
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے دوست نے مجھے اپنا ریڈی میڈ گارمنٹس کے کپڑوں کا اسٹاک اس شرط پر دیا کہ میں اسے مارکیٹنگ کرکے فروخت کر دوں، اور جو کچھ نفع حاصل ہو، وہ خرچہ نکالنے کے بعد ہم دونوں کے درمیان برابر (50/50 فیصد) تقسیم ہوگا ،میں نے اس کا مکمل اسٹاک فروخت کردیا ہے لیکن اب وہ مجھے 50 فیصد کی بجائے 30 فیصد نفع دینے کا کہہ رہا ہے تو کیا اس کا یہ عمل درست ہے؟ نیز نفع سے شرعاً میرا کتنا حصہ ہوگا ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شرکت کی وہ صورت کہ جس میں ایک فریق کا سرمایہ ہو اور دوسرے کی محنت ہو، مضاربت کہلاتی ہے، لیکن مضاربت درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اصل سرمایہ (Capital) نقد رقم ہو، مالِ تجارت (یعنی کپڑے یا سامان وغیرہ) نہ ہو۔ لہٰذا سوال میں مذکور طریقہ کار کے مطابق آپ کا اپنے دوست سے اس کے تیار شدہ کپڑوں کو فروخت کرکے منافع میں شریک ہونے کا معاہدہ مضاربتِ فاسدہ کی صورت ہے۔
مضاربت فاسد ہوجائے تو اجارے میں تبدیل ہوجاتی ہے، لہٰذا اس صورت میں حاصل شدہ کُل نفع آپ کے دوست ہی کا ہو گا کیونکہ مال اُسی کا تھا، آپ کا اُس نفع میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ البتہ آپ نے جو محنت کی ہے، اس کام کی جو اُجرتِ مثل بنتی ہے آپ اس کے حق دار ہوں گے بشرطیکہ وہ مضاربت سے حاصل ہونے والے نفع سے زیادہ نہ ہو، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ کے دوست پر اُجرتِ مثل دینا لازم ہے۔
مالِ مضاربت کا ثمن ہونا مضاربت کے صحیح ہونے کی شرط ہے۔جیسا کہ ہدایہ میں ہے:
”لا تصح الا بالمال الذی تصح بہ الشرکۃ“
یعنی : عقدمضاربت اسی مال کے ذریعہ صحیح ہوتا جس کے ذریعہ عقدِ شرکت صحیح ہوتا ہے ۔
اس کے تحت کفایہ میں ہے :
”وھو ان یکون راس المال دراھم او دنانیر ۔۔۔ وحاصلہ ان العروض لا تصلح لراس المال فی المضاربۃ عندنا“
یعنی: راس المال دراہم یا دنانیر ہوں اور اس کا حاصل یہ ہے کہ ہمارے نزدیک سامان عقدِ مضاربہ میں راس المال بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔(ھدایہ مع الکفایہ ، ج 06 ،ص 204 ، دار الکتب العلمیہ ،بیروت ،ملتقطا)
بہارِ شریعت میں ہے: ’’ راس المال ازقبیل ثمن ہو۔ عروض کے قسم سے ہوتو مضاربت صحیح نہیں۔‘‘(بہارِ شریعت ، ج 03 ،ص 01 ، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
جب مضاربت فاسد ہوجائے تو سارا نفع اصل مالک کا ہوگا اور کام کرنے والا اجرتِ مثل کا حق دار ہوگا ۔جیسا کہ علامہ ابنِ عابدین شامی علیہ الرحمہ العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں فرماتےہیں:
”أقول والحاصل أن هذه مضاربة فاسدة فتجب فيها الأجرة قال فی الولوالجية و ما لا يجوز فيه المضاربة يجب له فيه أجر المثل لأنه لم يعمل له مجاناً بل ينوي لعمله عوضاً وإذا لم يستحق المشروط كان له قيمة عمله والربح لرب المال وكذا لو لم يربح له أجر مثل عمله لأن المضاربة متى فسدت صارت إجارة والأجرة الفاسدة متى عمل يستحق أجر المثل حصل الربح من عمله أو لم يحصل الربح“
یعنی :میں کہتا ہوں، خلاصہ یہ ہے کہ یہ مضاربت فاسد ہے، لہٰذا اس میں اجرت واجب ہو گی۔ ولوالجیہ میں فرمایا کہ جن صورتوں میں مضاربت جائز نہ ہو، ان صورتوں میں کام کرنے والے کے لیے اجرتِ مثل واجب ہو گی، کیونکہ اس نے بغیر معاوضے کے کام نہیں کیا، بلکہ اس نے عوض پانے کے لئے کام کیا تھا۔اور جب طے شدہ (نفع کا) معاہدہ درست نہ ہو، تو کام کرنے والے کو اس کے عمل کی اجرتِ مثل ملے گی، اور سارا نفع مالکِ مال کا ہو گا۔ اسی طرح اگر کاروبار میں نفع نہ ہو تو بھی کام کرنے والے کو اس کی محنت کی اجرتِ مثل ملے گی، کیونکہ جب مضاربت فاسد ہو جائے تو وہ اجارہ بن جاتی ہے۔ اور جب اجارہ بھی فاسد ہو، لیکن کام کیا گیا ہو، تو ایسی صورت میں بھی اجرتِ مثل واجب ہوتی ہے ،چاہے اس کی محنت سے نفع حاصل ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔(العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ ، ج02 ،ص 66 ، دار المعرفہ ، بیروت)
اجرتِ مثل طے شدہ نفع سے زائد نہ ہو۔ جیسا کہ درمختار میں ہے:
” فلا ربح للمضارب حينئذ بل له أجر مثل عمله۔۔۔ بلا زيادة على المشروط“
یعنی: ( جب مضاربت فاسد ہوجائے) تو اب مضارب کے لئے نفع نہیں ہوگا بلکہ اسے اجرت مثل دی جائے گی جو طے شدہ نفع سے زیادہ نہ ہو۔(در مختار،جلد8،صفحہ498،مطبوعہ بیروت،ملتقطا)
بہار شریعت میں ہے: ” مضاربت اگر فاسد ہوجاتی ہے تو اجارہ کی طرف منقلب ہوجاتی ہے یعنی اب مضارِب کو نفع جو مقرر ہوا ہے وہ نہیں ملے گا بلکہ اُجرتِ مِثل ملے گی چاہے نفع اس کام میں ہوا ہو یا نہ ہومگر یہ ضرورہے کہ یہ اُجرت اُس سے زیادہ نہ ہو جو مضارَبت کی صورت میں نفع ملتا۔“(بہارِ شریعت ، ج 03 ،ص 04 ، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: IEC-673
تاریخ اجراء: 04صفرالمظفر1447ھ/30جولائی2025ء