
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FSD-9130
تاریخ اجراء:04 ربیع الثانی 1446 ھ / 08 اکتوبر 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ زید کا جنرل اسٹور ہے، اس کے دوست خالد نے اس کو ایک لاکھ روپے دئیےکہ ان پیسوں سے بوتلیں ( Cold Drinks) لے آؤ اور ان کا کام کرو، اس کا مکمل حساب تمہاری دکان سے الگ رہے گا اور طے یہ پایا کہ جو بھی نفع ہوگا، دونوں میں آدھا آدھا تقسیم ہوگا، البتہ اگر نقصان ہوا، وہ سارا زید یعنی دوکاندار کے ذمہ ہوگا، شرعی رہنمائی فرمائیں کہ اس انداز سے مل کر کام کرنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ایک شخص کی رقم ہو اور دوسرے کا صرف کام ہو، تو شرعی اصطلاح میں اسے "عقدِ مضاربت"(Sleeping Partnership) کہتے ہیں اور عقدِ مضاربت کا اصول یہ ہے کہ نفع فریقین باہمی رضامندی سے جتنا چاہیں فیصدکے اعتبارسے مقرر کرسکتے ہیں، چاہے آدھاآدھا ہو یا کم زیادہ ہو، البتہ نقصان ہونے کی صورت میں مُضارِب (کام کرنے والا/Working Partner) فقط اپنی کوتاہی سے ہونے والے نقصان کا ذمّہ دار ہوتا ہے، جو نقصان مضارب کی تعدی و کوتاہی کے بغیر ہوا، وہ رَبُّ المال (Investor) ہی برداشت کرے گا، مطلقاً مضارب کے ذمہ نقصان کی شرط لگانا، شرطِ فاسد اور ناجائز و گناہ ہے، لیکن اس کی وجہ سے مُضاربت فاسد نہیں ہوتی، بلکہ خود یہ شرط ہی باطل و بے اثر قرار پاتی ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں خالد اور زید کا عقدِ مضاربت کے ذریعے کام کرنا، درست ہے، لیکن خالد (رَبُّ المال /Investor) کا عقدِ مضاربت میں زید (مُضارِب/ Working Partner) کے ذمہ نقصان کی شرط لگانا، ناجائز و گناہ ہے، اگر زید کی تعدی و کوتاہی کے بغیر کوئی نقصان ہوتا ہے، تو وہ خالد کو برداشت کرنا ہوگا۔
مضاربت کی تعریف کے متعلق تنویر الابصار و درمختار میں ہے :”(عقد شركة في الربح بمال من جانب) رب المال (وعمل من جانب) المضارب “ترجمہ : نفع میں شرکت کا ایسا عقد جس میں ایک طرف سے مال ہوتا ہے اور دوسری طرف سے کام ہوتا ہے۔(تنویر الابصار و در مختار، کتا ب المضاربۃ، جلد 8، صفحہ 497، مطبوعہ کوئٹہ)
مضاربت میں نفع کے اصول کے متعلق عامہ کتبِ فقہ میں ہے ، واللفظ للدر المختار : ”(وكون الربح بينهما شائعا) فلو عين قدرا فسدت“ ترجمہ : مضاربت میں نفع فریقین کے درمیان تناسب و فیصد کے حساب سے ہوگا، اگر رقم کی صورت میں نفع مقرر کر لیا، تو مضاربت فاسد ہو گی۔(تنویر الابصار و درمختار، کتا ب المضاربۃ، جلد 8،صفحہ 501، مطبوعہ کوئٹہ)
بہارِ شریعت میں ہے: ”نفع دونوں کے مابین شائع ہو، یعنی مثلاًنصف نصف یا دوتہائی ایک تہائی یا تین چو تھائی ایک چوتھائی، نفع میں اِس طرح حصہ معیّن نہ کیا جائے جس میں شرکت قطع ہوجانے کا احتمال ہو مثلاً یہ کہہ دیا کہ میں سو100روپیہ نفع لوں گا۔“(بھارِ شریعت، جلد 3، حصہ 14، صفحہ 2، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
مضاربت میں جو کچھ نقصان ہو، رب المال کےذمہ لازم ہوتا ہے، چنانچہ درر الحكام فی شرح مجلۃ الاحكام میں ہے: ”يعود الضرر و الخسار في كل حال على رب المال إذا تجاوز الربح إذ يكون الضرر والخسار في هذا الحال جزءا هالكا من المال فلذلك لا يشترط على غير رب المال ولا يلزم به آخر“ ترجمہ : مضاربت میں ہونے والا وہ تمام نقصان جو نفع سے تجاوز کر جائے، رب المال پر ہی لوٹتا ہے، اس لیے کہ نقصان، اصل مال کا جزو ہے جو کہ ضائع ہو گیا ہے، تو اس کی شرط رب المال کے علاوہ کسی اور پر نہیں لگائی جا سکتی اور نہ ہی یہ کسی دوسرے پر لازم ہوگا۔(درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام،جلد03، صفحہ 459، المادۃ:1428، مطبوعہ دار الجیل)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: ”مضاربت میں جو کچھ خسارہ ہوتا ہے وہ رب المال کا ہوتا ہے۔(یعنی مضارِب نقصان برداشت نہیں کرتا۔)“(بھار شریعت، جلد 3، حصہ14، صفحہ4، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
نقصان کی شرط مضارب پر لگانا ، شرطِ فاسد ہے ، البتہ اس سے مضاربت فاسد نہیں ہوگی، چنانچہ درر الحكام فی شرح غرر الاحكام میں ہے :”من الشروط الفاسدة لا يفسد المضاربة (بل يبطل الشرط كاشتراط الخسران على المضارب) لأنها جزء هالك من المال فلا يجوز أن يلزم غير رب المال“ ترجمہ: کچھ فاسد شرائط ایسی ہیں کہ ان سے مضاربت فاسد نہیں ہوتی، بلکہ وہ شرط باطل ہو جاتی ہے، جیساکہ مضارب پر نقصان کی شرط لگا دینا، اس لیے کہ نقصان اصل مال کا ایسا جزو ہے جو ضائع ہو گیا ہے، تو رب المال کے علاوہ کسی دوسرے پر اس کو لازم کرنا ، جائز نہیں۔(درر الحکام شرح غرر الاحکام، جلد 2، صفحہ 312، مطبوعہ دار احياء الكتب العربیۃ)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:” مضارب کے ذمہ نقصان کی شرط باطل ہے، وہ اپنی تعدِّی و دست درازی وتضییع کے سوا کسی نقصان کا ذمہ دار نہیں ،جو نقصان واقع ہو سب صاحبِ مال کی طرف رہے گا۔“( فتاوٰی رضویہ، جلد 19، صفحہ 131، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
بہارِ شریعت میں ہے :” اگر ( مضاربت میں لگائی گئی) اس شرط سے نفع میں جہالت نہ ہو، تو وہ شرط ہی فاسد ہے اور مضارَبت صحیح ہے مثلاً یہ کہ نقصان جو کچھ ہوگا وہ مضارِب کے ذمہ ہوگا یا دونوں کے ذمہ ڈالا جائے گا۔“(بھارشریعت، حصہ 14، صفحہ 3،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم