اسکول والوں کا دکاندار سے کمیشن لینا کیسا؟

کتابیں رکھوانے پر اسکول والوں کا دوکاندار سے کمیشن لینا کیسا؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں ایک تاجر ہوں اور اسکولوں کی نصابی کتابیں اور اسٹیشنری وغیرہ فروخت کرتا ہوں۔ اس مقصد کے لیے میں مختلف اسکولوں سے رابطہ کرتا ہوں تاکہ وہ اپنے طلباء کو ہمارے پاس بھیجیں اور ہم سے نصابی کتب خریدیں۔ لیکن اسکول انتظامیہ کی طرف سے یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ اگر وہ اپنے طلباء ہماری دکان پر بھیجیں گے تو ہم ہر طالب علم کی خریداری پر حاصل ہونے والے منافع (Profit) کا 50 فیصد اسکول کو بطور کمیشن ادا کریں ۔

اب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا اسکول انتظامیہ  کا اس طرح ہم سے کمیشن کا تقاضا کرنا شرعاً جائز ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

یہ بات واضح رہے کہ کمیشن ایجنٹ تب ہی کمیشن کا مستحق ہوتا ہے جب وہ واقعی دو پارٹیوں کو ملوانے میں محنت، کوشش، وقت، دوڑ دھوپ یا عملی معاونت کرکے سودا مکمل کروا دے۔ محض بات چیت، زبانی ترغیب یا رہنمائی کی بنیاد پر کمیشن طلب کرنا جائز نہیں۔

پوچھی گئی صورت میں اسکول انتظامیہ کا صرف اپنے طلباء کو کسی مخصوص دکان کا مشورہ دینا یا ان کی رہنمائی کرنا ایسا عمل نہیں جو کمیشن کا مستحق بنائے ، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں طلباء کو محض دکان کی طرف بھیجنے کی بنیاد پر اسکول انتظامیہ کا منافع (Profit) کا 50 فیصد  بطورِ کمیشن لینے کا تقاضا شرعاً ناجائز اور رشوت ہے۔

یہاں ضمناً یہ مسئلہ بھی ذہن نشین رہے کہ جس صورت میں کمیشن جائز ہو وہاں بھی بروکر عرف میں رائج کمیشن ہی کا حقدار ہوتا ہے۔

کمیشن ایجنٹ  محض مشورہ دینے یا بات چیت کے ذریعہ رہنمائی  کرنے سے کمیشن کا مستحق نہیں ہوتا۔

جیسا کہ خزانۃ الاکمل میں ہے:

’’ اما لو دلہ بالکلام فلا شئ لہ‘‘

 یعنی اگر کسی نے صرف بول کر بروکری کی تو اس کے لئے کچھ اجرت نہیں ۔(خزانۃ الاکمل فی فروع الفقہ الحنفی ،ج03 ، ص 124 ، دار الکتب العلمیہ،بیروت)

جامع المضمرات،الذخیرۃ البرہانیہ وغیرہ کتبِ فقہ  میں ہے،

واللفظ للاول: ’’رجل اضل شیئا ،فقال من دلنی علیہ فلہ درھم، فدلہ انسان ،فلاشیء لہ ،لان المستاجر لیس بمعلوم ،لان الدلالۃ، والاشارۃ لیست بعمل یستحق الاجر‘‘

یعنی کسی کی کوئی چیز کھو گئی تو اس نے کہا کہ  جو شخص اس پر  میری  رہنمائی کردے تو اس کے لئے ایک درہم ہے ،پھر ایک شخص  نےاس کی رہنمائی کی تو اس کے لئے کچھ نہیں کیونکہ جس  کو اجیر بنایا گیا وہ متعین نہیں  اور رہنمائی کرنا اوراشارہ کرناایساعمل بھی  نہیں جس کی وجہ سے اجرت کااستحقاق ثابت ہو۔ (جامع المضمرات ، ج 03 ،ص126 ، دار الکتب العلمیہ بیروت)

امامِ اہل سنت امام احمد رضاخان علیہ الرحمہ کمیشن ایجنٹ کے مستحقِ اجرت ہونے کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں : ’’ اگر کارندہ نے اس بارہ میں جو محنت وکوشش کی وہ اپنے آقا کی طرف سے تھی،  بائع کے لئے کوئی دوادوش نہ کی، اگرچہ بعض زبانی باتیں اس کی طرف سے بھی کی ہوں، مثلاً آقا کو مشورہ دیا کہ یہ چیز اچھی ہے خرید لینی چاہئے یا اس میں آپ کا نقصان نہیں اور مجھے اتنے روپے مل جائیں گے، اس نے خرید لی جب تو یہ شخص عمرو بائع سے کسی اُجرت کا مستحق نہیں کہ اجرت آنے جانے محنت کرنے کی ہوتی ہے نہ بیٹھے بیٹھے، دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے مشورہ دینے کی۔(فتاوی رضویہ،ج19،ص452، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:  IEC-667

تاریخ اجراء:06ذوالحجۃالحرام1446ھ/3جون2025ء