چلتے کاروبار میں پیسہ لگانا کیسا؟

چلتے کاروبار کا حکم اور جائز طریقہ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9131

تاریخ اجراء:06 ربیع الثانی 1446 ھ / 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ  زید  کی دوکان ہے، جس میں تقریباً ڈیڑھ، دو لاکھ روپے  کا مال موجود ہے، بکر  نے زید کو دو لاکھ روپے دئیے کہ میرے یہ پیسے اپنے کاروبار میں لگا لو، ہم مشترکہ کام کرتے ہیں  اور  طے یہ کیا کہ ہر ماہ نفع کا نہیں، بلکہ جو بھی ٹوٹل سیل  ہوگی، اس کا 2  فیصد   مجھے  دیتے رہنا  ، باقی تمام معاملات تمہارے ذمہ ہوں گے،   تو  زید نے اس سے پیسے لے کر کام میں شامل کر لیے۔ شرعی رہنمائی فرمائیں کہ زید و بکر کا باہم یہ معاہدہ کرنا کیسا ہے؟ نوٹ: بکر نے زید  کی دوکان میں سے کوئی  مخصوص حصہ (Share) نہیں خریدا اور نہ ہی کسی خاص پروڈکٹ میں شرکت کی  ہے، بلکہ چلتے کاروبار میں پیسوں کے ذریعے شرکت کی ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں بیان کردہ طریقہ کار کے مطابق   زید و بکر  کا عقدِ شرکت (Partnership)  کرنا، دووجوہات کی بنا پر ناجائز وگناہ ہے، دونوں پر اس معاہدے کو ختم کرنا  اور اس  عمل سے توبہ کرنا بھی لازم ہے۔

   (1)  پہلی وجہ یہ کہ  دونوں جانب سے  نقدی مال(مثلا روپے پیسے  رقم)  نہیں ہے، بلکہ ایک جانب سے نقدی اور دوسری طرف سے سامان  ہے،  حالانکہ قوانینِ شرعیہ کے مطابق شرکتِ مال کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ دونوں جانب سے نقدی مال  ہو، کسی بھی جانب سے سامان نہ ہو، اگر کسی ایک جانب سے  بھی سامان ہوگا، تو اس طرح  شرکت کرنا جائز نہیں  ہوگااور اس شرکت کو ختم کرنا لازم ہوگا۔

   (2)  دوسری وجہ یہ ہے کہ  نفع (Profit) ٹوٹل سیل  میں سے مقرر کیا گیا، حالانکہ شرعی اصول یہ ہے کہ  شریک (Partners)  کاروبار کے حقیقی نفع میں سے باعتبار ِفیصد، حصہ دار ہوتے ہیں، جبکہ یہاں بکر کو  اولاً ٹوٹل سیل کا  2 فیصد دینا  ہوگا، اخراجات سے  اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا، ایسی شرط سے شرکت فاسد ہو جاتی ہے، کیونکہ یہ ایسی شرط ہے جو شرکت کو منقطع کرنے والی ہے کہ اگر اس نے پہلےہی اپنے لئے فکس مارجن نکال لیا، توممکن  ہے کہ  اخراجات نکالنے کے بعد  کبھی زید کو کچھ بھی نہ ملے، تو  یوں زید کی اس کے ساتھ نفع میں  شرکت  ہی نہ رہی، حالانکہ نفع میں شرکت کا مطلب ہی یہ  ہوتا ہے  کہ اولاً اخراجات وغیر ہ نکالے جائیں، پھر جونفع ہو  وہ طے شدہ فیصد کے مطابق تقسیم ہو۔ لہٰذا پوچھی گئی صورت میں فریقین پر اس شرکتِ فاسدہ کو ختم کرنا ضروری ہے اور  اس صورت میں  نفع ، نقصان کی تقسیم کاری کے متعلق اصول یہ ہے کہ جو کچھ نفع ہوا، وہ دونوں فریق اپنے مال کے تناسب سے تقسیم  کریں گے، اسی طرح  اگر کچھ نقصان  ہوا  ہے، تو وہ بھی اپنے مال کے تناسب سے برداشت  کریں گے۔

   شرکتِ مال کے لیے دونوں طرف سے نقدی مال ہونا ضروری ہے، چنانچہ محیط برہانی میں ہے: ”ثم الشرکۃ إذا کانت بالمال لا تجوز عناناً کان أو مفاوضۃ إلا إذا کان رأس مالھما من الأثمان التی لا تتعین فی عقود المبادلات نحو الدراھم والدنانیر، فأما ما یتعین فی عقود المبادلات نحو العروض، فلا تصح الشرکۃ بھا سواء کان ذلک رأس مالھما أو رأس مال أحدھما“ ترجمہ :پھر جب شرکت مال کے ساتھ ہو ، تو شرکت مفاوضہ و عنان اسی صورت میں جائز ہو گی،  جب دونوں کا سرمایہ اس ثمن کے قبیل سے ہو جو عقود مبادلہ میں متعین نہیں ہوتے جیسے درہم ودینار۔ تو جو چیزیں عقود مبادلہ میں متعین ہوجاتی ہیں  ،جیسے سامان تو اس کے ساتھ شرکت درست نہیں، چاہے یہ سامان دونوں کا راس المال ہو یا ان میں سے ایک کا۔(المحیط  البرھانی، جلد 6، صفحہ 5، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   یونہی درمختار میں ہے: ”و لا تصح مفاوضۃ وعنان ذکر فیھما المال … بغیر النقدین، والفلوس النافقۃ و التبر والنقرۃ أی ذھب و فضۃ لم یضربا إن جری مجری النقود التعامل بھما و إلا فکعروض“ ترجمہ: شرکت مفاوضہ یا عنان جس میں مال کا ذکر ہو،  وہ  اسی صورت میں درست ہے، جب کہ دراہم و دنانیر کے ساتھ ہو، یا رائج سکوں کے ساتھ ہو، یا بغیر ڈھلے سونے اور چاندی کے ساتھ  ،جب کہ ان دونوں کو نقدی کی طرح استعمال کرنے کا تعامل ہو چکا ہو ، ورنہ یہ سامان کی طرح کہلائیں گے۔(در المختار، جلد 4، صفحہ 310، مطبوعہ بیروت)

   عقدِ شرکت کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ ایسی بات نہ پائی جائے  جو شرکت کو منقطع کر دے ، ورنہ شرکت فاسد ہو جائے گی، چنانچہ  درمختار میں ہے: ”(وشرطها) أي شركة العقد …عدم ما يقطعها كشرط دراهم مسماة من الربح لأحدهما) لأنه قد لا يربح غير المسمى“  ترجمہ: شرکتِ عقد کی شرط یہ ہےکہ کوئی ایسی چیز نہ پائی جائے جو شرکت کو ختم کردیتی ہے،جیسےنفع میں سے دراہم کی  معین مقدار کسی ایک کے لیے طے کر لینا ، کیونکہ کبھی  ایسا ہوتا ہے کہ  صرف اتنی مقدار ہی نفع ہوتا ہے، اس سے زیادہ نہیں ہوتا(ایسی صورت میں سارااس ایک بندے کے لیےمتعین ہو جائے گا)۔(تنویر الابصار و در مختار، جلد 4، صفحہ 305، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

   حاشیہ چلپی میں ہے: ”و إذا شرط فی المضاربة ربح عشرة أو في الشركة تبطل لا لأنه شرط فاسد بل لأنه شرط ينتفی به الشركة“ ترجمہ: مضاربت یا شرکت میں دس (دراہم)  نفع طے کر لیا گیا، تو  عقد باطل ہو گا،  اس لیے  نہیں کہ یہ شرط فاسد  ہے، بلکہ اس لیے کہ یہ ایسی شرط ہے جس کی وجہ سے شرکت ہی ختم ہو رہی ہے۔(شلبی علی التبيين، جلد 3، صفحہ  320، مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی)

   شرکت فاسدہ  کو ختم کرنے کے متعلق درر الحکام میں ہے: ”یکون فیہ تقریر الفساد وھو واجب الدفع“ ترجمہ: شرکت فاسدہ کے باقی رکھنے میں فساد کا برقرار رکھنا لازم آتا ہے، حالانکہ اس کا دور کرناواجب ہے۔(دررالحکام شرح غرر الاحکام، جلد 2، صفحہ 324، مطبوعہ دار الکتب العربیۃ، بیروت)

   شرکت فاسدہ میں نفع کی تقسیم کاری کے متعلق درمختار میں ہے: ”والربح فی الشرکۃ الفاسدۃ بقدرالمال“ یعنی شرکت فاسدہ میں نفع بقدر مال ہو گا۔(درالمختار، کتاب الشرکۃ، جلد 6، صفحہ 498، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے :اگر شرکت فاسدہ میں دونوں شریکوں نے مال کی شرکت کی ہے تو ہر ایک کو نفع بقدر مال کے ملے گا۔(بھار شریعت، حصہ 10، صفحہ 511، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   اور نقصان کے متعلق بہار شریعت میں ہے: ”نقصان جو کچھ ہوگا وہ ر اس المال کے حساب سے ہوگا، اسکے خلاف شرط کرنا باطل ہے، مثلاًدونوں کے روپے برابر برابر ہیں اور شرط یہ کی کہ جو کچھ نقصان ہوگا اُسکی تہائی فلاں کے ذمہ اور دوتہائیاں فلاں کے ذمہ، یہ شرط باطل ہے اور اس صورت میں دونوں کے ذمہ نقصان برابر ہوگا۔“(بھار شریعت، جلد 2، صفحہ 491، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   جائز طریقہ: اگر اس طرح چلتے کاروبارمیں شرکت کرنا چاہیں ، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ زید اپنےتمام مال کاکوئی مشاع حصہ (یعنی کل مال کے ہر ہر جز میں آدھایاچوتھائی وغیرہ) بکر کوبیچ دے،  پھرعقدشرکت اس طرح کریں کہ نفع فیصد کے حساب سے مقرر کرلیں، لیکن اگر اس میں کوئی نقصان ہوا، تو وہ ہر شریک کے مال کےحساب سے ہوگا۔

   چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:و لو كان من احدهما دراهم، و من الاخر عروض، فالحيلة فی جوازه ان يبيع صاحب العروض نصف عرضه بنصف دراهم صاحبه ويتقابضا و يخلطا جميعا حتى تصير الدراهم بينهما و العروض بينهما ثم يعقدان عليهما عقد الشركة فيجوز ترجمہ: اگر دونوں میں سےایک کےپاس دراہم اوردوسرے کےپاس سامان ہوتواس میں عقدشرکت کے جواز کا حیلہ یہ ہےکہ سامان والا اپنے آدھے سامان کوآدھےدراہم کےبدلےبیچ دےاوردونوں قبضہ کر لیں اورسارےمال کوآپس میں ملادیں حتی کہ دراہم  اور سامان دونوں کےدرمیان مشترک ہوجائےپھراس میں عقدشرکت کرلیں توجائزہوگا۔(بدائع الصنائع، کتاب الشرکۃ، جلد 5، صفحہ 78، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارشریعت میں ہے: ”اگردونوں کےپاس روپےاشرفی نہ ہوں، صرف سامان ہواورشرکت مفاوضہ یاشرکت عنان کرنا چاہتےہوں توہرایک اپنےسامان کےایک حصہ کودوسرےکےسامان کےایک حصہ کےمقابل یا روپے کے بدلے بیچ ڈالےاس کےبعداس بیچے ہوئےسامان میں عقدشرکت کرلیں۔(بھار شریعت، جلد 2، صفحہ 496، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم