
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شر عِ متین اس مسئلے میں کہ میں نے ایک شخص کو 27000 روپےکی ایک چیز بیچی ،جس کے 23000 روپے اس نے نقد ادا کیے ،جبکہ 4000 روپےایک ہفتے بعد دینا طے ہوا۔ میں نے یہ 4000 روپے کھاتے میں لکھ لیے ۔پیسے لینا مجھے یاد نہ رہا ۔کافی عرصے بعد جب کھاتا چیک کیا تو اس میں 4000 روپے اس کے نام پر لکھے ہوئے تھے جس پرمیں نے اس سے رابطہ کیا تو اس کا کہنا ہے کہ میں نے پیسے دے دیے تھے اور میرا کہنا ہے کہ اگر مجھے پیسے ملے ہوتے تو میں کھاتے سے کاٹ دیتا لہٰذا مجھے پیسے نہیں ملے۔ اس صورت میں شریعت ہمارے لیے کیا حکم بیان کرتی ہے؟سائل:محمد اشرف
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں خریدار نے اگر 4000 روپے ادا کردیے تھے تو اس پر لازم ہے کہ اس ادائیگی پر گواہ پیش کرے، اگراس نے گواہ پیش کر دیے تو وہ رقم کی ادائیگی سے بری ہوجائے گا۔ اوراگروہ گواہ پیش نہ کرسکے توشرعی اصولوں کے مطابق آپ سے قسم لی جائے گی کہ ”مجھے یہ رقم وصول نہیں ہوئی۔“اگر آپ قسم کھا لیتے ہیں تو خریدار پر اس رقم کی ادائیگی لازم ہوگی اور اگر آپ قسم کھانے سے انکار کرتے ہیں ، تو پھر شرعاً اس پر رقم کی ادائیگی لازم نہ ہوگی۔
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
”إذا ادعى أحد كذا درهما من جهة القرض ودفع المدعى عليه الدعوى قائلا: إنني أديت لك ذلك فيسأل حينئذ المدعي هل إن المدعى عليه أدى لك المبلغ المذكور. والمدعي إما أن يقر بالاستيفاء أو ينكر فإذا أنكر وأثبت المدعى عليه أداءه ذلك المبلغ يحكم القاضي بمنع المدعي من دعواه وإذا عجز عن إقامة البينة فللمدعى عليه أن يحلف المدعي على عدم قبضه المبلغ المذكور من المدعى عليه۔۔۔ وإذا نكل المدعي عن حلف اليمين يثبت دفع المدعى عليه “
یعنی ایک شخص نے دعوی کیا کہ فلاں کے ذمے میرے کچھ دراہم قرض ہیں،مدعا علیہ (مقروض) نےیہ کہتے ہوئے اس بات کا رد کیا کہ میں تو تمہیں تمہارا قرض ادا کر چکا ہوں،تواب مدعی سے پوچھا جائے گا کہ مدعا علیہ (مقروض)نے تمہیں قرض کی ادا ئیگی کی ہے یا نہیں؟ مدعی یا تو قرض کے وصول کرنے کا اقرار کرے گا یا انکار کرے گا ۔ انکار کی صورت میں اگر مدعا علیہ (مقروض)نے گواہوں سے اپنا قرض ادا کرنا ثابت کردیا تو قاضی مدعی کا دعوی خارج کردے گا۔ اگر مدعا علیہ یعنی مقروض گواہ پیش نہ کرسکے تومدعا علیہ یعنی مقروض کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مدعی یعنی قرض دینے والے سے اس بات پر قسم اٹھوائے کہ اس نے مدعا علیہ یعنی مقروض سے قرض کی رقم وصول نہیں کی ۔۔۔ اگر مدعی قسم سے انکار کرے گا تو مدعا علیہ(مقروض) کا رقم کی ادائیگی کا دعوی ثابت ہوجائے گا۔(درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام ، جلد 4، صفحہ224 ،دار الجیل)
فتاوی ہندیہ و فتاوی بزازیہ میں ہے جبکہ فتاوی ہندیہ کے الفاظ درج ذیل ہیں:
”لو ادعى المديون أنه بعث كذا من الدراهم إليه أو قضى فلان دينه بغير أمره صحت الدعوى ويحلف “
یعنی مدیون نے دعوی کیا کہ اس نے اتنے روپے دائن کے پاس بھیج دیے تھے یا فلاں شخص نے میرے کہے بغیر دَین ادا کردیا تھا تومدیون کی یہ بات مسموع ہوگی اور دائن پرحلف دیا جائیگا ۔(الفتاوی الہندیۃ،جلد4،صفحہ5،مطبوعہ دار الفكر،بیروت)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ”بہار شریعت “میں لکھتے ہیں:”دائن نے دَین کا دعویٰ کیا مدیون کہتا ہے کہ میں نے اتنے روپے تمہارے پاس بھیج دیے تھے یا فلاں شخص نے بغیر میرے کہنے کے دَین ادا کردیا مدیون کی یہ بات مسموع ہوگی اور دائن پرحلف دیا جائیگا ۔“(بہار شریعت،جلد2،صفحہ1024،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: IEC-664
تاریخ اجراء:27 محرم الحرام1447ھ/23جولائی 2025ء