سامان کی بنیاد پر مضاربت کرنا کیسا ہے؟

سامان دے کر کہا بیچو اور نفع آدھا آدھا ، اس کا حکم

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک عرصے سے  کاروبارکر رہا ہوں، جس میں تمام سرمایہ میرا ہے اور میرے پارٹنر کی فقط محنت ہے ، اُس کا کوئی سرمایہ اس کاروبار میں شامل نہیں ہے۔ ہمارے اس  کاروبار کا طریقہ یہ ہے کہ میں اپنی رقم سے پہلے سامان خریدتا ہوں پھر وہ سارا مال بیرونِ ملک اپنی شاپ پر بھیجتا ہوں۔ سامان خرید کر شاپ تک پہنچانے کی ساری ذمہ داری میری ہوتی ہے۔ جبکہ میرا پارٹنر  بیرونِ ملک میری شاپ پر بیٹھ کر میرا مال بیچتا ہے، پھر اس کاروبار سے ہمیں جو نفع حاصل  ہوتا ہے اُس کا  75فیصد میرا  ہوتا ہے جبکہ 25  فیصد نفع میں اپنے پارٹنر کو دیتا ہوں۔

آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا ہمارے  کاروبار کا طریقہ کار شرعاً درست ہے؟ اگر درست نہیں تو اس کا درست طریقہ بھی بیان فرمادیں تاکہ ہم اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں۔ مزید یہ بھی رہنمائی فرمادیں کہ اگر کاروبار میں نقصان ہوجاتا ہے تو وہ ہمارے درمیان کس طرح تقسیم ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

شرکت کی وہ صورت کہ جس میں ایک طرف سے مال ہو اور دوسری طرف سے محنت ہو عقدِ مضاربت کہلاتی ہے، لہذا آپ کی بیان کردہ صورت مضاربت کی ہونی چاہیے تھی، لیکن مضاربت درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ راس المال نقدی ہو، ورنہ اگر راس المال نقدی نہ ہو تو اس صورت میں مضاربت فاسد ہوجاتی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کا سامان کے ذریعے اپنے پارٹنر سے شرکت کرنا مضاربتِ فاسدہ کی صورت ہے۔

حکمِ شرع ذہن نشین رہے کہ مضاربت فاسد ہوجائے تو یہ اجارے میں تبدیل ہوجاتی ہے، اس صورت میں کاروبار سے حاصل ہونے والا سارا نفع رب المال (Investor) کو ملتا ہے جبکہ مضارب (Working partner) کو اس کام کی فقط اجرتِ مثل (یعنی اس طرح کے کام کی عام طور پر جتنی اجرت بنتی ہے وہ) ملتی ہےبشرطیکہ وہ اجرت  طے شدہ نفع سے زیادہ نہ ہو، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں بھی کاروبار سے حاصل ہونے والا سارا نفع آپ ہی کو ملے گا اور آپ کے پارٹنر کو اجرتِ مثل ملے گی ،لہٰذا اب تک  اگر اُس نے اجرتِ مثل سے زیادہ رقم وصول کرلی ہے تو وہ رقم آپ کو واپس کرے گا۔

جائز حل:

پوچھی گئی صورت میں اگر آپ شرعی طریقے سے اپنے کاروبار کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو اس کی ایک جائز صورت یہ ہے کہ دوسرا شخص جو آپ کا مال بیچ رہا ہے وہ اپنی کچھ رقم لگا کر شریک بن جائے ، رقم نہ ہو تو آپ اس کو قرض بھی دے سکتے ہیں لیکن چونکہ یہ چلتا ہوا کاروبار ہے ۔اس لئے چلتے ہوئے کاروبار میں شراکت کے تقاضے پورے کر کے ہی اس کو بطور شریک شامل کیا جا سکتا ہے ۔

عقدِ مضاربت کی تعریف بیان کرتے ہوئے علامہ شیخ ابو الحسن احمد بن محمد القدوری الحنفی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں  :

’’المضاربۃ عقد علی الشركة بمال من احد الشریکین وعمل من آخر‘‘

یعنی : مضاربت ایک ایساعقدِ شرکت ہے جس میں ایک شریک کی جانب سے مال اور دوسرے کی جانب سے کام ہوتا ہے ۔(مختصر القدوری ، ص 113 ،دار الکتب العلمیہ )

مال مضاربت کا نقدی ہونا ضروری ہے،سامان میں مضاربت صحیح نہیں۔  جیساکہ بدائع الصنائع میں ہے:

”( منها ) أن يكون رأس المال من الدراهم أو الدنانير عند عامة العلماء فلا تجوز المضاربة بالعروض ۔۔۔۔۔لأن المضاربة بالعروض تؤدي إلى جهالة الربح وقت القسمة ؛ لأن قيمة العروض تعرف بالحرز والظن ، وتختلف باختلاف المقومين ، والجهالة تفضي إلى المنازعة ، والمنازعة تفضي إلى الفساد “

یعنی مضاربت کی کچھ شرائط ہیں،اورایک شرط راس المال کا از قبیل دراہم و دنانیر ہونا ہےلہٰذا سامان کے ذریعے مضاربت جائز نہیں؛ کیونکہ سامان کے ذریعے مضاربت تقسیم کے وقت جہالت کی طرف لے جاتی ہے، کیونکہ سامان کی قیمت اندازے پر مبنی ہے اور قیمت اندازہ  لگانے والوں کے مختلف ہونے سے  بدلتی رہتی ہے، نیز جہالت جھگڑے کی طرف لے کر جاتی ہے اور جھگڑا مضاربت کے فساد کی طرف لے جانے والا ہوگا۔(بدائع الصنائع،جلد6،صفحہ82، مطبوعہ دار الكتب العلمية،بیروت، ملتقطاً)

کمال الدرایہ میں ہے:

”فإن قال خذ عبدي هذا أو عروضي هذا مضاربة بالنصف على أن رأس مالي قيمته فالمضاربة فاسدة“

یعنی: اگر کہا کہ میرا یہ غلام لو یایہ  سامان لو آدھے نفع کے بدلے مضاربت پر۔ اس شرط پر کہ  میرا راس المال اس کی قیمت ہوگی ،  تواس صورت میں مضاربت فاسد ہے۔(کمال الدرایۃ، جلد 8، صفحہ321، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

بہارِ شریعت میں مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ مضاربت کی شرائط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”

راس المال ازقبیل ثمن ہو۔

عروض کے قسم سے ہوتو مضاربت صحیح نہیں  (بہارِ شریعت،جلد3،صفحہ1،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

مضاربت فاسدہ میں جب نفع ہو تو وہ  رب المال کا ہوتا ہے،جیساکہ ہدایہ شریف میں ہے:

”والربح لرب المال لأنه نماء ملكه،وهذا هو الحكم في كل موضع لم تصح المضاربة“

یعنی (مضاربت فاسد ہونے کی صورت میں) نفع رب المال  کا ہوگا کیونکہ یہ نفع اسی کی ملکیت کی بڑھوتری ہے،اور یہ حکم ہر اس مقام میں جاری ہوگا جہاں مضاربت فاسد ہوجائے۔(ہدایہ،جلد3،صفحہ201،مطبوعہ بیروت)

فتاوی قاضی خان میں ہے:

”والمضارب اذا عمل فی المضاربۃ الفاسدۃ وربح یکون جمیع الربح لرب المال“

یعنی  مضارب  نےجب مضاربت فاسدہ میں کام کیا اور نفع ہوا تو تمام نفع رب المال کا ہوگا۔(فتاوی قاضیخان،جلد3،صفحہ8،مطبوعہ بیروت)

مضاربت فاسدہ میں مضارب کو اجرتِ مثل ملتی ہے جبکہ مشروط سے زائد نہ ہو۔ جیسا کہ در مختار میں ہے:

”(فلا ربح) للمضارب (حينئذ بل له أجر) مثل (عمله)۔۔۔(بلا زيادة على المشروط)“

یعنی  (جب عقدِ مضاربت  اجارہ فاسدہ کی صورت اختیار کرلے تو )  مضارب  کے لئے  نفع نہیں ہوگا بلکہ اسے اجرت مثل دی جائے گی  جو طے شدہ نفع سے زیادہ نہ ہو۔(در مختار،جلد8،صفحہ498،مطبوعہ دار المعرفة، بيروت، ملتقطاً)

بہار شریعت میں ہے: ” مضاربت اگر فاسد ہوجاتی ہے تو اجارہ کی طرف منقلب ہوجاتی ہے یعنی اب مضارِب کو نفع جو مقرر ہوا ہے وہ نہیں ملے گا بلکہ اُجرتِ مِثل ملے گی ۔۔۔ مگر یہ ضرورہے کہ یہ اُجرت اُس سے زیادہ نہ ہو جو مضارَبت کی صورت میں نفع ملتا۔“(بہار شریعت،جلد3،صفحہ4،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:  IEC-653

تاریخ اجراء:07محرم الحرام 1447ھ / 03 جولائی 2025ء