کیا کرائے کے ساتھ اضافی چیز لینا درست ہے؟

کرائے میں رقم اور مزید کوئی چیز لینے کا حکم

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں اپنی دکان ایک نانبائی ( روٹی بنانے والے) کو کرائے پر دے رہا ہوں اس طور پر کہ اس کا جو  کرایہ لوں گا وہ دو حصوں پر مشتمل ہو گا:

(1) ماہانہ بیس ہزار روپے نقد 

(2) روزانہ متعین قسم کی چھ روٹیاں۔

کیا  اس طرح کرایہ اور اجرت مقرر کرنا شرعی اعتبار سے درست ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جی ہاں!  پوچھے گئے طریقہ کار کے مطابق اجرت مقرر کرنا درست ہے کیونکہ اجرت کا معلوم اور متعین ہونا ضروری ہےاور چونکہ فریقین نے باہمی رضامندی سے اس دکان کی  اجرت کو دو حصوں میں مقرر کیا ہے، ایک حصہ ماہانہ بیس ہزار روپے نقداور دوسرا  روزانہ متعین قسم کی چھ روٹیاں ، اور اس طرح اجرت مقرر  کرنا بھی  اجرت کے معلوم اور متعین ہونے کی ہی ایک صورت ہے لہٰذا یہ طریقہ درست ہے۔

عقدِ اجارہ میں روٹیوں کو اجرت کے طور پر مقررکیا جا سکتا ہے کیونکہ روٹی  عددی متقارب اشیاء (یعنی ایسی عددی اشیاء   جن   کے افراد میں زیادہ فرق نہ ہو) میں سے ہے اور عددی متقارب اشیاء کو بطور اجرت مقرر کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ  ان کی صفت اور مقدار متعین ہو،اور چونکہ یہاں ان روٹیوں کی مقدار اور  صفت متعین ہے کہ روزانہ متعین قسم کی چھ روٹیاں طے ہوئی ہیں، لہٰذا انہیں اجرت مقرر کرنا ، درست ہے۔

عقدِ اجارہ میں پیسوں کے ساتھ  کسی چیز کو بھی اجرت مقرر کیا جاسکتا ہے، چنانچہ گندم پسوانے کی اجرت میں دراہم اور گندم کا آٹا، دونوں  مقرر کرنے کی جوازی صورت بیان کرتے ہوئے المبسوط للسرخسی میں ہے:

”واذا اسلم الرجل حنطة الى طحان ليطحنها ۔۔۔ان شرط مع الدرهم ربع قفيز دقيق جيد ولم يقل منها كان جائزا، لان الدقيق مكيل معلوم يصلح ان يكون ثمنا في البيع فيصلح ان يكون اجرة ايضا“

 یعنی: جب کسی شخص نے چکی والے کو گندم دی تاکہ اسے پِیس دے ، اور اس شخص نے (اِس پسوائی کی اجرت میں)درہم کے ساتھ ایک چوتھائی قفیز عمدہ آٹا دینے کی شرط رکھی، تواگر اس گندم میں سے دینے کا نہ کہا ہو  تو یہ صورت جائز ہے  کیونکہ آٹا ایک ماپی جانے والی معلوم چیز ہے، جو بیع میں ثمن بن سکتی ہے، لہٰذا وہ اجرت بھی بن سکتی ہے۔(مبسوط للسرخسی ،جلد 15، صفحہ 89، دار المعرفۃ بیروت، ملتقطا)

مذکورہ صورت کے حوالے سے رد المحتار میں ہے:

”قال الرملی و بہ علم بالاولی جواز ما یفعل فی دیارنا من اخذ الاجرۃ من الحنطۃ و الدراھم معا ، ولا شک فی جوازہ“

یعنی:امام رملی رحمہ اللہ نے فرمایا: اسی سے  بطریق  اولیٰ اس فعل کے جواز کا علم ہوتاہے جو ہمارے علاقوں میں کیاجاتاہے کہ اُجرت گندم اور دراہم  دونوں سے لی جاتی ہے ، اور اس کے جواز میں کوئی شک نہیں ۔ (رد المحتار مع در مختار، جلد 9، صفحہ 97، دار المعرفۃ بیروت)

اجارے میں اجرت کا معلوم ہونا ضروری ہے، چنانچہ درمختار میں ہے:

’’شرطھا :کون الأجرۃ، والمنفعۃ معلومتین؛ لأن جھالتھما  تفضی  إلی المنازعۃ‘‘

یعنی:اجارے کی شرط ہے کہ اجرت اور منفعت دونوں معلوم ہوں، کیونکہ ان  کی  جہالت جھگڑے کی طرف لے جاتی ہے۔  ( الدرالمختار مع رد المحتار، جلد9،صفحہ9، دار المعرفۃ بیروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی اجارے کی شرائط بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ اجرت کا معلوم ہونا۔منفعت کا معلوم ہونا،اور ان دونوں کو اس طرح بیان کردیا ہو کہ نزاع کا احتمال نہ رہے۔“(بہارشریعت ،جلد3، صفحہ108،مکتبۃ المدینہ کراچی)

جو چیز ثمن بن سکتی ہے وہ اجرت بھی بن سکتی ہے چنانچہ  در مختار میں ہے:

’’(کل ما صلح ثمنا) ای بدلا فی البیع (صلح اجرۃ ) لانھا ثمن المنفعۃ‘‘

یعنی: ہر وہ چیز جو ثمن یعنی بیع میں بدل بننے کی صلاحیت رکھتی ہے وہ اجرت بھی بن سکتی ہے کیونکہ اجرت منفعت کا ثمن ہے۔(ردالمحتارعلی الدرالمختار، جلد9،صفحہ7، دار المعرفۃ بیروت)

مکیلی ، موزونی اور عددی متقارب اشیاء بھی اجرت بن سکتی ہیں بشرطیکہ ان کی قدر و صفت معلوم ہو۔ چنانچہ مجمع الانہر میں ہے:

’’(وما صلح ثمنا) في البيع (صلح أجرة) في الإجارة لأن الأجرة بثمن المنفعة فيعتبر بثمن المبيع ومراده من الثمن ما كان بدلا عن شيء ۔۔۔ وفيه إشارة ۔۔إلى أنها لو كانت كيليا أو وزنيا أو عدديا متقاربا فالشرط فيه بيان القدر والصفة ‘‘

یعنی: جو چیز بیع میں  ثمن بن سکتی ہے وہ اجارے میں  اجرت بھی بن سکتی ہے کیونکہ اجرت منفعت کا ثمن  ہوتی ہے تو اس میں مبیع کے ثمن کا اعتبار ہوگا، اور ثمن سے مراد یہ ہے کہ جو کسی چیز کا بدل ہو اور اس میں اشارہ ہے کہ اگر اجرت کسی مکیلی یا موزنی یا عددی متقارب   چیز کو بنایا جائے تو اس  میں شرط ہے کہ اس چیز کی مقدار اور صفت کو بیان کر دیا جائے۔(مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر،جلد2، صفحہ 369، دار احیاء التراث العربی،ملتقطا)

الاختيار لتعليل المختارمیں ہے:

’’قال: (وما صلح ثمنا صلح اجرة) لانها ثمن ايضا، فالمكيل والموزون والمزروع والمعدود المتقارب يصلح اجرة على الوجه الذي يصلح ثمنا‘‘

یعنی:جو چیز ثمن بن سکتی ہے وہ اجرت بھی بن سکتی ہے کیونکہ وہ بھی ثمن ہی ہے۔ تو مکیلی، موزونی،مذروعی،معدودی اور باہم قریب قریب  چیزیں اس طور پر  اجرت بن سکتی ہیں جس طور پر وہ  ثمن بن سکتی ہیں۔(الاختيار لتعليل المختار، جلد2،صفحہ 51، دار الکتب العلمیہ بیروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی:’’ جو چیز بیع کا ثمن ہو سکتی ہے وہ اجرت بھی ہو سکتی ہے۔‘‘(بہارشریعت ،جلد3، صفحہ108،مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:  IEC-671

تاریخ اجراء: 04صفرالمظفر1447ھ/30جولائی2025ء