غلطی سے ٹرانسفر شدہ رقم کی واپسی کس پر لازم ہے؟

اکاؤنٹ میں رقم آئی اور بینک نے کاٹ لی تو مالک کو کتنی رقم دینی ہو گی؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے  کےبارےمیں کہ زیدنےبکر کو دس ہزار روپےقرض واپس کرنا تھااور یہ رقم بکرکے بینک اکاؤنٹ میں آن لائن ٹرانسفر کرنی تھی لیکن زید سے غلطی یہ ہوئی کہ اس نے رقم کسی دوسرے شخص ، عمرو کے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دی۔ جب زید نےعمرو سے رابطہ کیا اور کہا کہ یہ رقم غلطی سے آپ کے اکاؤنٹ میں چلی گئی ہےتو  عمرو نے جواب دیا کہ میرے اکاؤنٹ میں 10,000 روپے آئے ہیں،لیکن میرا اکاؤنٹ کافی عرصے سےایکٹو نہیں تھا،اس وجہ سے بینک نے آٹومیٹک سسٹم کے تحت اے ٹی ایم (ATM)کارڈ فیس کی مد میں 8000 روپے کاٹ لیے ہیں جو مجھ پر واجب الادا تھے،اب میرے پاس صرف 2000 روپے بچے ہیں جو میں آپ کو واپس دے سکتا ہوں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا بکراپنی 10,000 روپے کی رقم زید سے وصول کرے گایاعمرو سے؟پھر زید،عمرو سے کتنی رقم کا مطالبہ کرے گا10،000 روپے یا 2000 روپے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں بکر کا اصل حق زید پر تھانہ کہ عمرو پر لہٰذابکر اپنے قرض کی رقم زید سے ہی وصول کرے گا،ہاں زید نےجو رقم غلطی سے عمرو کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دی تھی،عمرو پر لازم ہے کہ وہ مکمل  رقم یعنی دس ہزار روپے زید کو واپس کرے۔

بینک نے عمرو کے اکاؤنٹ میں جو معاملہ کیا ، وہ عمرو اور اس کے بینک کا معاملہ ہے ، زید کی رقم کا حق اس سے ختم نہیں ہو جاتا ۔ جو رقم زید نے غلطی سے عمرو کے اکاؤنٹ میں بھیجی  ، زید کو وہ پوری رقم لوٹانا عمرو پر لازم  ہے، اس مال کو روکنا  غصب ہوگا۔

بغیر قصد و ارادے کے جو چیز قبضے میں آ جائے وہ امانت ہوتی ہے،جیسا کہ جوہرہ نیرہ میں ہے:

’’الامانۃ ھی الشیء الذی وقع فی یدہ من غیر قصد بان القت الریح ثوبا فی حجرہ ۔۔۔و فی الامانۃ لا یبرا الا بالاداء الی صاحبھا‘‘

یعنی:جو چیز بغیر کسی ارادے کے قبضے میں آجائے وہ امانت کہلاتی ہے مثلاً  ہوا کسی کپڑے کو اُڑا کر کسی شخص کی گود میں ڈال دے (تو وہ کپڑا اس شخص کے پاس بطور امانت ہوگا)۔۔۔اور امانت میں مالک کو سامان لوٹائے بغیر براءت نہیں ہوتی۔(ملتقطاً،جوھرہ نیرہ،جلد2،صفحہ346،مطبعۃ الخیریۃ)

غصب کا حکم بیان کرتے ہوئے  علاوہ علاؤ الدین حصکفی علیہ الرحمہ درمختار میں فرماتے ہیں:

”و حکمہ الاثم لمن علم انہ مال الغیر و رد العین قائمۃ والغرم ھالکۃ و لغیر من علم الاخیران فلا اثم لانہ خطا“

یعنی: غصب کا حکم یہ ہے کہ  غاصب گناہ گار ہوگا جبکہ  معلوم ہو کہ غیر کا مال ہےاور چیز موجود ہو تو واپس کرے گا اور ہلاک ہو چکی ہو تو تاوان دے گااور جسے  معلوم نہ ہو اس کے لیے آخری دو حکم ہیں ، یہ شخص  گناہ گار نہیں ہوگا کیونکہ اس سے خطاءً ایسا ہوا ہے۔(در مختار،جلد6،صفحہ180،مطبوعہ دارالفکر)

بہار شریعت میں ہے: ”غصب کا حکم یہ ہے کہ اگر معلوم ہو کہ دوسرے کا مال ہے تو غاصب گنہگار ہے اور چیز موجود ہو تو مالک کو واپس کر دے موجود نہ ہو تو تاوان دے اور معلوم نہ ہو کہ پرایا مال ہے تو اس کا حکم واپس کرنا یا چیز موجود نہ ہو تو تاوان دینا ہے اور اس صورت میں  گنہگار نہیں ہوا۔“(بہار شریعت،جلد3،صفحہ210،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:  IEC-648

تاریخ اجراء:12ذوالقعدۃ الحرام1446ھ/10مئی2025ء