اسکول وین مالکان کا گرمیوں کی چھٹیوں میں فیس لینا کیسا ہے؟

اسکول وین مالکان کا جون جولائی کی چھٹیوں کی فیس لینا کیسا؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اسکول وین والے  جون جولائی کی چھٹیوں کی فیس لے سکتے ہیں؟ جس طرح اسکول کی انتظامیہ جون جولائی کی چھٹیوں کی فیس وصول کرتی ہے؟

واضح رہے کہ والدین کا وین والوں سےفیس کے حوالے سے  عموماً دو طریقوں  سے معاہدہ ہوتا ہے :

(۱)والدین اور وین والوں کے درمیان معاہدہ کرتے وقت صراحتاً جون جولائی کی چھٹیوں کے حوالے سےکچھ بھی طے نہیں ہوتا تو کیا اس صورت میں عرف کی وجہ سےوالدین وین والے کو ان دو ماہ کی  فیس دیں گے یا نہیں؟

(۲) والدین اور وین والوں کے درمیان معاہدہ کرتے وقت ہی صراحتاً  یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ جون جولائی کی فیس والدین ادا کریں گے ۔

مذکورہ بالا صورتوں  میں وین ڈرائیور کب   اجرت کا مستحق ہو گا اور کب نہیں؟ شرعی رہنمائی فرما دیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

(۱)اس سُوال کا جواب جاننے سے پہلے حکمِ شرع ذہن نشین رہے کہ دیگر معاملات کی طرح عقدِ اجارہ میں بھی عرف پر دار و مدار ہوتا ہے، لہٰذا فریقین جو چیزیں صراحتاً  اجارے میں طے نہ کریں تو وہاں کے عرف کا اعتبار کرتے ہوئے وہ چیزیں بھی اجارے میں داخل ہوں گی کہ مشہور فقہی قاعدہ ہے "المعروف كالمشروط"یعنی معروف مشروط کی طرح ہوتا ہے۔ جیسا کہ اجارے کے باب میں فقہائے کرام کی تصریحات موجود ہیں کہ اجیر کا ایامِ معہودہ کا اجارہ لینا شرعاً جائز ہے ۔

اب جس جگہ یہ عرف ہے کہ اسکول وین والے جون جولائی کی چھٹیوں کی فیس وصول کرتے ہیں، وہاں  عرف کی بنا پر اسکول وین والوں کا جون جولائی کی چھٹیوں کی فیس وصول کرنا شرعاً جائز ہے، اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔جس جگہ عرف نہ ہو وہاں گاڑی والے کو چھٹیوں کے پیسے نہیں دیے جائیں گے جبکہ صراحت کے ساتھ پہلے طے نہیں کیے گئے تھے۔

(۲)  اگر فریقین  اجارے کا معاہدہ کرتے وقت ہی صراحتاً یہ طے کرلیں کہ جون جولائی کی چھٹیوں کی فیس وین والے کو دی جائے گی، تو اس صورت میں  بھی وین والا ان دو ماہ کی اجرت کا مستحق ہوگا۔

جزئیات

معروف مشروط کی طرح ہوتا ہے۔چنانچہ الاشباہ و النظائر میں ہے:

”قالوا: المعروف كالمشروط ۔۔۔وفي البزازية المشروط عرفا كالمشروط شرعا “

یعنی علما فرماتے ہیں کہ معروف مشروط کی طرح ہوتا ہے۔۔۔ اور بزازیہ میں ہے کہ جو چیز عرفاً مشروط ہو، وہ شرعاً مشروط کے حکم میں ہوتی ہے۔(الاشباه والنظائر، صفحه 85، مطبوعه دار الكتب العلمية، بيروت، ملتقطاً)

عقد اجارہ میں جب کوئی شرط نہ ہو تو اس بارے میں تمام معاملات عرف کی طرف راجع ہوں گے، اس کے متعلق محیط برہانی اور فتاوی عالمگیری میں ہے:

’’واللفظ للاول“أن الإجارة إذا وقعت على عمل فكل ما كان من توابع ذلك العمل ولم يشترط ذلك في الإجارة على الأجير، فالمرجع فيه العرف“

یعنی : جب اجارہ کسی عمل پر ہو، تو اس عمل سے متعلق جو بھی لوازمات ہوں،اور اجارہ کرتے وقت اجیر پر اس کی شرط بھی نہ لگائی گئی ہوتو اس بارے میں تمام معاملات کا مدار عرف پرہوگا۔(محیط برہانی،جلد07، صفحہ 494، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

غمز عیون البصائر اور شرح مجلہ میں ہے

واللفظ للاول:’’لو استأجر أجيرا شهرا لا يدخل يوم الجمعة للعرف کما فی الخلاصۃ“

یعنی : اگر کسی نے ایک ماہ کے لیے اجیر رکھا تو اس میں جمعہ کا دن  عرف کی وجہ سے داخل نہیں ہوگا جیساکہ خلاصہ میں ہے۔(غمز عیون البصائر، جلد04، صفحہ 73، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

فتاوٰی رضویہ شریف میں سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”بالجملہ اجارات وغیرہا معاملات میں مدار تعارف پر ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 19،صفحہ450، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاوی بحر العلوم میں ہے:” اجارات وغیرہ معاملات میں ان شرائط کے موافق حکم شرعی ہوگا جو متعاقدین میں باہم طے ہوں۔  اور طے نہ ہونے کی صورت میں اس کے موافق جو اس علاقہ اور اس زمانہ کا عرف ہو ۔ فقہ کا یہ عام قاعدہ کلیہ ہے المعروف كالمشروط۔ فتاوی رضویہ ششم ص ۱۴۴ میں ہے:’’اجارات وغیرہ معاملات میں عمل تعارف پر ہے ‘‘تو طالب علم اور پرنسپل میں داخلہ کے وقت ہی طے ہو گیا ہو کہ مہینہ کے پورے دنوں کی فیس لی جائے گی۔ یا ادھر کا یہی عرف ہوتو پرنسپل کا تعطیل کے دنوں کی فیس وصول کرنا ، جائز اور نہ معاملہ ہوا ہو، نہ ایسا عرف ہو، تو ناجائز۔(فتاوی بحر العلوم، جلد 4،صفحہ533، مطبوعہ شبیر برادرز، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:  IEC-659

تاریخ اجراء:23محرم الحرام 1447ھ / 19 جولائی 2025ء