
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر قضاء نماز کے دوران مکروہ وقت شروع ہو جائے تو نماز کا کیا حکم ہوگا ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قضا نماز کے دوران تین اوقاتِ مکروہہ میں سےکوئی وقت داخل ہوجائے تو نماز باطل ہوجائے گی، ایسی نمازکو غیر مکروہ وقت میں نئے سرے سے پڑھنا لازم ہے۔
تین مکروہ اوقات یہ ہیں: (1)سورج طلوع ہونے سے لےکرتقریباً20 منٹ بعد تک۔ (2) سورج غروب ہونے کے وقت سے تقریبا ً 20 منٹ پہلے۔ (3) اور ضحوۂ کبریٰ یعنی نصف النہار شرعی سے لے کرسورج ڈھلنے تک۔
مذکورہ حکم کی وجہ: وقت، نماز کے وجوب کا سبب ہے، اور جو معیار سبب کا ہو وہی مسبب یعنی نماز کا بھی ہونا ضروری ہے، اگر سبب کامل ہےتو ادائیگی بھی کامل لازم ہوگی اور اگر سبب ناقص ہے تو ناقص ادائیگی بھی کافی ہوگی اور قضا نماز کا سبب کامل ہے، کیونکہ مکروہ اوقات کے علاوہ تمام اوقات ہی اس کے لئے ظرف ہیں، اور ان تمام اوقات میں کوئی ناقص یعنی مکروہ وقت شامل نہیں، لہذا سبب کے کامل ہونے کی وجہ سے ادائیگی بھی اول تاآخر کامل لازم ہوگی، جبکہ قضا نماز کا کچھ حصہ مکروہ وقت میں اد ا ہو، تو نماز اول تا آخر کامل نہیں ہوسکے گی کہ مکروہ اوقات ناقص اوقات ہیں، ان میں نماز کا جو حصہ ادا ہوگا ناقص ہوگا، اور اس ایک حصے کے ناقص ہونے کی وجہ سے پوری نمازہی ناقص ہوجائے گی کیونکہ جزو کا ناقص ہونا کُل کے ناقص ہونے کو لازم کرتا ہے، یوں ادائیگی وجوب کے معیار کے مطابق نہیں ہوسکے گی اور نماز باطل ہوجائے گی۔
جیسا کہ نماز فجر میں ہے کہ قضا نمازوں کی طرح اس کاسبب بھی کامل ہوتا ہےکہ اس میں کوئی مکروہ وقت شامل نہیں ہوتا، لہذا ادائیگی بھی اول تا آخر کامل لازم ہوتی ہے، حتی کہ درمیان نماز اگر مکروہ وقت داخل ہوجائے تو نماز باطل ہوجاتی ہے، کیونکہ مکروہ وقت کے داخل ہونے سے نماز کا کچھ حصہ ناقص ادا ہوگا اور اس ناقص حصے کی وجہ سے پوری نماز ہی ناقص ہوجائے گی اور معیارِ وجوب کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے باطل قرارپائے گی۔
اشکال:
آپ نے یہ اصول ذکر کیا کہ اگر سبب کامل ہو، تو ادائیگی بھی کامل لازم ہوتی ہے، اور درمیان میں مکروہ وقت کے داخل ہو جانے سےنمازباطل ہوجاتی ہے۔ایسا وقتی عصر میں کیوں نہیں ہوتا ؟کہ اگر مکروہ وقت سے پہلے نما ز عصر شروع کی اور درمیان میں مکروہ وقت داخل ہوگیا، تو نمازباطل ہوجائے؟کیونکہ مکروہ وقت سےپہلے والا وقت کامل ہوتا ہے اور اس میں نماز شروع کی تو یہی جزوِ کامل اس کا سبب بنا، لہذاادائیگی بھی کامل لازم ہوئی جبکہ وقتِ مکروہ کے داخل ہوجانے سے ادائیگی کامل نہیں ہوسکے گی۔
جواب:
مذکورہ اصول اپنی جگہ بالکل درست ہے تاہم وقتی عصر کو اس سےاستثناءحاصل ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وقتی عصر کے لئے وقت مکروہ بھی ظرف ہےکیونکہ وقتِ عصر کے دو حصے ہیں، (۱)غیر مکروہ۔(۲)مکروہ۔اورجب مکروہ وقت بھی اس کے لئے ظرف ہے تو اس میں عصرکے بعض حصے کو ادا ہونے سے بچانا دشوار ہے جبکہ دیگر نمازوں میں ایسا نہیں کیونکہ ان کے مکمل اوقات کامل ہیں، ان میں کوئی مکروہ وقت شامل نہیں، اور جب ان میں مکروہ وقت شامل ہی نہیں تو ا س میں نماز کو ادا ہونے سے بچانا مشکل بھی نہیں، یہی وجہ ہے کہ بقیہ نمازیں اس اصول سے مستثنی نہیں اور وقتی عصر مستثنی ہے۔
قضا نماز کے دوران مکروہ وقت داخل ہونے کی صورت میں فقہائے کرام نے نماز کے باطل ہوجانے کی تصریح فرمائی ہے۔ تحفۃ الاخیار اور وہاں سے حاشیۃ الطحطاوی اورشامی میں ہے،
واللفظ للشامی ملتقطا: ”واعلم أن الأوقات المكروهة۔۔۔الشروق والاستواء والغروب۔۔۔لا ينعقد فيه شيء من الصلوات التي ذكرناها إذا شرع بها فيه، وتبطل إن طرأ عليها۔۔۔وعصر يومه“
تم جان لو کہ اوقات مکروہہ سورج کے نکلنے، اس کے استواء اور غروب کے اوقات ہیں۔ان میں وہ نمازیں منعقد ہی نہیں ہوتیں جن کا ہم نے ذکر کیا ہے (اورا س میں قضا نماز بھی شامل ہے)، یونہی اگر ان نمازوں کے درمیان یہ اوقات آجائیں تو نماز باطل ہوجائے گی، سوائے اسی دن کی عصر کے۔ (تحفۃ الاخیار، ق 32، مخطوط، حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، ج02، ص40، دار الکتب العلمیۃ بیروت، رد المحتار، ج01، ص373، دار الفکر)
قضا نماز کے درمیان مکروہ وقت کا شروع ہوجانا جس کے سبب بعض نماز مکروہ وقت میں ادا ہو، جائز نہیں، امام جلیل الشان، فقیہ النفس قاضی خان شرح الجامع الصغیر میں صاحب ترتیب کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے لکھتےہیں:
”عندنا إذا كان يتمكن من أداء الظهر قبل تغير الشمس ويقع كل العصر أو بعضه بعد تغير الشمس يلزمه الترتيب وإن كان يتمكن من أداء الصلاتين قبل غروب الشمس لكن لا يتمكن من أن يفرغ من الظهر قبل تغير الشمس لا يلزمه الترتيب لأن أداء شيء من الظهر لا يجوز بعد التغير وما بعد تغير الشمس ليس وقتا لأداء شيء من الصلوات إلا عصر يومه“
ہمارے نزدیک جب نماز ظہر کو سورج کے متغیر ہونے سے پہلے پڑھنا ممکن ہو لیکن نماز عصر پوری یا اس کا کچھ حصہ سورج متغیر ہونے کے بعد واقع ہوگا تواس پر ترتیب لازم ہے اور اگر سورج غروب ہونے سے پہلے دونوں نمازیں پڑھنا ممکن ہوں لیکن وہ ظہر کی نماز سے سورج کے متغیر ہونے سے پہلے فارغ نہیں ہوسکے گا تو اس پر ترتیب لازم نہیں کیونکہ ظہر کی نماز کا کوئی حصہ بھی تغیر شمس کے بعد ادا کرنا جائز نہیں اور تغیر شمس کے بعد والا وقت کسی بھی نماز کا وقت نہیں سوائے اس دن کی عصر کے۔ (شرح الجامع الصغیر لقاضی خان، ج01، ص 280، مطبوعہ بیروت)
توضیح مع التلویح میں ہے:
”(ولو لم يؤد فكل الوقت سبب في حق القضاءفوجب القضاء بصفة الكمال) حتى لا يجوز قضاء العصر الفائت بحيث يقع شيء منه في وقت الكراهة“
اگر نماز وقت میں ادا نہ کی، تو قضاء کے حق میں تمام وقت سبب ہے، لہذاصفت کمال کے ساتھ قضا واجب ہوگی، یہاں تک کہ نماز عصرجو کہ قضا ہوگئی ہو، اس کی ادائیگی اس طرح جائز نہیں کہ اس کا کوئی بھی جزو وقت مکروہ میں واقع ہو۔ (التوضیح مع التلویح، ج01، ص398، مطبوعہ مصر)
کیونکہ قضا نماز کا سبب کامل ہے اورسبب کامل ہو تو ناقص ادائیگی اسے کافی نہیں ہوتی، اس حوالے سے حلبہ میں ہے:
”الصلاۃ المقضیۃ وجبت بسبب کامل فلا تتادی بالسبب الناقص فیلزمہ اعادۃ ما صلی فیھا من الفائتۃ لعدم صحتھا“
قضا نماز سبب کامل کے ساتھ واجب ہوتی ہے، لہذا ناقص سبب کے ساتھ ادا نہیں ہوگی، ان اوقات میں جو قضا نماز پڑھی، اس کے صحیح نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ پڑھنا لازم ہوگا۔ (حلبۃ الناجی، ص252، المطبع العثمانیۃ)
اور سبب کامل اس طرح ہے کہ اوقات مکروہہ کے علاوہ تمام اوقات قضا نماز کے لئے ظرف ہیں، اور ان میں کوئی ناقص وقت شامل نہیں۔ بدائع الصنائع میں ہے:
”اما شرائط جواز القضاء فجمیع ما ذکرنا انہ شرط جواز الاداء فھو شرط جواز القضاء الا الوقت فانہ لیس للقضاء وقت معین بل جمیع الاوقات وقت لہ الا ثلاثۃ، وقت طلوع الشمس و وقت الزوال و وقت الغروب فانہ لا یجوز القضاء فی ھذہ الاوقات لما مر ان من شان القضاء ان یکون مثل الفائت والصلاۃ فی ھذہ الاوقات تقع ناقصۃ والواجب فی ذمتہ کامل فلا ینوب الناقص عنہ وھذا عندنا“
قضا نماز کو ادا کرنے کی تمام شرائط وہی ہیں جو ادا نمازکی ہیں سوائے وقت کے، کہ قضا کے لیے کوئی وقت معین نہیں، بلکہ تمام اوقات میں قضا نماز جائز ہے، سوائے تین اوقات یعنی سورج طلوع، غروب ہونے اوروقتِ زوال کے، کہ ان اوقات میں قضا نماز پڑھنا جائز نہیں، جس کی وجہ گزر چکی کہ قضا نماز کا معاملہ فوت شدہ نماز کی طرح ہے اور ان اوقات میں نماز ناقص واقع ہو گی حالانکہ اس کے ذمے کامل نماز واجب ہے، لہذا ہمارے نزدیک ناقص نماز، کامل کے قائم مقام نہیں ہو گی۔ (بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، فصل فی صلاۃ الخوف، ج2، ص159، دار الحدیث، قاھرہ)
قضا نماز کے لئے جو اوقات ظرف ہیں ان میں فساد و نقصان نہ ہونے کے متعلق تغییر التنقیح لابن کمال پاشا اور کشف الاسرار میں ہے،
واللفظ لکشف الاسرار: ” جعل الكل سببا ولا فساد في كل الوقت كان الواجب على وفقه فلا يصح أداؤه في وقت ناقص كما في الفجر وقت الطلوع“
قضا نماز کے لئے مکمل وقت کو سبب قرار دیا گیا اور اس پورے وقت میں کوئی فساد نہیں، تو وجوب بھی اسی کے مطابق ہوگا، لہذا ناقص وقت میں اسے ادا کرنا جائز نہیں ہوگا، جیسا کہ نماز فجر کو طلوع آفتاب کےو قت ادا کرنا۔ (کشف الاسرار، ج01، ص228، شركة الصحافة العثمانية، إسطنبول)
قضا نماز کی نظیر نماز فجر ہے اور اس میں من و عن وہی تفصیل ہوتی ہے جو ہم نے ذکر کی۔ صدر الشریعہ محبوبی اسے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”أن في الفجر فإن كل وقته كامل فيجب أداء الكل في الوقت الكامل، فإن شغل كل الوقت يجب أن يشغله على وجه لا يعترض الفساد بالطلوع على الكامل“
نماز فجر کا مکمل وقت کامل ہے، لہذا اسے اول تا آخر کامل وقت میں ادا کرنا ہی لازم ہے، کیونکہ پورے وقت کا اس میں مشغول ہونا اس بات کو لازم کرتا ہے کہ مشغولیت اس طرح ہو کہ درمیان میں طلوع کی وجہ سے فساد عارض نہ ہو۔ (التوضیح مع التلویح، ج01، ص397-398، مطبوعہ مصر)
کامل نماز کے دوران مکروہ و ناقص وقت آجائے تونماز باطل ہوجاتی ہے، البتہ عصر کو اس سے استثناء حاصل ہے، اس کی وجہ تحریر کرتے ہوئےابن کمال پاشا لکھتے ہیں:
”السبب الجزء الذي اتصل به الأداء فهذا الجزء إن كان كاملاً يجب الأداء كاملا فإن اعترض عليه الفساد بطلوع الشمس يفسد وإن كان ناقصاً يجب ناقصاً } لأنه شرع فيه في الوقت الكامل لأن ما قبل طلوع الشمس وقت كامل لا نقصان فيه قطعاً فوجب عليه كاملاً فإذا فسد الوقت بالطلوع لا يكون مؤدياً كما وجب { وإنما لم يلزم فساد العصر إذا شرع فيه في الجزء الصحيح ومدها إلى أن غربت لأن الوقت لما كان متسعاً جاز له شغل كل الوقت فيعفى الفساد الذي يتصل به البناء إلا أن الاحتراز عنه مع الإقبال على الصلاة متعذر } اعلم أن الفساد الذي يعترض على ما وجب بسبب كامل ويعتذر الاحتراز عنه مع الإتيان بالعزيمة والإقبال على الصلاة في جميع الوقت هو وقوع بعض الأداء في وقت الكراهة كما بعد الطلوع وما قبل الغروب لا مجرد وقوعه بعد الوقت إذ لا فساد فيه فظاهران شغل كل الوقت بالأداء بدون هذا الفساد ممتنع في العصر دون الفجر ولذلك قال { وهذا التعذر مفقود في الفجر ولذلك فسد الفجر إذا وقع بعضها بعد الطلوع “
سبب وہ جزو ہے جس کے ساتھ ادا متصل ہو، یہ جزو اگر کامل ہے تو ادا ئیگی بھی کامل واجب ہوگی لہذا اگر درمیان میں طلوع شمس کے ذریعے فساد طاری ہوگا تو نماز فاسد ہوجائے گی، اور اگر وہ جزو ناقص ہو تو ادائیگی بھی ناقص واجب ہوگی، پہلے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے نما ز کامل وقت میں شروع کی ہے، کیونکہ طلوع شمس سے پہلے کا وقت کامل ہے اس میں کوئی نقصان نہیں لہذا اسے پورا بھی کامل کرنا واجب ہوا، لیکن جب درمیان میں سورج طلوع ہوگیا تو جس طرح وجوب ہوا تھا ادائیگی اس طرح نہیں ہوسکی، جبکہ نماز عصر میں کہ جب جزو صحیح یعنی کامل وقت میں اسے شروع کیا اور اسے طویل کیا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، تو فساد لازم نہیں آئے گا، کیونکہ جب وقت میں وسعت ہے، تو پورے وقت کا اس میں مشغول ہونا جائز ہے، لہذاوہ فساد جس سے بناء متصل ہے وہ معاف ہوگا، کیونکہ خواہ نماز کا کتنا ہی اہتمام ہو اس سے بچنا دشوار ہے۔تم جان لو کہ سبب کامل کی وجہ سے جو شے واجب ہے اور مکمل اہتمام اور توجہ کے باوجود پورے وقت میں اس سے بچنا مشکل ہے، وہ نماز کے کسی جزو کا وقت مکروہ میں واقع کرنا ہےجیسا کہ طلوع شمس کے بعد اور غروب سے پہلے کا وقت، نہ کہ نماز کا وقت کے بعد واقع ہونا کیونکہ بعض جزو کے وقت کےبعد ادا ہونے میں کوئی حر ج نہیں، اور ظاہر ہے کہ یہ معاملہ عصر میں مشکل ہے فجر میں نہیں، اسی وجہ سے مصنف نے فرمایا: یہ حرج نماز فجر میں موجود نہیں اسی وجہ سے اگر اس کا کوئی جزو طلوع شمس کے بعد ادا ہوگا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ (ملتقطا من تغيير التنقيح لابن كمال باشا، ص 114، 115،مخطوطہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0580
تاریخ اجراء: 30ذیقعدہ1446ھ/28مئی2025ء