
طلبا کے لئے دی گئی زکوۃ مہتمم کا خود استعمال کر لینے کا حکم
سوال: اگر ہم زکوة کی رقم مدرسے میں طلبا کے لیے دیتے ہیں، اس کے لیے جو مدرسے کا انچارج یا مہتمم ہے، ہم اسے اپنا وکیل بنا کر زکوة، ان کے ہاتھ میں دیتے ہیں، اب اگر وہ صاحب آگے پیسے طلباکو نہیں دیتے، بلکہ خود استعمال کر لیتے ہیں، تو کیا ہماری طرف سے زکوة ادا ہوجائے گی؟
قضا نماز کے دوران مکروہ وقت شروع ہوجائے تو نماز ہوجائے گی؟
جواب: ادائیگی بھی کامل لازم ہوگی اور اگر سبب ناقص ہے تو ناقص ادائیگی بھی کافی ہوگی اور قضا نماز کا سبب کامل ہے، کیونکہ مکروہ اوقات کے علاوہ تمام اوقات ہی اس...
ضامن فوت ہوجائے ، تو قرض کا ورثاء سے مطالبہ کرنا کیسا ؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والد صاحب کا چند ماہ قبل انتقال ہوا ہے، انہوں نے اپنی زندگی میں ایک دوست کے قرض کی ضمانت دی تھی کہ اگر وہ قرض مقررہ وقت پہ ادا نہ کرے، تو میں ضامن ہوں۔والد صاحب کو کچھ اندازہ تھا کہ وہ قرض کی ادائیگی کے معاملے میں ٹھیک نہیں ہے، لیکن دوست نے اصرار کیا کہ اگر آپ ضمانت دیں گے، تو مجھے قرض مل جائےگا، تو ابو نے دوستی کی خاطر اس کی ضمانت دیدی تھی، اب قرض کی مقررہ تاریخ گزر چکی ہے، لیکن اس نے ابھی تک قرض ادا نہیں کیا، قرض خواہ نے ہم سے مطالبہ کیا ہے کہ آپ کے والد نے ضمانت دی تھی، ان کے انتقال کے بعد آپ اس معاہدے کو پورا کرتے ہوئے میر اقرض ادا کریں، تو کیا شرعی اعتبار سے ہم اس معاہدے کو پورا کرنے کے پابند ہوں گے یا نہیں؟ اور کیا قرض خواہ کا ہمارے والد کی ضمانت کو بنیاد بنا کر ہم سے قرض کا مطالبہ کرنا شرعاً درست ہے؟ (2) میرے ایک دوست نے بہار شریعت کا جزئیہ بھیجا تھا، اس کی عبارت یہ ہے کہ ’’ اگر کفیل مر گیا، جب بھی کفالت باطل ہو گئی، اس کے ورثہ سے مطالبہ نہیں ہو سکتا۔‘‘(حصہ 12، صفحہ 836)اس جزئیے کے مطابق کیا حکم ہو گا؟ نوٹ: سائل نے وضاحت کی ہے کہ ضمانت والی رقم ترکے میں سے بآسانی ادا کی جا سکتی ہے۔ نیز ابو نے اپنا کوئی وصی مقرر نہیں کیا۔
مستحقِ زکوٰۃ کو زکوٰۃ کی نیت سے موبائل دینا
سوال: مستحقِ زکوة کو پیسوں کی بجائے نیو موبائل لے کر دیا جا سکتا ہے؟ اگر دیا جا سکتا ہے تو موبائل خریدتے وقت زکوة کی نیت کی جائے گی یا مستحق کو موبائل دیتے وقت؟اگر تحفہ کہہ کر دیا جائے تو دل میں اس وقت نیت کا ہونا ضروری ہے؟ شرعی رہنمائی فرما دیں تاکہ زکوة ادا ہو سکے۔
قسط وقت پر ادا نہ کرنے کی وجہ سے دکان واپس لینا یا قسطوں کے ساتھ کرایہ لینا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ دکانوں کی خریدو فروخت میں بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مثلا :ً زید نےکسی کو موبائل مارکیٹ یا دوسری کسی مارکیٹ میں اپنی دکان70 لاکھ روپے میں بیچ دی اور یہ طے پایا کہ خریدار اس رقم کی ادائیگی 6 ماہ میں کرے گا ،اس طرح دکان خریدنے والے کو وہ دکان دے دی جاتی ہے اور وہ اس میں اپنا کام کرنا شروع کردیتا ہے یا آگے کسی کو کرایہ پر دے دیتا ہے اور ہر ماہ زید کو دکان کی قیمت کی ادائیگی بھی کرتا رہتا ہے ،اگر خریدار وقت پر مقررہ رقم کی ادائیگی کردے تو ٹھیک ،ورنہ اگر وہ مقررہ وقت میں رقم مکمل ادا نہ کرے،تو زید اس سے یہ معاہدہ کرتا ہے کہ میں آپ کو مزید تین ماہ کی مہلت دے رہا ہوں ،لیکن اس میں یہ شرط ہوگی کہ اس دوران مجھے اس دکان کا رائج کرایہ دیتے رہنا ، اب یہ کرایہ بھی ایسی مارکیٹوں میں کوئی معمولی نہیں ہوتا ،بلکہ 50 ہزار سے لاکھ بلکہ اچھی لوکیشن پر اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے،چنانچہ وہ خریدار بقیہ قسطوں کی ادائیگی کے ساتھ ان تین مہینوں کا کرایہ بھی دیتا ہے،کیونکہ اگر وہ کرایہ والے معاہدہ پر راضی نہ ہو تو دکان اس سے واپس لے لی جاتی ہے اور خریدار نے قسطوں میں جتنی رقم ادا کی ہوتی ہے ،اس میں سے چند فیصد کٹوتی کرکے اس کو دے دی جاتی ہے یا پھر اس کو کہا جاتا ہے کہ آپ نے ان گزشتہ مہینوں میں اس دکان کو کرائے پر دے کر جتنا بھی کرایہ حاصل کیا ہے اگر وہ سب ہمیں دے دو ،تو آپ کو اد ا شدہ قسطوں کی رقم مکمل واپس کردی جائے گی ۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا قسطیں وقت پر ادا نہ کرنے کے سبب خریدار سے دکان کو واپس لینا اور اس کی ادا شدہ رقم بھی پوری واپس نہ کرنا یا اس کا حاصل شدہ کرایہ اس سے لے لینا شرعاً جائز ہے ؟اسی طرح مزید مہلت دینے کی صورت میں قسطوں کے ساتھ ساتھ کرایہ لینا کیسا ؟
قسط میں کمی کرنے پر قیمت بڑھانے کا حکم
سوال: میرا لیپ ٹاپ اور موبائل قسطوں پر بیچنے کا کاروبار ہے، میں مارکیٹ سے نقد موبائل و لیپ ٹاپ خرید تا ہوں اور آگے قسطوں پر اپنا پرافٹ رکھ کر بیچتا ہوں، اس کاروبار میں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ مثلا ً میں نے کسی کو ایک لیپ ٹاپ76 ہزار کا چار ہزار روپے ماہانہ کی قسطوں پر بیچا، اب وہ چند قسطیں ادا کرنے کے بعد میرے پاس آکر کہتا ہے کہ میں ماہا نہ 4 ہزار روپے ادا نہیں کرسکتا، اس لئے آپ مہربانی کرکے میری ماہانہ قسط میں کمی کردیں مثلا 2500 کردیں، بدلے میں اس لیپ ٹاپ کی قیمت آپ مجھ سے 80 ہزار روپے وصول کرلیں، یوں وہ اپنی مرضی سے مجھے زیادہ پیسے دینے کی پیشکش کرتا ہے، تو کیا اس طرح قسط میں کمی کرنے پر اصل رقم سے کچھ پیسے زیادہ لینا جائز ہے؟ جبکہ میری طرف سے کسی قسم کا جبر نہ ہو۔ یونہی بسا اوقات میرے پاس ایک کسٹمر آتا ہےجس کو رقم کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ مجھ سے مثلا 75 ہزار میں لیپ ٹاپ قسطوں میں خریدتا ہے تاکہ وہ اس کو بیچ کر مطلوبہ رقم حاصل کرسکے، اور آگے قسطوں کی ادائیگی سے قبل اس کو بیچنا چاہتا ہے، تو کیا ایسے شخص کولیپ ٹاپ بیچنا جائز ہے ؟ اور کیا میں اس سے وہ لیپ ٹاپ خریدسکتا ہوں ؟
سوال: میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ہیروں پر زکوة واجب نہیں ، اس کی کیا وجہ ہے؟ حالانکہ یہ تو سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔
خریداری میں رقم ایڈوانس دے کر سامان ایک سال بعد لینا... کیا یہ درست ہے؟
جواب: ادائیگی ایک وقت میں ہوگی اوربعض ادائیگی دوسرے وقت میں ہوگی اوران دونوں میں سے ہرایک کاحصہ بیان کرناضروری نہیں۔ (فتاوی عالمگیری ،جلد3،صفحہ181، مطبوعہ ک...
قضا نمازیں ادا کرنے کا آسان طریقہ کیا ہے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص کے ذمہ بہت سی قضا نمازیں ہیں اور نمازیں زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کو یہ یاد نہیں کہ کس کس دن کی نمازیں قضا ہوئی ہیں، اب قضا نمازوں کا حساب کرنے کے بعد وہ ان کی ادائیگی کرنا چاہتا ہے، تو پوچھنا یہ تھا کہ ان نمازوں کی ادائیگی میں نیت کس طرح کی جائے گی کہ میں کس دن کی نماز ادا کر رہا ہوں، کیونکہ اسے تو یہ یاد ہی نہیں؟ نیز شریعت مطہرہ کی طرف سے ان نمازوں کو ادا کرنےکے طریقے میں کوئی تخفیف بھی ہے؟
غیر مسلم کے بینک سے کریڈٹ کارڈ لینا کیسا ؟
سوال: جب کسی بینک سے کریڈٹ کارڈ بنوایا جاتا ہے تو بینک کسٹمر کو مخصوص حد تک رقم استعمال کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ یہ رقم کسٹمر کی نہیں ہوتی بلکہ بینک کی ہوتی ہے۔ پھر کسٹمر جب وہ رقم استعمال کرتا ہے تو طے کردہ مدت کے اندر اندر مثلاً ایک مہینہ کے اندر اگر وہ رقم بینک کو واپس کر دے تو بینک کوئی اضافی چارجز وصول نہیں کرتا۔ لیکن اگر اس مدت کے بعد ادائیگی کرے تو پھر اضافی چارجز بینک کو ادا کرنے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کا کریڈٹ کارڈ کسی ایسے بینک سے بنوا کر استعمال کرنا جائز ہے جو مکمل طور پر حربی کفار کی ملکیت میں ہو؟ جبکہ استعمال کرنے والے کی نیت یہ ہے کہ جتنی رقم استعمال کی جائے گی اتنی رقم وقت مقررہ پر واپس ادا کر دی جائے گی اور بینک کو کوئی اضافی چارجز ادا کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔