المال و لكن ليس له نقل تلك العروض إلى غير بلدة رب المال
ترجمہ: اور جب رب المال کا انتقال ہوجائے اور موجودہ مال مضاربت رأس المال کی جنس سے ہو تو تصرف کے حق میں مضاربت باطل ہوجاتی ہے، اور اس کے بعد مضارب کیلئے اس مال میں تصرف کرنا جائز نہیں رہتا، ہاں! اگر موجودہ مال سامان کی صورت میں ہو تو سفر کے حق میں مضاربت باطل ہوجائے گی اور تصرف کے حق میں باطل نہیں ہوگی، لہٰذا مضارب کیلئے یہ جائز ہوگا کہ وہ مذکورہ سامان رب المال کے شہر میں سامان یا نقد کے بدلے فروخت کرے یعنی اس کیلئے مالِ مضاربت کو سامان و نقد دونوں کے بدلے میں فروخت کرنا جائز ہے پھر دوسرا سامان پہلے کی طرح ہوجائے گا تو اس کو بھی سامان کے بدلے بیچنا جائز ہوگا یہاں تک کہ مالِ مضاربت رأس المال کی مثل ہوجائے لیکن اس کیلئے اس سامان کو رب المال کے شہر کے علاوہ کسی دوسرے شہر میں منتقل کرنا جائز نہیں۔ (درر الحکام، ج 02، ص 459، دار الجیل)
بہار شریعت میں ہے: ”دونوں میں سے ایک کے مرجانے سے مضاربت باطل ہوجاتی ہے۔۔ اگر مالک مرگیا اور مال تجارت نقد کی صورت میں موجود ہے، تو مضارب اس میں تصرف نہیں کرسکتا ہے اور سامان کی شکل میں ہے تو اس کو سفر میں نہیں لے جاسکتا، بیع کرسکتا ہے۔“ (بہار شریعت، ج 03، ص 16، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
اور مال بیچنے کے بعد نفع ہونے کی صورت میں اس کو طے شدہ قرارداد کے مطابق نفع میں سے حصہ بھی ملے گا، کیونکہ اس کو رب المال کے انتقال کے باوجود جو مال بیچنے کا اب بھی حق حاصل ہے، وہ اسی وجہ سے ہے کہ اس کا بھی نفع میں حصہ ہے، امام زیلعی علیہ الرحمۃ تبیین الحقائق میں لکھتے ہیں:
علم المضارب بالعزل و مال المضاربة عروض باع العروض و لا ينعزل من ذلك؛ لأن له حقا في الربح و لا يظهر إلا بالنض فثبت له حق البيع ليظهر ذلك قال - رحمه الله - (ثم لا يتصرف في ثمنها)؛ لأن البيع بعد العزل كان للضرورة حتى يظهر الربح إن كان فيه و لا حاجة إليه بعد النض فصار كما إذا عزله بعد ما نض و صار من جنس رأس المال۔۔ و موته و ارتداده مع اللحوق وجنونه مطبقا و المال عروض كعزله والمال عروض حتى لا يمنعه موت رب المال من بيعه كما لا يمنعه عزله منه؛ لأن جواز بيعه له بعد العزل لأجل حق المضارب لاحتمال أن يكون فيه ربح فيظهر، و ذلك لا يختلف بين أن يكون العزل حكميا، أو قصديا؛ لأن حقه ثابت فيه على كل حال
ترجمہ: مضارب کو اپنی معزولی کا علم ہوا اور مالِ مضاربت سامان کی صورت میں ہے تو وہ اس سامان کو بیچے گا اور وہ رب المال کے معزول کردینے سے معزول نہ ہوگا، کیونکہ نفع میں اس کا بھی حق ہے اور نفع کا ظہور اسی وقت ہوگا جبکہ مالِ مضاربت نقد کی صورت میں ہو، لہٰذا مضارب کیلئے اس سامان کو بیچنے کا حق ثابت ہوگا تاکہ نفع ظاہر ہو پھر مصنف علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمایا کہ اس کے بعد مضارب اس کے ثمن میں تصرف نہیں کرسکتا، کیونکہ معزولی کے بعد بھی مال کو بیچنے کا حق اس ضرورت کی وجہ سے ثابت ہوا تھا کہ اگر اس مال میں نفع ہو تو وہ ظاہر ہوجائے اور جب مال خود نقد موجود ہے تو اس کے بعد مزید بیچنے کی حاجت نہیں تو یہ ایسا ہی ہوگیا جیساکہ رب المال نے مضارب کو معزول کیا اور مال نقد کی صورت میں موجود تھا اور رأس المال کی جنس سے تھا، اور جب مالِ مضاربت سامان کی صورت میں ہو اس وقت رب المال کا مرجانا، اس کا معاذ اللہ مرتد ہوکر دار الحرب چلے جانا اور جنون مطبق میں مبتلا ہوجانا بھی اسی طرح ہے جیسے اس کو معزول کیا گیا ہو اور مال سامان کی صورت میں ہو، یہاں تک کہ رب المال کی موت اس کو موجودہ سامان بیچنے سے نہیں روک سکتی، جیساکہ اس کو رب المال کا معزول کردینا بیع سے نہیں روک سکتا، کیونکہ رب المال کے معزول کردینے کے بعد بھی اس کیلئے سامان کو بیچنے کا جواز مضارب کے حق کی وجہ سے ہے، اس احتمال کی وجہ سے کہ اس مال میں نفع ہو تو وہ ظاہر ہوجائے اور یہ علت اس بات میں مختلف نہیں کہ عزل حکمی ہو یا قصدی، کیونکہ مضارب کا حق تو ہر حال میں ثابت ہے۔ (تبیین الحقائق، ج 05، ص 67، المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: HAB-0598
تاریخ اجراء: 01 محرم الحرام 1447ھ / 27 جون 2025ء