
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے ایک دوست نے کچھ دنوں کے لیے میرے پاس بطورِ امانت 1 لاکھ روپے رکھوائے تھے۔ بعد میں اس نے کہا کہ ’’میرا ایک دوست فلاں علاقے میں رہتا ہے، تم ان ایک لاکھ روپے میں سے 20 ہزار روپے بطورِ قرض اسے دے دینا۔‘‘میں نے ابھی وہ 20 ہزار روپے اس کے دوست کو نہیں دیے تھے کہ میرا وہ دوست انتقال کر گیا جس کی رقم میرے پاس امانتا ً رکھی تھی ۔ اب شرعی طور پر میری کیا ذمہ داری ہے؟ کیا میں 20 ہزار روپے اس کے دوست کو قرض دوں یا مکمل 1 لاکھ روپے اس کے وارثوں کے حوالے کر دوں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ پر لازم ہے کہ آپ وہ مکمل ایک لاکھ روپے اپنے مرحوم دوست کے ورثاء کے حوالے کردیں۔
مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ قرض دینے کا وکیل بنانا شرعاً جائز ہے، جبکہ صورتِ مسئولہ میں آپ کے مرحوم دوست نے آپ کو ایک لاکھ روپے میں سے 20 ہزار روپے قرض دینے کا وکیل بنایا تو یہ وکالت درست تھی، مگر آپ کے قرض دینے سے پہلے ہی چونکہ آپ کے دوست کا انتقال ہوگیا تو یہ وکالت ختم ہوگئی، کیونکہ مؤکل یا وکیل میں سے کسی ایک کا بھی انتقال ہوجائے تو وکالت ختم ہوجاتی ہے اور ملکیت اصل مالک سے اُس کے ورثاء کی طرف منتقل ہوجاتی ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کابالغ ورثاء کی اجازت کےبغیر خود سے وہ رقم قرض میں دے دینا جائز نہیں۔یونہی فقہائے کرام نے اس بات کی بھی صراحت فرمائی ہےکہ امانت رکھوانےوالےکاانتقال ہوجائے، تو وہ رقم اُس کے ورثاء کو لوٹائی جائے گی بشرطیکہ وہ رقم دَین میں مستغرق نہ ہو۔ اس پوری تفصیل سے واضح ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں آپ کووہ مکمل رقم دوست کے ورثاء کے حوالے کرنا ہوگی۔
قرض دینے کا وکیل بنانے کے متعلق علامہ شامی علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں :
’’ نعم وصح التوکیل بالاقراض لا بالاستقراض ‘‘
یعنی جی ہاں !قرض دینے کا وکیل بنانا صحیح ہے ، قرض لینے کا وکیل بنانا صحیح نہیں ۔(العقود الدریہ فی تنقیح فتاوی حامدیہ ، ج 01 ،ص 343 ، دار المعرفہ ،بیروت)
موکل یا وکیل دونوں میں سے کسی کے انتقال کرجانے سے وکالت باطل ہوجاتی ہے ۔جیسا کہ ھدایہ ،فتاوی قاضی خان ، شرح مختصر الطحاوی وغیرہ کتب میں ہے
’’ واللفظ للاخر‘‘:’’ موت الموكل يخرج الوكيل من الوكالة، علم بذلك الوكيل، أو لم يعلم لأن الملك قد انتقل عن الموكل، فبطل أمره من جهة الحكم‘‘
یعنی: موکل کی موت سے وکیل وکالت سے خارج ہو جاتا ہے، خواہ وکیل کو اس کی موت کا علم ہو یا نہ ہو، کیونکہ موت کے بعد موکل کی ملکیت ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا اس نے جتنے حکم صادر کیے تھے وہ سب باطل ہوگئے ۔(شرح مختصر الطحاوی للجصاص،ج03 ، ص 276 ،مطبوعہ ،دار البشائر الاسلامیہ)
مبسوط للسرخسی میں ہے:
’’موت الموكل يوجب عزل الوكيل حكما لتحول ملكه إلى وارثه ‘‘
یعنی :موکل کی موت وکیل کو وکالت سے حکماً معزول کردیتی ہے کیونکہ اس کی ملکیت اس کے وارث کی طرف منتقل ہوجاتی ہے۔ (مبسوط للسرخسی ،ج11 ،ص 213 ، دار المعرفۃ ،بیروت)
بہارِ شریعت میں ہے : ’’ دونوں میں سے کوئی مر گیا یا اُس کو جنون مطبق ہو گیا وکالت باطل ہو گئی۔‘‘(بہارشریعت، ج02 ،ص 1012 ، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
امانت رکھوانے والے کا انتقال ہوگیا تو وہ امانت ورثاء کو لوٹانا ہوگی۔ جیسا کہ مبسوط للسرخسی میں ہے:
’’اذا مات رب الوديعة فالوارث خصم في طلب الوديعة؛ لأنه خليفة المورث، قائم مقامه بعد موته‘‘
یعنی :جب امانت کے مالک کا انتقال ہو جائے، تو اس امانت کی واپسی کا مطالبہ کرنے میں وارث خصم ہوگا، کیونکہ وارث میت کا نائب اور اس کی وفات کے بعد اس کا قائم مقام ہے۔ (مبسوط للسرخسی ، ج11 ،ص 130/131 ،دار المعرفۃ ،بیروت)
مجمع الضمانات میں ہے:
’’ لو غاب رب الوديعة ولا يدرى أحي هو أم ميت يمسكها أبدا حتى يعلم موته فإن مات إن لم يكن عليه دين مستغرق يردها على الورثة‘‘
یعنی :اگر ودیعت کا مالک غائب ہوجائے او ر اس کی زندگی یا موت کا علم نہ ہو تو مودَع ودیعت کو اپنے پاس اس وقت تک روکے رکھے گا جب تک اس کی موت کا علم نہ ہوجائے ۔ پھر جب وہ مرجائے اور اس پر کوئی دَین مستغرق بھی نہ ہو تو مودَع ودیعت اس کے ورثاء کو لوٹادے گا ۔(مجمع الضمانات ، ص 82 ، مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی )
بہارِ شریعت میں ہے :’’ ودیعت رکھنے والا مر گیا اور اُس پر دَین مستغرق نہ ہوتو ودیعت ورثہ کو دیدے۔‘‘(بہارشریعت، ج03 ،ص 38 ، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: IEC-654
تاریخ اجراء:19محرم الحرام 1447ھ / 15 جولائی 2025ء