غیر مسلم بینک سے کریڈٹ کارڈ لینا اور استعمال کرنا

غیر مسلم کے بینک سے کریڈٹ کارڈ لینا کیسا ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ میں کہ جب کسی بینک سے کریڈٹ کارڈ بنوایا جاتا ہے تو بینک کسٹمر کو مخصوص حد تک رقم استعمال کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ یہ رقم کسٹمر کی نہیں ہوتی بلکہ بینک کی ہوتی ہے۔ پھر کسٹمر جب وہ رقم استعمال کرتا ہے تو طے کردہ مدت کے اندر اندر مثلاً ایک مہینہ کے اندر اگر وہ رقم بینک کو واپس کر دے تو بینک کوئی اضافی چارجز وصول نہیں کرتا۔ لیکن اگر اس مدت کے بعد ادائیگی کرے تو پھر اضافی چارجز بینک کو ادا کرنے ہوتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کا کریڈٹ کارڈ کسی ایسے بینک سے بنوا کر استعمال کرنا جائز ہے جو مکمل طور پر حربی کفار کی ملکیت میں ہو؟ جبکہ استعمال کرنے والے کی نیت یہ ہے کہ جتنی رقم استعمال کی جائے گی اتنی رقم وقت مقررہ پر واپس ادا کر دی جائے گی اور بینک کو کوئی اضافی چارجز ادا کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

ایسا بینک جس میں کسی مسلمان کا شیئر نہ ہو او ر وہ مکمل طور پر حربی کفار کا ہو، اس بینک سے مسلمان کا کریڈٹ کارڈ بنوانا اور استعمال کرنا جائز ہے، جبکہ کریڈٹ کارڈ کے استعمال کے بعد رقم بروقت ادا کر دی جائے اور لیٹ ہونے کی صورت پیدا نہ کی جائے۔ نیز رقم اتنی ہی استعمال کی جائے کہ جس کی بروقت ادائیگی پر انسان کو قدرت ہے یعنی آدمی کو اپنی آمدن و مالی وسائل کے لحاظ سے یہ غالب گمان حاصل ہو کہ وہ بروقت ادائیگی کر سکے گا۔ اور اگر کریڈٹ کارڈ استعمال کر کے رقم کی ادائیگی میں تاخیر کی اور بینک کو اضافی رقم دینی پڑی تو مسلمان کے لئے ایسا کرنا ہرگز جائز نہیں ہوگا۔

تفصیل کچھ یوں ہے کہ کریڈِٹ کارڈ کے حصول میں بینک اور کسٹمر کے درمیان جو معاہدہ ہوتا ہے ، یہ اپنی اصل کے اعتبار سے شریعت کے خلاف ہے؛ کیونکہ اس میں یہ شرط ہوتی ہے کہ بینک کی رقم استعمال کرنے کے بعد واپس ادائیگی میں  طے شدہ مدت سے تاخیر ہوئی تو اضافی رقم دینی پڑے گی۔ اور قرض کی ادائیگی میں تاخیر پر اضافی رقم کا لین دین حرام و سود ہوتا ہے۔

لیکن جب یہ عقد باہم دو مسلمانوں کے درمیان نہ ہو بلکہ ایک مسلمان  اور ایک حربی کافر کے درمیان ہو، تو چونکہ حربی کافر کا مال معصوم نہیں ہوتا، اس لئے ایسا معاہدہ اپنے اندر قدرے وسعت رکھتا ہے حتی کہ مسلمان وہ معاہدہ بھی ایسے غیر مسلم سےکر سکتا ہے، جو باہم دو مسلمانوں میں جائز نہیں، جبکہ اس میں مسلمان کا نقصان نہ ہو۔ اسی وجہ سے علماء فرماتے ہیں کہ اگر مسلمان، حربی کافر کو قرض دے کر اس پر مشروط منافع لے یا اپنے ایک درہم کے بدلے اس سے دو درہم خرید لے، تو یہ جائز ہے۔اور یہ سود نہیں ہوگا، کیونکہ سود اس وقت ہوتا ہے جب دونوں طرف کا مال عصمت و حُرمت والا ہو۔ اور چونکہ حربی کافر کا مال معصوم نہیں ہوتا، اس لئے یہاں سود متحقق نہیں ہوتا۔ لہذا جب یہ سود نہیں تو یہ جائز ہے۔ یونہی علماء فرماتے ہیں کہ انشورنس جس میں سود و جوئے کا معاہدہ ہوتا ہے، ایسا معاہدہ اگر حربی کافر کمپنی سے کیا جائے اور اس میں مسلمان کے نقصان کی صورت نہ ہو، تو ایسا معاہدہ کرنا جائز ہوگا ۔

جزئیات و عباراتِ علماء ملاحظہ فرمائیں:

امام سرخسی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:

ذكر عن مكحول عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: «لا ربا بين المسلمين، وبين أهل دار الحرب في دار الحرب»، وهذا الحديث، وإن كان مرسلا فمكحول فقيه ثقة، والمرسل من مثله مقبول، وهو دليل لأبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله - في جواز بيع المسلم الدرهم بالدرهمين من الحربي في دار الحرب

 یعنی حضرت مکحول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ فرمایا: "دار الحرب میں مسلمانوں اور دار الحرب کے اہل کے درمیان سود نہیں ہوتا۔" اگرچہ یہ حدیث مرسل ہے لیکن چونکہ حضرت مکحول ایک فقیہ اور ثقہ شخصیت ہیں، اس لیے ان جیسے شخص کی مرسل روایت قبول کی جاتی ہے۔ یہ حدیث حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت امام محمد - رحمہما اللہ -کی دلیل ہے اس مسئلے میں کہ دار الحرب میں حربی سے مسلم کا ایک درہم کے بدلے دو درہم لینا جائز ہے۔ (المبسوط للسرخسي، جلد14، صفحہ 56، دار المعرفہ، بیروت)

اور امام فخر الدین زیلعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:

” لا ربا بينهما في دار الحرب وكذلك إذا تبايعا بيعا فاسدا في دار الحرب فهو جائز وهذا عند أبي حنيفة ومحمد .... ولهما «قوله - صلى الله عليه وسلم - لا ربا بين المسلم والحربي في دار الحرب»“ملتقطا

ترجمہ: دار الحرب میں ان دونوں کے درمیان سود نہیں، اسی طرح اگر یہ دونوں دار الحرب میں بیع فاسد کریں تو یہ جائزہے۔ اور یہ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام محمدرحمھما اللہ کا موقف ہے اور ان کی دلیل سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ ”دار الحرب میں مسلم اور حربی کے درمیان سود نہیں۔“(تبیین الحقائق، کتاب البیوع ، جلد4، صفحہ97، دار الکتاب ا لاسلامی)

علامہ کاسانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ سود متحقق ہونے کی شرائط بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وأما شرائط جريان الربا (فمنها) أن يكون البدلان معصومين، فإن كان أحدهما غير معصوم لا يتحقق الربا عندنا.... .... وعلى هذا الأصل يخرج ما إذا دخل مسلم دار الحرب تاجرا فباع حربيا درهما بدرهمين، أو غير ذلك من سائر البيوع الفاسدة في حكم الإسلام أنه يجوز عند أبي حنيفة ومحمد....... (ولهما) أن مال الحربي ليس بمعصوم بل هو مباح في نفسه، إلا أن المسلم المستأمن منع من تملكه من غير رضاه ....تبين أن العقد ههنا ليس بتملك بل هو تحصيل شرط التملك وهو الرضا....فالملك للمسلم يثبت بالأخذ والاستيلاء لا بالعقد، فلا يتحقق الربا؛ لأن الربا اسم لفضل يستفاد بالعقد

یعنی حکمِ ربا جاری ہونے کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ دونوں بدل معصوم ہونے چاہئیں۔ اگر ان میں سے ایک بھی غیر معصوم ہو تو ہمارے ہاں ربا کا تحقق نہیں ہوتا۔ اس اصول کی بنیاد پر، اگر ایک مسلم دار الحرب میں تاجر بن کر داخل ہو اور وہاں کے حربی سے ایک درہم کے بدلے دو درہم لے لے یا اس کے علاوہ دیگر بیوع فاسدہ کرے، تو امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک یہ جائز ہے۔ امام اعظم اور امام محمد رحمھما اللہ کی دلیل یہ ہے کہ حربی کا مال معصوم نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے مباح ہوتا ہے۔ لیکن جب مسلمان مستأمن دار الحرب میں داخل ہوتا ہے تو اسے حربی کی رضامندی کے بغیر مال کی ملکیت حاصل کرنا ممنوع ہوتا ہے۔ یہاں سے یہ ظاہر ہوا کہ عقدیہاں ملکیت حاصل کرنے کا سبب نہیں، بلکہ ملکیت کی شرط یعنی رضامندی کی تحصیل کے لئے ہے۔ تو مسلم کی ملکیت قبضہ اور استیلاء سے ثابت ہوتی ہے، نہ کہ عقد سے، اس لیے ربا کا تحقق نہیں ہوتا؛ کیونکہ ربا ایک فضل ہے، جو عقد سے حاصل ہوتا ہے۔(بدائع الصنائع، جلد 5، صفحہ 193، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

ایک اور جگہ امام زیلعی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

”ویجوز من الشروط بین الحربی والمسلم ما لا یجوز بین المسلمین“

 یعنی جو غیر مسلم ذمی و مستامن نہ ہو اس کے اور مسلم کے درمیان کئی ایسی شرائط کا رکھنا جائز ہے جو مسلمانوں کا باہم رکھنا جائز نہیں۔(تبیین الحقائق، کتاب العاریۃ، جلد5، صفحہ85، دار الکتاب ا لاسلامی)

فتاوی عالمگیری میں تتارخانیہ کے حوالے سے ہے:

عندهما تجوز العقود الفاسدة بين المسلم والحربي

یعنی ان دونوں (امام اعظم و امام محمد رحمھما اللہ) کے نزدیک جو غیر مسلم ذمی و مستامن نہ ہو، اس کے اور مسلم کے درمیان عقود فاسدہ جائز ہیں۔(فتاوی عالمگیری، کتاب المزارعۃ، الباب الرابع والعشرون، جلد5، صفحہ276، دار الفکر، بیروت)

امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ لائف انشورنس کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”جس کمپنی سے یہ معاملہ کیا جائے اگر اس میں کوئی مسلمان بھی شریک ہے، تومطلقا حرام قطعی ہے کہ قمار ہے اور اس پر جو زیادت ہے ربا، اور دونوں حرام وسخت کبیرہ ہیں۔ اور اگر اس میں کوئی مسلمان اصلاً نہیں، تو یہاں جائزہے، جبکہ اس کے سبب حفظ صحت وغیرہ میں کسی معصیت پر مجبورنہ کیاجاتاہو، جواز اس لئے کہ اس میں نقصان کی شکل نہیں ۔۔۔ الخ “(فتاوی رضویہ، جلد23، صفحہ595، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ”کفار ِہند کے ذمی و مستامن نہ ہونے کے سبب ان سے بیع و شراء ناجائز سمجھنا سخت جہالت ہے، یہ سبب تو اور موجبِ وسعت ہے نہ کہ وجہ ممانعت۔“(فتاوی رضویہ، جلد14، صفحہ139، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ”۔۔۔یہاں تک کہ علماء نے تحصیل مال مباح جس میں پہلے سے اس کا کوئی حق مستقر نہیں بحیلہ نام طرق ممنوعہ مثل ربا و قمار و غیرہما جائز رکھی، بشرطیکہ وہ طریقہ صاحب مال کی رضامندی سے برتا گیا، یعنی غدر سے پاک وجدا ہو۔ “(فتاوی رضویہ، جلد17، صفحہ309و310، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالی کفار کی کمپنی سے لائف انشورنس کروانے کے متعلق لکھتے ہیں: ”اگر یہ کمپنیاں خاص کفار کی ہوں تو بیمہ کروانے میں کوئی حرج نہیں، جبکہ مسلم کا نقصان نہ ہو اور اس کو ربا و قمار قرار دے کر حرام کہنا صحیح نہیں۔“(فتاوی امجدیہ، جلد3، صفحہ235، مکتبہ رضویہ، کراچی)

مذکورہ با لا عبارات سے یہ واضح ہوا کہ حربی کفار کے بینک سے کریڈٹ کارڈ بنوانے میں جو عقد فاسد ہے، تو فقط اس وجہ سے اس معاملے کو ناجائز نہیں کہا جائے گا؛ کیونکہ یہاں عقد کی تو کوئی حیثیت نہیں اور نہ یہاں کسی عقد فاسد کی ممانعت ہے، ہاں بعد میں اگر مسلمان ادائیگی میں تاخیر کرتا ہے اور قرض پر بینک کو اضافی رقم دینے کی صورت پیدا کرتا ہے تو اپنا مالی نقصان کروانے اور کافر کو فائدہ پہنچانے کی وجہ سے اس کا یہ فعل، ناجائز و گناہ ہوگا۔(الا یہ کہ مسلمان مجبور ہو جائے اور شرعی ضرورت یا حاجت کی صورت بن جائے، تو پھربوجہ ضرورت اس کی اجازت ہوگی۔)

محیط برہانی میں ہے:

ورأيت في بعض الكتب أن هذا الاختلاف فيما إذا اشترى منهم درھمین بدرھم، اما اذا اشتری منھم درهماً بدرهمين لا يجوز بالاتفاق؛ لأن فيه إعانة لهم بقدر الدرهم الزائد ومبرة في حقهم بذلك

 یعنی میں نے کچھ کتب میں دیکھا ہے کہ امام اعظم و امام محمد کا امام ابویوسف سے جو اختلاف ہے تو اس اختلاف کا تعلق اس صورت سے ہے جبکہ مسلمان، حربی کفار سے ایک درہم کے بدلے دو درہم خریدے۔لیکن اگر اس کا عکس ہوا یعنی اگر  مسلمان نے  اپنے دو درہم کے بدلے ان کا ایک درہم خریدا، تو یہ بالاتفاق جائز نہیں؛ کیونکہ اس میں گویا ایک درہم ان کفار کو زائد دے کر ان کی مدد کرنا اور ان کو بھلائی پہنچانا ہے( جوکہ ممنوع ہے۔) (المحيط البرهاني، جلد10، صفحہ 489، مطبوعہ ادارۃ القرآن)

محقق علی الاطلاق امام ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:

وقد التزم الأصحاب في الدرس أن مرادهم من حل الربا والقمار ما إذا حصلت الزيادة للمسلم نظرا إلى العلة وإن كان إطلاق الجواب خلافه

یعنی (ہمارے)اصحاب و اساتذہ نے درس میں اس بات کو پابندی سے بیان کیا ہے کہ جب فقہاء کرام حربی کافر سے ربا اور قمارجیسی صورت کو حلال قرار دیتے ہیں، تو اُن کی مراد وہ صورت ہوتی ہے جس میں نفع و زیادتی مسلمان کوملے۔ اس مسئلے کی علت ہی اس بات کا تقاضا کرتی ہے، اگرچہ جواب کا اطلاق اس کے خلاف ہے۔ (فتح القدير، جلد7، صفحہ 38، دار الفکر، بیروت)

چونکہ بینک کی رقم استعمال کر کے مخصوص مدت میں واپس نہ کی جائے تو بینک اضافی رقم کا مطالبہ کرتا ہے اور کبھی ایسا ہو بھی جاتا ہے کہ انسان کسی وجہ سے مال بروقت ادا نہیں کر پاتا تو نقصان کا احتمال ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ جب بھی ایسے کارڈ کو مسلمان استعمال کرے تو اس وقت اسے اپنی آمدنی، مالی وسائل وغیرہ کے پیشِ نظر یہ یقین یا کم از کم ظن غالب حاصل ہونا چاہیے کہ وہ بروقت رقم ادا کر سکے گا اور لیٹ ہونے یا اضافی چارجز لازم ہونے تک نوبت نہیں پہنچے گی؛ کیونکہ ظنِ غالب کی وجہ سے مسلمان کے نقصان کی شکل (جو عدم ِ جواز کی وجہ بن سکتی تھی وہ بھی ) نہ رہی ۔

جیسا کہ حکومت ہند کے جس بیمے میں تین سال تک قسطیں نہ جمع کروانے کی صورت میں رقم ضبط ہو جانے کی شرط تھی اس کے جواز کی صورت بیان کرتے ہوئے فقیہ عصر حضرت علامہ مولانامفتی محمد نظام الدین مصباحی دام ظلہ العالی لکھتے ہیں: ”.......... بیمہ کا جواز اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ بیمہ کرانے والے کو اپنی آمدنی، نیز موجودہ مال و متاع کے پیش نظر ظن غالب ہو کہ وہ ابتدائی تین سال کی قسطیں ادا کر لے گا۔“                 (اسلام اور جدید بینکاری، صفحہ93-5، مکتبہ برکات المدینہ )

بیمے کی اسی صورت کے متعلق مفتی آل مصطفی مصباحی صاحب لکھتے ہیں: ”..........اگر کوئی شخص ایسا ہے جسے اپنی آمدنی پر ظن غالب نہیں کہ ہم قسطیں وقت پر ادا کر سکیں گے تو اسے اجازت نہیں، کہ اس میں مسلمان کے مال کی تضییع ہے، بلکہ بالقصد کافر کو اپنا مال دینا ہے۔“ (حاشیہ فتاوی امجدیہ، جلد3، صفحہ202، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی)

نوٹ (1):

مسلمانوں کے بینک سے کریڈٹ کارڈ کا حصول جائز نہیں اگرچہ کارڈ بنوانے والا یہ عزم رکھتا ہے کہ وہ بعد میں رقم بروقت ادا کر دیا کرے گا اور سود کی ادائیگی کی نوبت نہیں آنے دے گا، کیونکہ اس طرح اگرچہ وہ سود ادا کرنے کے فعل سے تو بچ سکتا ہے لیکن معاہدے میں سود کی شرط قبول کرنے کا گناہ ضرور اس کے سر رہے گا اور جب معاہدہ دو مسلمانوں کے درمیان ہو، تو پھر خلاف شریعت معاہد ہ کرنا بھی حرام ہوتا ہے۔

نوٹ (2):

واضح رہے کہ مسلم و حربی کافر کے درمیان سود متحقق نہ ہونے والے مسئلے کا دار و مدار مال کے معصوم ہونے یا نہ ہونے پر ہی ہے۔ دار الحرب ہونے یا نہ ہونے پر نہیں ہے۔اس کی کامل تحقیق امام اہلسنت امام احمد رضان خان علیہ رحمۃ الرحمٰن نے اپنے فتاوی میں ذکر فرمائی ہے۔ ان کے ایک فتوے کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ” علماء نے کہ مسئلہ حربی میں قید دارالحرب ذکر فرمائی اس کا منشاء اخراج مستامن ہے کہ اس کا مال مباح نہ رہا۔ردالمحتار میں ہے :

قولہ ثَمّ ای فی دارالحرب قید بہ لانہ دخل دار نا بامان فباع منہ مسلم درھما بدر ھمین لایجوز اتفاقا ط عن المسکین ۔ہدایہ میں ہے: لاربا بین المسلم والحربی فی دارالحرب بخلاف المستامن منھم لان مالہ صار محظورا بعقد الامان اھ ملخصا۔۔۔

بالجملہ حقیقت ربا اموال محظورہ میں متحقق ہوتی ہے ۔۔۔نفی ربا بربنائے انتفائے عصمت ووجود اباحت ہے نہ بربنائے انتفائے شرف دار۔۔۔ولہٰذا مسلم مستامن سے عقد ربا قطعاً حرام اگرچہ شرف دار منتفی ہے لوجود العصمۃ۔۔۔پس ثابت ہوا کہ کوئی حرام بوجہ انتفائے شرف دار حلال نہیں ہوسکتا اور دارالحرب میں کسی شے کی حلت فی نفسہٖ اس کی حلت ہے کہ باختلاف دارمختلف نہ ہوگی۔ رہا وہاں امور مذکورہ کا حلال ہونا وہ ہر گز اس بناء پر نہیں کہ یہ محرمات وہاں حلال ہیں، بلکہ وجہ یہ کہ ان محرمات کی حقیقت عصمت و محظوریت پر مبنی کما نص علیہ فی المبسوط کما تقدم اور وہ وہاں معدوم، تو حقیقۃً ان کی حقیقت ہی ان صورتوں میں منتفی، اگرچہ مجرد صورت و اسم باقی ہو اور حکم حقیقت پر ہے نہ کہ اسم و صورت پر کما لایخفی                                         (فتاوی رضویہ، جلد17، صفحہ313تا319، رضا فاونڈیشن، لاھور)

نوٹ (3):

اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ حاجت کی صورت میں ہی قرض لینا چاہیے۔ لہذا کریڈٹ کارڈ ہو یا کوئی اور ذریعہ بلا ضرورت قرض لینے سے بچنا چاہیے۔ حدیث پاک میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

إِيَّاكُمْ وَالدَّيْنَ، فَإِنَّهُ هَمٌّ بِاللَّيْلِ، وَمَذَلَّةٌ بِالنَّهَارِ

 یعنی قرض سے بچو، کیونکہ وہ رات کو فکرمندی اور دن کو ذلت و رسوائی کا باعث بنتا ہے۔ (شعب الإيمان، جلد7، صفحہ 384، حدیث:5160، مطبوعہ رياض)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب : محمد ساجد عطاری

مصدق: مفتی ابوالحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: NRL-219

تاریخ اجراء20 رمضان المبارک  1446 ھ/21 مارچ  2025 ء