مال کا آرڈر دینے پر مینیجر کو کمیشن دینا

مال بیچنے کے لیے کمیشن دینا یا ریٹ کم کرنا کیسا؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص کا ربڑ تیار کرنے کا کارخانہ ہے، جس میں وہ مال تیار کر کے کمپنیوں کو فراہم کرتا ہے۔ انہی  کمپنیوں میں سے ایک کمپنی کا مینیجر غیر مسلم ہے جو کہ کمپنی کا ملازم ہےاور کمپنی ہی کی طرف سے مال خریدتا ہے۔   پہلے یہ مینیجر ربڑ کے کارخانے والے کو زیادہ مال کے آرڈر دیا کرتا تھا، لیکن اب وہ زیادہ تر آرڈر غیر مسلم کارخانے والوں کو دیتا ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ  جو مال کارخانے میں تیار ہوتا ہے وہ زیادہ دیر تک رکھا نہیں جا سکتا، آرڈر کی کمی کی وجہ سے کچھ مشکلات کا سامنا ہے۔ اب اگر  کارخانے والا زیادہ آرڈر وصول کرنے کے لیے  مینیجر کو کچھ کمیشن دے دے تو کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہوگا؟

مزید یہ بھی رہنمائی فرمادیں کہ کمیشن دینے کے بجائے اگر کارخانے والا، کمپنی کو مال پرکچھ اضافی ڈسکاؤنٹ دے یعنی سستا بیچے تاکہ کمپنی اُسی سے مال خریدے ،تو کیا یہ ڈسکاؤنٹ دینا شرعاً جائز ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں کارخانے والے کا زیادہ آرڈر وصول کرنے کے لیے کمپنی کے مینیجر کو کمیشن دینا رشوت ہے کہ یہاں کمیشن دینے کا مقصد ہی یہ ہے کہ کارخانے والے کا مال نکلتا رہے اور اُس کا کام بنا رہے۔  فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق اپنا کام نکلوانے کے لیے دوسرے کو جو کچھ دیا جائے وہ رشوت ہے، اور رشوت کا لین دین سخت   ناجائز و حرام، گناہ کبیرہ ہے،  اس کی سخت وعیدات کتب احادیث میں  بیان کی گئی ہیں، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں کارخانے والے کا آرڈر کی وصولی کے لیے رشوت دینا ناجائز و حرام ہے، اس سے بچنا لازم و ضروری ہے۔

ہاں! کارخانے والے کا زیادہ آرڈر کی وصولی کے لیے کمپنی کو سستا  مال دینا  ایک جائز معاملہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی چیز کمی یا زیادتی کے ساتھ بیچنے کا اختیار ہے، تھوڑا نفع لے یا زیادہ،  شرعاً اس میں کوئی ممانعت نہیں۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ اس کے لیے جھوٹ یا دھوکہ دہی کا ہرگز ارتکاب نہ کرے کہ یہ امور سخت ناجائز و حرام ہیں۔

رشوت دینے اور لینے کی مذمت پر جامع ترمذی میں ہے:

”لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم الراشی والمرتشی“

یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے رشوت دینے اور لینے والے پر لعنت فرمائی۔(جامع الترمذی،جلد 3، صفحہ 614،مطبوعہ مصر)

ایک اور حدیث پاک میں ہے:

’’الراشی والمرتشی فی النار‘‘

یعنی : رشوت دینے اور لینے والا آگ میں ہیں۔(کنزا العمال، جلد06، صفحہ113، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ)

مراٰۃ المناجیح میں ہے:’’ رشوت یا مال ہو یا کچھ اور چیز کہ رشوت دینا بھی حرام ہے اور لینا بھی حرام۔‘‘(مرآۃ المناجیح، جلد05، صفحہ300، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ)

اپنا کام نکلوانے کے لیے کچھ دینا رشوت ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ رشوت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”الرشوۃ بالکسر: ما یعطیہ الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم لہ او یحملہ علی ما یرید “

یعنی : رشوت زیر کے ساتھ اس چیز کا نام ہے ، جو آدمی حاکم یا اس کے غیر کو دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کردے یا وہ چیز اسے اس کام پر اُبھارے ، جو رشوت دینے والا چاہتا ہے۔ (رد المحتار،ج8،ص42،مطبوعہ کوئٹہ)

بحرالرائق میں ہے:

” أن الرشوة ما يعطيه بشرط أن يعينه “

یعنی : رشوت وہ مال ہے، جو اس شرط کے ساتھ دیا جائے کہ رشوت لینے والا رشوت دینے والے کی کسی معاملے میں مدد کرے گا ۔(بحر الرائق، جلد 6، صفحہ 285، مطبوعہ بیروت)

فتاوٰی رضویہ میں ہے : ” رشوت لینا مطلقاً حرام ہے کسی حالت میں جائزنہیں ، جو پرایا حق دبانے کے لئے دیاجائے رشوت ہے یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیاجائے رشوت ہے۔(فتاوی رضویہ ،جلد23،صفحہ597،رضافاونڈیشن،لاہور)

دوسرے مقام پر امام اہل سنت سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:’’بیع تو اس میں(سودا بیچنے والے)اور خریداروں میں ہوگی، یہ (اسٹیشن پر سودا بیچنے کا ٹھیکہ لینے والا) ریل والوں کو روپیہ صرف اس بات کا دیتاہے کہ میں ہی بیچوں،دوسرا نہ بیچنے پائے، یہ شرعاً خالص رشوت ہے۔“(فتاویٰ رضویہ،ج 19،ص559،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

ہر شخص کو اپنی چیز کم یا زیادہ پر بیچنے کا اختیار ہے جیسا کہ فتاوی امجدیہ میں ہے: ”بیع میں ثمن کو معین کرنا ضروری ہے، درِ مختار میں ہے:

”وشرط لصحته معرفة قدر مبيع وثمن“

اور جب ثمن معین کردیا جائےتو بیع چاہے نقد ہو یا ادھار، سب جائز ہے۔۔۔۔ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کم یا زیادہ، جس قیمت پر مناسب جانے بیع کرے،تھوڑا نفع لے زیادہ، شرع سے اس کی ممانعت نہیں۔(فتاوٰی  امجدیہ، ج03، ص 181، مکتبہ رضویہ، کراچی، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:  IEC-650

تاریخ اجراء:12محرم الحرام 1447ھ / 08 جولائی 2025ء