ہیرے جواہرات پر زکوٰۃ کا حکم

 

ہیرے جواہرات پر زکوٰۃ کا حکم

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13133

تاریخ اجراء: 09 جمادی الاولیٰ 1445 ھ/24 نومبر 2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ہیروں  پر زکوة واجب نہیں ، اس کی کیا وجہ ہے؟  حالانکہ یہ تو سونے سے بھی زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ایسا نہیں ہے کہ ہیروں پر مطلقاً ہی زکاۃ واجب نہ ہو، بلکہ درست یہ ہے کہ جو ہیرے جواہرات بیچنے کی نیت کے علاوہ کسی اور نیت سے خریدے گئے ہوں، تو ان پر زکاۃ لازم نہیں ہوگی اور اگر یہ بیچنے کی نیت سے خریدے گئے ہوں ،تو زکاۃ کی بقیہ شرائط پائے جانے کی صورت میں ان پر بھی زکاۃ لازم ہوگی۔

   اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ زکاۃ لازم ہونے کے لیے بنیادی طور پر مال کا نامی ہونا ضروری ہے،خواہ وہ حقیقتاً بڑھے یا حکماً  کہ زکاۃ کا معنی ہی نمو(یعنی بڑھوتری) ہے اور زکاۃ کے معاملہ میں  مالِ نامی دو طرح کے اموال ہیں:

   (1)ثمن خواہ وہ خلقی  ہو جیسے سونا ، چاندی  یا اصطلاحی  جیسے مختلف ملکوں کی کرنسی۔ ثمنِ خلقی و اصطلاحی دونوں پر مطلقاً زکاۃ واجب ہے ،خواہ اس میں تجارت کی نیت ہو یا نہ ہو  ۔  ثمنِ خلقی  تو پیدا ہی اس لیے کیا گیا کہ اس سے انسان اپنی حاجت کی اشیا خریدے، تجارت کرے اور ثمنِ اصطلاحی  پر اس وجہ سے کہ یہ بھی سونا و چاندی کی طرح  اشیا خریدنے کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے، لہٰذا زکاۃ کے معاملے میں اس کا حکم بھی وہی ہوگا جو سونا و چاندی کا ہے۔ 

   (2) مالِ فعلی یعنی وہ مال جوخاص نموکے لیے پیدا نہ کیا گیا ہو،  بلکہ ان کے نامی ہونے کے لیے تجارت  یاخصوصاً جانوروں کو سائمہ بنانے کی نیت ہو، اس میں سونا چاندی کے علاوہ تمام اموال داخل ہیں ۔

   زکاۃ لازم ہونے کے لیے مال کا نامی ہونا ضروری ہے۔اس کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے:”ومنھا کون المال نامیا لأن معنى الزكاة وهو النماء لا يحصل إلا من المال النامی“یعنی زکاۃ واجب ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط  مال کا نامی ہونا ہے ، کیونکہ زکاۃ کا معنی ہی بڑھنا ہے جو کہ مالِ نامی ہی سے حاصل ہوگا ۔(بدائع الصنائع، جلد2، صفحہ 11،مطبوعہ بیروت)

   زکاۃ لازم ہونے کے لیے مال کا نامی ہونا ضروری ہے،اس پر دلیل ذکر کرتے ہوئے علامہ علاؤالدین کاسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”وقوله تعالى ﴿وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ دليلنا ؛ لأن الزكاة عبارة عن النماء وذلك من المال النامي “یعنی اللہ پاک کا فرمان ﴿وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ ہماری دلیل ہے، کیونکہ زکاۃ نمو (یعنی بڑھوتری) سے عبارت ہے اور یہ مالِ نامی سے ہی نکالی جائے گی ۔(بدائع الصنائع،جلد2،صفحہ 11، مطبوعہ بیروت)

   مالِ نامی کی اقسام بیان کرتے ہوئےفتاوی ہندیہ میں ہے:”(ومنها كون النصاب ناميا) حقيقة بالتوالد والتناسل والتجارة أو تقديرا بأن يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو في يد نائبه وينقسم كل واحد منهما إلى قسمين خلقي، وفعلي هكذا في التبيين فالخلقي الذهب والفضة؛ لأنهما لا يصلحان للانتفاع بأعيانهما في دفع الحوائج الأصلية فتجب الزكاة فيهما نوى التجارة أو لم ينو أصلا أو نوى النفقة والفعلي ما سواهما ويكون الاستنماء فيه بنية التجارة أو الإسامة“یعنی زکاۃ کی شرائط میں سے ایک شرط نصاب کا نامی ہونا ہے، نمو توالد، تناسل یا تجارت کے ساتھ حقیقتاً ہویا    تقدیری طور پر اس طرح کہ وہ مال بڑھانے پر قادر ہو کہ مال اس کے یا نائب کے قبضہ میں ہے اور ان دونوں قسموں میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں : خلقی و تقدیری، ایسا ہی تبیین میں ہے۔پس خلقی سونا و چاندی ہیں، کیونکہ سونا، چاندی میں اس چیز کی صلاحیت نہیں کہ حاجتِ اصلیہ پوری کرنے کے لیے بعینہ ان سے نفع اٹھایا جائے،پس ان میں زکاۃ واجب ہوگی خواہ تجارت کی نیت ہو یا اصلاً کوئی نیت نہ ہو یا خرچ کرنے کی نیت ہو اور فعلی :وہ ہے جو ان دونوں کے علاوہ ہو اور اس کا  بڑھانا تجارت یا سائمہ بنانے کی نیت کے ساتھ ہوگا۔ (فتاوی ھندیہ، جلد1 ، صفحہ 174، مطبوعہ بیروت)

   سونا و چاندی تجارت ہی کے لیے پیدا کیے گئے، لہٰذا ان میں نیتِ تجارت کی حاجت نہیں ۔اس کے متعلق امام فخر الدین زیلعی رحمۃ اللہ علیہ تبیین الحقائق میں فرماتے ہیں:”انھما خلقا اثمانا للتجارۃ فلا یحتاج فیھما الی نیۃ التجارۃ ولا تبطل الثمنیۃ بالاستعمال“یعنی سونا و چاندی تجارت میں ثمن بنانے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ، پس اس میں نیتِ تجارت کی حاجت نہیں اور نہ ہی( کسی دوسرے کام میں) استعمال کے سبب  ان کی ثمنیت باطل ہوگی۔    (تبیین الحقائق، جلد 1،صفحہ 277، مطبوعہ ملتان)

   ہیرے جواہرات ثمنیت کے لیے تخلیق نہیں کیے گئے،بلکہ استعمال کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں۔اس کے متعلق امام طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ درِ مختار پر اپنے حاشیہ میں تحریر فرماتے ہیں:”انھا غیر معدۃ للثمنیۃ خلقۃ“یعنی یہ( ہیرے، جواہرات) خلقتاً  ثمنیت کے لیے تیار نہیں کیے گئے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد 3،صفحہ 177، مطبوعہ بیروت)

   تبیین الحقائق میں ہے:”أنها خلقت للابتذال فلا تكون للتجارة إلا بالنية “یعنی (تمام جواہر) استعمال کے لیے تخلیق کیے گئے ہیں، لہٰذا یہ تجارت کے لیے نہیں ہوں گے، مگر نیت کے ساتھ۔ (تبیین الحقائق، جلد 1،صفحہ 277، مطبوعہ ملتان)

   اسی وجہ سے علما نے فرمایا کہ وجوبِ زکاۃ کے لیے ان میں نیتِ تجارت ہونا ضروری ہے ،ورنہ مالِ نامی نہ ہونے کی وجہ سے ان میں زکاۃ واجب نہیں ہوگی ۔ مراقی الفلاح،درر غرروتنویر الابصارودرمختار میں ہے:”(لا زکاۃ فی اللآلی والجواھر) وان ساوت الفاً اتفاقاً (الا ان تکون للتجارۃ) والاصل ان ما عدا الحجرین والسوائم انما یزکی بنیۃ التجارۃ“یعنی موتیوں و ہیروں میں بالاتفاق زکاۃ نہیں اگرچہ وہ ہزاروں روپوں(کی مالیت) کے برابر ہوں ، مگر یہ کہ وہ تجارت کے لیے ہوں اور اصول یہ ہے کہ سوناچاندی اور سائمہ جانوروں  کے علاوہ جو چیزیں ہوں  ان کی  زکاۃ دی جائے گی جب تجارت کی نیت کے ساتھ ہوں۔ (الدر المختار مع رد المحتار، جلد 3،صفحہ 230، مطبوعہ کوئٹہ)

   علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہالجواھر“کے تحت فرماتے ہیں:”کاللؤلؤ والیاقوت والزمرد وامثالھا“یعنی جیسا کہ موتی، یاقوت، زمرد اور ان جیسے (قیمتی پتھر) (رد المحتار، جلد 3،صفحہ 230، مطبوعہ کوئٹہ)

   اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ مبسوط میں فرماتے ہیں:”اللؤلؤ والياقوت والجواهر إذا لم تكن للتجارة فإنه لا زكاة فيها لأن وجوب الزكاة فيها باعتبار معنى النماء ولا يتحقق ذلك إلا بنية التجارة فيها كسائر العروض “یعنی موتی، یاقوت اور جواہر جب تجارت کے لیے نہ ہوں ، تو ان میں زکاۃ نہیں کیونکہ ان چیزوں میں زکاۃ کا واجب ہونا معنیٔ  نمو کے اعتبار سے ہے اور تمام عروض کی طرح ان میں بھی معنیٔ  نمو نہیں پایا جاتا مگرتجارت کی نیت کے ساتھ ۔(المبسوط لسرخسی، جلد 3،صفحہ 37،مطبوعہ بیروت)

   مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ زکاۃ کی شرط ”مالِ نامی“  کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:”مالِ نامی ہونا یعنی بڑھنے والا مال خواہ حقیقۃً بڑھے یا حکماً یعنی اگر بڑھانا چاہے  تو بڑھائے یعنی اس کے یا اس کے نائب کے قبضہ میں ہو ۔ ہر ایک کی دو صورتیں ہیں:وہ اسی لیے پیدا کیا گیا ہو،اسے خلقی کہتے ہیں ، جیسے سونا ،چاندی کہ یہ اسی لیے پیدا ہوئے کہ ان سے چیزیں خریدی جائیں یا اس لیے مخلوق تو نہیں ، مگر اس سے یہ بھی حاصل ہوتا ہے، اسے فعلی کہتے ہیں ۔ سونے چاندی کے علاوہ سب چیزیں فعلی ہیں کہ تجارت سے سب میں نمو ہوگا۔ سونے چاندی میں مطلقاً زکاۃ واجب ہے، جبکہ بقدرِ نصاب ہوں ،اگرچہ دفن کر کے رکھے ہوں ، تجارت کرے یا نہ کرے اور ان کے علاوہ باقی چیزوں پر زکاۃ اس وقت واجب ہے کہ تجارت کی نیت ہو یا چرائی پر چھوٹے جانور وبس۔“ (بھارِ شریعت، جلد1،صفحہ 882، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   کرنسی کا حکم بیان کرتے ہوئے مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”پیسے جب رائج ہوں اور دو سو 200 درم چاندی یا بیس مثقال سونےکی قیمت کے ہوں ،تو ان کی زکاۃ واجب ہے، اگرچہ تجارت کے لیے نہ ہوں اور اگر چلن اُٹھ گیا ہو، تو جب تک تجارت کے لیے نہ ہوں زکاۃ واجب نہیں۔ نوٹ کی زکاۃ بھی واجب ہے، جب تک ان کا رواج اورچلن ہو کہ یہ بھی ثمنِ اصطلاحی ہیں اور پیسوں کے حکم میں ہیں۔ “(بھارِ شریعت،جلد1،صفحہ 905، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   بہارِ شریعت میں ہے:”موتی اور جواہر پر زکاۃ واجب نہیں ،اگرچہ ہزاروں کے ہوں ، ہاں  اگر تجارت کی نیت سے لیے ،تو واجب ہوگئی۔“(بھارِ شریعت، جلد1،صفحہ 883، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم