قسط میں کمی کرنے پر قیمت بڑھانے کا حکم

ماہانہ قسط میں کمی کرنے پر قیمت بڑھا نا کیسا ؟ نیز قسطیں پوری ہونے سے پہلے خریدار سے سستے داموں خریدنا ؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا لیپ ٹاپ اور موبائل قسطوں پر بیچنے کا کاروبار ہے، میں مارکیٹ سے نقد موبائل و لیپ ٹاپ خرید تا ہوں اور آگے قسطوں پر اپنا پرافٹ رکھ کر بیچتا ہوں، اس کاروبار میں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ مثلا ً میں نے کسی کو ایک لیپ ٹاپ76 ہزار کا چار ہزار روپے ماہانہ کی قسطوں پر بیچا، اب وہ چند قسطیں ادا کرنے کے بعد میرے پاس آکر کہتا ہے کہ میں ماہا نہ 4 ہزار روپے ادا نہیں کرسکتا، اس لئے آپ مہربانی کرکے میری ماہانہ قسط میں کمی کردیں مثلا 2500 کردیں، بدلے میں اس لیپ ٹاپ کی قیمت آپ مجھ سے 80 ہزار روپے وصول کرلیں، یوں وہ اپنی مرضی سے مجھے زیادہ پیسے دینے کی پیشکش کرتا ہے، تو کیا اس طرح قسط میں کمی کرنے پر اصل رقم سے کچھ پیسے زیادہ لینا جائز ہے؟ جبکہ میری طرف سے کسی قسم کا جبر نہ ہو۔

یونہی بسا اوقات میرے پاس ایک کسٹمر آتا ہےجس کو رقم کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ مجھ سے مثلا 75 ہزار میں لیپ ٹاپ قسطوں میں خریدتا ہے تاکہ وہ اس کو بیچ کر مطلوبہ رقم حاصل کرسکے، اور آگے قسطوں کی ادائیگی سے قبل اس کو بیچنا چاہتا ہے، تو کیا ایسے شخص کولیپ ٹاپ بیچنا جائز ہے ؟ اور کیا میں اس سے وہ لیپ ٹاپ خریدسکتا ہوں ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں ماہانہ قسط میں کمی کرنے پر کسٹمر سے اصل قیمت سے ایک روپیہ بھی زائد وصول کرنا جائز نہیں، کیونکہ جب ماہانہ قسط میں کمی کی جائے گی تو لا محالہ ادائیگی کی مدت بڑھ جائے گی، یوں وہ زائد رقم درحقیقت مدت بڑھانے کا عوض ہوگی جوکہ سود اور ناجائز و حرام ہے، لہٰذا اگر کسٹمر تنگدست ہو جو ماہانہ زیادہ قسط ادا نہیں کرسکتا تو آپ کو چاہئے کہ اس کی ماہانہ قسط میں کمی کرکے بلا عوض مدت بڑھادیں تاکہ وہ سہولت کے ساتھ قسطیں ادا کرسکے۔

باقی رہا یہ مسئلہ کہ کوئی آپ سے موبائل یا لیپ ٹاپ قسطوں پر خریدتا ہے اور قسطوں کی ادائیگی سے قبل اس کو آگے بیچ دیتا ہے! تو ایسے شخص کو موبائل یا لیپ ٹاپ بیچنا بھی بالکل جائز ہے، اس میں بھی کوئی حرج نہیں، کیونکہ قسطوں پر کاروبار کرنا دراصل بیع التاجیل یعنی ادھار خرید و فروخت ہی کی ایک قسم ہے، لہٰذا جب آپ کے اور کسٹمر کے درمیان ایجاب و قبول ہوجائے تو اس طرح بیع مکمل ہوجائے گی اور وہ کسٹمر ان چیزوں کا مالک ہوجائے گا، اب وہ ان چیزوں کوقبضے سے پہلے نہیں، بلکہ قبضے کے بعد آگے کسی کو بیچ دے یا ہدیۃً دے دے، اس کو اختیار ہے، البتہ یہاں یہ خیال رکھنا ہوگا کہ جس قیمت میں آپ نے موبائل یا لیپ ٹاپ کسٹمر کو بیچا تھا، تو آپ قسطوں کی مکمل ادائیگی سے قبل اس موبائل یا لیپ ٹاپ کو کم قیمت میں نہیں خرید سکتے کہ اس صورت میں بھی بلا عوض نفع کا حصول ہوگا، جوکہ سود ہی کی ایک صورت ہے، ہاں! برابر قیمت یا اس سے زائد قیمت میں خریدنا آپ کیلئے بھی جائز ہے۔

مدت بڑھانے کا عوض لینا جائز نہیں کہ یہ سود اور ناجائز و حرام ہے، امام ابو الحسن علی بن حسین سغدی حنفی علیہ الرحمۃ النتف فی الفتاوی میں لکھتے ہیں :

”واما الربا في الدين فهو على وجهين احدها ان يبيع رجلا متاعا بالنسيئة فلما حل الاجل طالبه رب الدين فقال المديون زدني في الاجل ازدك في الدراهم ففعل فان ذلك ربا“

 ترجمہ: اور دین میں سود کی دو قسمیں ہیں: ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک شخص نے ادھار سامان بیچا، جب ادھار کی مدت پوری ہوگئی، دائن نے مدیون سے دین کا مطالبہ کیا تو مدیون نے دائن سے کہا کہ مجھے مزید مہلت دے دو میں دراہم بڑھا دوں گا، تو اس نے مدت بڑھا دی، تو یہ زیادتی سود ہے۔ (النتف فی الفتاوی، ج01، ص 485، دار الفرقان )

فتاوٰی فیض الرسول میں ہے: ”یہ جائز نہیں ہے کہ تین سو روپیہ میں فروخت کردیا، اب اگر قیمت ملنے میں ایک ہفتہ کی دیر ہوگئی تو اس سے پچیس یا پچاس زیادہ لے، ایسا کرے گا، تو سود ہوجائے گا۔(فتاوٰی فیض الرسول، ج02، ص 381، شبیر برادرز )

مجبور و تنگدست مشتری کو ثمن کی ادائیگی میں مہلت دینے کے متعلق، شرح مختصر الطحاوی میں ہے :

”وإن كان معسرًا: خلى سبيله قال أبو جعفر: (وسواء كان ذلك الدين من قرض، أو بيع، أو صداق امرأة، أو مما سوى ذلك)“

 ترجمہ: اور اگر وہ تنگدست ہو تو اس کا راستہ چھوڑ دیا جائے، امام ابو جعفر طحاوی علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ چاہے یہ دین قرض کی وجہ سے ہو یا بیع، عورت کے مہر یا اس کے علاوہ کسی اور وجہ سے۔(شرح مختصر الطحاوی للجصاص، ج08، ص 121، دار السراج)

مرشد الحیران میں ہے :

لا يجوز للقاضي أن يمهل المشتري في دفع الثمن للبائع ما لم يكن المشتري معسراً لا يقدر على الوفاء فينتظر إلى الميسرة“

 ترجمہ: قاضی کیلئے یہ جائز نہیں کہ مشتری کو بائع کے ثمن کی ادائیگی کے لیے مہلت دے جب تک کہ وہ تنگدست نہ ہو کہ جو مکمل ثمن کی ادائیگی پر قادر نہ ہو، اگر ایسا ہو تو اس کو آسانی تک مہلت دی جائے گی۔ (مرشد الحیران، ص 488، مادۃ، 488، دار الکتب العلمیۃ )

قسطوں میں خرید وفروخت بھی بیع التاجیل کی ہی ایک قسم ہے، جیساکہ فتاوٰی رضویہ میں ہے :

التأجیل جائز کما حققنا کل ذالک و ما التنجیم الا نوع من التأجیل“

 ترجمہ:بیع میں مدت مقرر کرنا جائز ہے، جیساکہ ہم نے ان میں سے ہر ایک کی اپنے فتاوٰی میں تحقیق کی، اور قسطیں مقرر کرنا بھی مدت مقرر کرنے ہی کی ایک قسم ہے۔  (فتاوٰی رضویہ، کفل الفقیہ الفاھم، ج 17، ص 493، رضا فاؤنڈیشن )

اور بیع میں مکمل قسطیں ادا نہ بھی کی ہوں تب بھی مبیع مشتری کی ملک ہوجائے گی کہ ثمن کی ادائیگی ملکیت کیلئے شرط نہیں، چنانچہ تحفۃ الفقہاء میں ہے:

وأما حكم البيع فهو ثبوت الملك في المبيع للمشتري وثبوت الملك في الثمن للبائع إذا كان البيع باتا من غير خيار“

 ترجمہ:اور بہرحال بیع کا حکم یہ ہے کہ مبیع میں مشتری کی ملکیت اور ثمن میں بائع کی ملکیت ثابت ہوجاتی ہے جبکہ بیع مکمل ہوچکی ہو، بغیر خیار کے ہو۔(تحفۃ الفقھاء، ج02، ص 37، دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فتاوٰی رضویہ میں ہے : ”ادائے ثمن شرائط صحت یا نفاذ بیع سے نہیں، ولہٰذا اگر بائع بعد تمامئ عقد زر ثمن تمام و کمال معاف کردے تو معاف ہوجائےگا اور بیع میں کوئی خلل نہ آئے گا۔ (فتاوٰی رضویہ، ج17، ص 118، رضا فاونڈیشن، لاہور)

لہٰذا مشتری اپنی شے مملوکہ میں ہر جائز تصرف جیسے بیع و شرا و ہبہ وغیرہ کرسکتا ہے، امام فخر الدين زیلعی حنفی علیہ الرحمۃ تبیین شرح کنز میں لکھتے ہیں:

ثم اعلم أن للإنسان أن يتصرف في ملكه ما شاء من التصرفات ما لم يضر بغيره ضررا ظاهرا“

ترجمہ:پھر جان لو کہ انسان کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی ملک میں جو چاہے تصرف کرے جب تک کہ اس کا تصرف دوسرے کو واضح نقصان نہ پہنچائے۔ (تبیین الحقائق، ج04، ص 195، المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

اپنی بیچی ہوئی چیز کو مکمل ثمن کی ادائیگی سے قبل مشتری سے کم قیمت میں خریدنا جائز نہیں، کہ اس میں بلا عوض نفع کا حصول ہے جوکہ سود کی ایک صورت ہے، چنانچہ درمختار و رد المحتار میں ہے :

(و فسد شراء ما باع بنفسه أو بوكيله من الذي اشتراه ولو حكما كوارثه بالأقل من قدر الثمن الأول قبل نقد كل الثمن الأول. صورته: باع شيئا بعشرة ولم يقبض الثمن ثم شراه بخمسة لم يجز وإن رخص السعر للربا) علة لقوله لم يجز: أي لأن الثمن لم يدخل في ضمان البائع قبل قبضه، فإذا عاد إليه عين ماله بالصفة التي خرج عن ملكه وصار بعض الثمن قصاصا ببعض بقي له عليه فضلا بلا عوض فكان ذلك ربح ما لم يضمن وهو حرام بالنص زيلعي“

 ترجمہ : اور جو چیز بندے نے خود بیچی یا اس کے وکیل نے بیچی ہو، تو ثمنِ اول مکمل وصول کرنے سے پہلے اس میں کمی کر کے اُسی خریدار سے خریدنا بیع فاسد ہے اگرچہ وہ خریدار حکمی طور پر ہو، جیسا کہ خریدار کے وارث سے خریدنا۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کسی شخص نے دس روپے کی کوئی چیز بیچی اور ثمن پر ابھی قبضہ نہیں کیا، پھر اُسی شخص سے پانچ روپے کی خرید لی، تو ایسا کرنا، سود کی وجہ سے جائز نہیں ہے، اگرچہ مارکیٹ میں حقیقتاً ہی اس کی قیمت کم ہوگئی ہو، للربا شارح کے قول لم یجز کی علت ہے یعنی اس لئے کہ بائع کے قبضے سے پہلے ثمن اس کے ضمان میں نہیں آیا، تو جب اس کا عینِ مال اسی صفت کے ساتھ، جس کے ساتھ اس کی ملک سے نکلا تھا، اُس کے پاس لوٹ آیا اور بعض ثمن بعض کا بدلہ ہو گئے، تو مشتری پر اس کے لیے بلا عوض زیادتی باقی رہ جائے گی، تو یہ زیادتی اُس چیز کا نفع ہے، جو اِس شخص کے ضمان میں داخل ہی نہیں ہے اور یہ نص کی وجہ سے حرام ہے۔ (الدر المختار مع رد المحتار، ج05، ص 73، دار الفكر-بيروت)

بہار شریعت میں ہے : ”جس چیز کو بیع کر دیا ہے اور ابھی ثمن وصول نہیں ہوا ہے، اس کو مشتری سے کم دام میں خریدنا، جائز نہیں اگرچہ اس وقت اس کا نرخ کم ہو گیا ہو۔۔خود مشتری سے اسی دام میں یا زائد میں خریدی یا ثمن پر قبضہ کرنے کے بعد خریدی، یہ سب صورتیں جائز ہیں۔(بہار شریعت، ج02، ص 708، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-0633

تاریخ اجراء: 08 ربیع الاول 1447ھ/02 ستمبر 2025ء