
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص کے ذمہ بہت سی قضا نمازیں ہیں اور نمازیں زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کو یہ یاد نہیں کہ کس کس دن کی نمازیں قضا ہوئی ہیں، اب قضا نمازوں کا حساب کرنے کے بعد وہ ان کی ادائیگی کرنا چاہتا ہے، تو پوچھنا یہ تھا کہ ان نمازوں کی ادائیگی میں نیت کس طرح کی جائے گی کہ میں کس دن کی نماز ادا کر رہا ہوں، کیونکہ اسے تو یہ یاد ہی نہیں؟ نیز شریعت مطہرہ کی طرف سے ان نمازوں کو ادا کرنےکے طریقے میں کوئی تخفیف بھی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اولاً یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہر عاقل، بالغ، مسلمان پر نماز پنجگانہ وقت پر ادا کرنا فرض اور بلا عذرِ شرعی ایک نماز کا ترک بھی ناجائز و حرام اورسخت گناہ ہے، ایسا کرنے والے پر توبہ کرنے کے ساتھ قضا نماز کو جلد از جلد ادا کرنا بھی ضروری ہے۔
اور جہاں تک سوال کا تعلق ہے، تو یاد رہے کہ اگر کسی کے ذمہ بہت زیادہ قضا نمازیں ہوں اور اسے یہ یاد نہ ہو کہ کس کس دن کی نمازیں قضا ہوئی ہیں، تو آسانی کے پیش نظر اس کے لئے ہر نماز کی ادائیگی کے وقت یوں نیت کرلینا کافی ہے کہ میں سب سے پہلی یا سب سے آخری فلاں نماز، مثلاً نمازِ فجر جس کی قضا مجھ پر لازم ہے، اس کو ادا کرتا ہوں، اسی طرح دیگر نمازوں میں بھی یونہی نیت کرتا رہے، کیونکہ اس طرح نیت میں نماز کےنام سےنماز متعین ہوگئی اور پہلی یا آخری سے دن بھی متعین ہوگیا اور قضا نمازوں کی ادائیگی میں انہی دو چیزوں کی تعیین ضروری ہے۔
نیز جس پر قضا نمازیں ہوں، وہ فرض و واجب نمازیں تمام سنتوں اور آداب کی رعایت کے ساتھ ادا کرے کہ اول تو نمازیں قضا کی ہیں تو توبہ کے ساتھ انہیں زیادہ عاجزی و خشوع کے ساتھ ادا کرے کہ قضا کے جرم کی معافی میں معاون ہو، نہ یہ کہ ان میں بھی سہولتیں تلاش کرے۔ ہاں یہ ہے کہ نمازیں ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور وقت میں فرصت نہیں تو اب شریعت نے قضا نمازوں کی ادائیگی میں چند طرح کی تخفیفات بھی دی ہیں، مثلاً: (۱) فرضوں کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورۃ فاتحہ کی بجائے فقط تین مرتبہ سبحان اللہ کہہ کر رکوع کرلے۔ (۲) رکوع اور سجدہ میں تین بار تسبیحات پڑھنے کی بجائے ایک مرتبہ تسبیح پڑھ لے۔ (۳) قعدہ اخیرہ میں مکمل درود پاک اور دعائیں پڑھنے کی بجائے فقط’’اللھم صل علی محمد و علیٰ آلِ محمد‘‘تک پڑھ کر سلام پھیر دے۔ (۴) وتر ادا کرتے ہوئے تیسری رکعت میں دعائے قنوت کی جگہ ایک یا تین مرتبہ رب اغفرلی کہہ کر رکوع کر لے۔
بلاعذر شرعی جان بوجھ کر نماز چھوڑنے کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
﴿فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْن﴾
ترجمہ کنز العرفان: تو ان نمازیوں کے لئے خرابی ہےجو اپنی نماز سے غافل ہیں۔ (پارہ 30، سورۃ الماعون، آیت 4 تا 5)
فرض و واجب نمازوں کی ادائیگی میں تعیین ضروری ہے، اس بارے میں تنویر الابصار میں ہے:
و لا بد من التعیین عند النیۃ لفرض و لو قضاء و واجب
ترجمہ: فرض اور واجب نماز کی نیت کے وقت نماز کی تعیین ضروری ہے اگرچہ وہ قضاء نماز ہو۔ (تنویر الابصار، کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، جلد 2، صفحہ 96، مطبوعہ بیروت)
قضا نمازوں کی نیت کے طریقہ کار کے متعلق حاشیہ طحطاوی علی در المختار، درر الحکام، فتاوی تتارخانیہ اور رد المحتار میں ہے،
و اللفظ لدرالحکام ”(اذا کثرت الفوائت فاشتغل بالقضاء) یحتاج الی تعیین الظھر و العصر و نحوھما۔۔۔ (نوی اول ظھر علیہ او اخر) ای اخر ظھر علیہ فاذا نوی الاول وصلی فما یلیہ یصیر اولا و کذا لو نوی اخر ظھر علیہ و صلی فما قبلہ یصیر اخرا فیحصل التعیین“
ترجمہ: جب کسی کی فوت شدہ نمازیں زیادہ ہوں اور وہ ان کی ادائیگی میں مشغول ہوجائے تو اسے ظہر و عصر وغیرہ نمازوں کو معین کرنے کی حاجت ہو گی۔ تو وہ اپنی سب سے پہلی یا سب سے آخری ظہر جو اس پر لازم ہے اس کو ادا کرنے کی نیت کرے، پس جب پہلی نماز کی نیت کے ساتھ اس کو ادا کرلیا تو اس سے متصل نماز پہلی ہوجائے گی، اسی طرح جب سب سے آخری ظہر کی نیت کرکے اس کو ادا کرلیا تو اس سے پہلی نماز سب سے آخری ہوجائے گی اور یوں تعیین بھی حاصل ہوجائے گی۔ (دررالحکام فی شرح غرر الاحکام، کتاب الصلاۃ، باب قضا الفوائت، جلد 1، صفحہ 359، مطبوعہ اولو الالباب)
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”اصح مذہب پر اتنا لحاظ ضرور ہے کہ نماز نیت میں معین مشخص ہو جائے
ھو الاحوط من تصحیحین
دونوں تصحیحوں میں احوط یہ ہے (مثلاً: دس (۱۰) فجریں قضا ہیں، تو یوں گول نیت نہ کرے کہ فجر کی نماز کہ اس پر ایک فجر تو نہیں جو اسی قدر بس ہو ،بلکہ تعیین کرے کہ فلاں تاریخ کی فجر، مگر یہ کیسے یاد رہتا ہے اور ہو بھی تو اس کا خیال حرج سے خالی نہیں، لہٰذا اس کی سہل تدبیر یہ نیت ہے کہ پہلی فجر جس کی قضا مجھ پر ہے، جب ایک پڑھ چکے پھر یوں ہی پہلی فجر کی نیت کرے کہ ایک تو پڑھ لی، اس کی قضا اس پر نہ رہی نو (۹) کی ہے، اب ان میں کی پہلی نیت میں آئے گی، یونہی اخیر تک نیت کی جائے، اسی طرح باقی سب نمازوں میں کہے اور جس سے ترتیب ساقط ہو، جیسے یہی دس یا چھ فجر کی قضا والا پہلی کی جگہ پچھلی بھی کہہ سکتا ہے نیچے سے اوپر کو ادا ہوتی چلی جائے گی۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 142، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
مزید ایک مقام پر فرماتے ہیں: ”قضا میں یوں نیت کرنی ضرور ہے کہ نیت کی میں نے پہلی فجر جو مجھ سے قضا ہوئی یا پہلی ظہر جو مجھ سے قضا ہوئی، اسی طرح ہمیشہ ہر نماز میں کیا کرے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 157، 158 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور)
قضا نمازوں کی تخفیفات کے متعلق امام اہلسنت مجدد اعظم امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”جس پر قضا نمازیں بہت کثرت سے ہیں وہ آسانی کے لئے اگریوں بھی ادا کرے تو جائز ہے کہ ہر رکوع اور ہر سجدہ میں تین تین بار
سبحان ربی العظیم، سبحان ربی الاعلی
کی جگہ صرف ایك بار کہے۔۔۔ دوسری تخفیف یہ کہ فرضوں کی تیسر ی اور چوتھی رکعت میں الحمد شریف کی جگہ
سبحان ﷲ، سبحان ﷲ، سبحان ﷲ
تین بار کہہ کر رکوع میں چلے جائیں۔۔ تیسری تخفیف پچھلی التحیات کے بعد دونوں درودوں اور دعا کی جگہ صرف
اللھم صلی علی محمد و آلہ
کہہ کر سلام پھیردیں چوتھی تخفیف وتروں کی تیسری رکعت میں دعائے قنوت کی جگہ
ﷲ اکبر
کہہ کر فقط ایك یا تین بار
رب اغفر لی کہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 157، 158 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: GUJ-0003
تاریخ اجراء: 12 محرم الحرام 1447ھ / 08 جولائی 2025ء