
مجیب:مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-2029
تاریخ اجراء:09جمادی الاولٰی1446ھ/12نومبر2024ء
دارالافتاء اھلسنت(دعوت اسلامی)
سوال
ایک آدمی جوتے بیچنے کا کاروبار کر رہا ہے، اب اس کے پاس مزید پیسے ڈالنے کے لئے رقم نہیں ہے، ایک بندہ تین لاکھ روپے دے رہا ہےاس شرط کے ساتھ کہ ہر جوڑے پر اسے آٹھ روپے پرافٹ دیا جائے، یعنی اگر ایک دن میں تین جوتے بکے، تو اس کو24 روپے دینے ہوں گے،پھر جب اس کے پاس 3 لاکھ روپے ہوجائیں گے، تو وہ رقم بھی واپس کر دے گا، کیا اس طرح رقم انویسٹ کر کے نفع لینا اور پھر بعد میں اپنی اصل رقم بھی واپس لینا ، درست ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بیان کردہ طریقے کے مطابق نفع کا لین دین کرنا سود ہے کہ یہ قرض دےکر نفع لینا دینا ہے اور اسی کو سود کہتے ہیں ، جس کالینا دینا ناجائز و حرام اور بچنا ہر ایک پر لازم ہے ، لہذا آپ دونوں کا بیان کردہ طریقہ کار کے مطابق نفع کا لین دین کرنا جائز نہیں ۔
اللہ عز وجل قرآنِ مجید میں سود کی حرمت کے متعلق ارشاد فرماتا ہے :
﴿ وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ﴾
ترجمۂ کنز الایمان:”اور اللہ نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود کو ۔ “(پارہ 3 ، سورۃ البقرۃ ، آیت 275 )
نفع کے ساتھ مشروط قرض کے متعلق سیدنا علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے فرمایا :
کل قرض جر منفعۃ فھو ربا
ترجمہ : ہر وہ قرض جو نفع لائے سود ہے ۔( نصب الرایہ ، جلد 4 ، صفحہ 60 ، مطبوعہ مؤسسۃ الریان ، بیروت )
صحیح مسلم میں ہے:
عن جابر رضی اللہ تعالی عنہ قال لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اٰکلَ الربا و موکلَہ و کاتبَہ و شاھدیہ
ترجمہ : سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے ، کھلانے والے ، سود لکھنے والے اور سود کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ ( الصحیح لمسلم ، کتاب البیوع ، باب الربا، جلد 2 ، صفحہ 27 ، مطبوعہ کراچی )
سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ میں قرض پر نفع کے متعلق فرماتے ہیں:”قطعی سود اور یقینی حرام و گناہِ کبیرہ و خبیث و مردار ہے ۔ “( فتاوی رضویہ ، جلد 17 ، صفحہ 269 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
ایسا قرض لینے ، دینے والے کے متعلق فرماتے ہیں:” اگر قرض دینے میں یہ شرط ہوئی تھی ، تو بے شک سود و حرامِ قطعی و گناہِ کبیرہ ہے ۔ ایسا قرض دینے والا ملعون اور لینے والا بھی اسی کے مثل ملعون ہے ۔ “( فتاوی رضویہ ، جلد 17 ، صفحہ 278 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم