Gold Ke Badle Gold Ki Kharidari Ki Lazmi Ehtiyatain

 

سونے کے بدلے سونے کی خریداری  کی لازمی احتیاطیں

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:IEC-0160

تاریخ اجراء:03 شعبان المعظم 1445ھ/14فروری 2024ء

مرکزالاقتصادالاسلامی

Islamic Economics Centre (DaruliftaAhlesunnat)

(دعوت اسلامی-دارالافتاءاہلسنت)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم سونے کی چوڑیاں بناتے ہیں،جن میں فقط سونا ہی ہوتا ہے یعنی نگ موتی وغیرہ نہیں ہوتے اور دوکانداروں کو بیچتے ہیں۔  اس میں ہمارا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ہم جب سونے کی چوڑیاں بیچتے ہیں تو اس کے بدلے سونا ہی لیتے ہیں ۔ مثال کے طور پراگر دس تولے کی سونے کی چوڑیاں ہم نے دوکاندار کو بیچیں تو اس کے بدلے میں اس کے ہم وزن دس تولہ خالص یعنی 24 کیرٹ کا سونا ہی لیتے ہیں ، اس کے ساتھ مزید کوئی رقم وغیرہ نہیں لیتے لیکن دوکاندار اس دس تولہ سونے میں سے  ایک تولہ سونا نقد دیتا ہے اور  بقیہ سونا ادھار کر لیتا ہے ۔ اس طرح عقد کرنا ، جائز ہے یا نہیں؟ہمیں اس میں فائدہ یوں ملتاہے کہ دوکاندارہم سے جو چوڑیاں خریدتا ہے وہ چوبیس کیرٹ(Karat)کی نہیں ہوتیں  بلکہ بائیس کیرٹ یا اس سے کم کیرٹ کی ہوتیں  ہیں۔ لیکن ان کے بدلے جو سونا ہم لیتے ہیں وہ چوبیس کیرٹ کا ہوتا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت سود پر مشتمل ہے،سونا اگرچہ ایک طرف سے کم کوالٹی کا اور دوسری طرف زیادہ کوالٹی کا ہو ، وہ ایک ہی جنس کہلاتا ہے۔ قوانین شریعت کی رو سے خرید و فروخت میں جب دونوں طرف فقط سونا ہو اور ساتھ میں کوئی دوسری چیز مثلا رقم، نگ، موتی وغیرہ نہ ہو تو تین شرائط کا خیال رکھنا ضروری ہے، اگر ایک شرط بھی کم ہوگی تو خالص سودی معاملہ قرار پائے گا اور ایسی خرید و فروخت ناجائز و حرام ہوگی۔وہ تین شرائط درج ذیل ہیں:

1.  پہلی شرط یہ ہے کہ دونوں طرف وزن برابر ہو یعنی ایک طرف دس تولہ سونا ہے تو دوسری طرف بھی دس تولہ سونا ہو۔

2.  دوسری شرط یہ ہے کہ اس سودے میں کسی بھی قسم کا ادھار نہ کیا جائے۔

3.  تیسری شرط یہ ہے کہ مجلس بیع میں ہی تقابض بدلین ہو یعنی دونوں طرف سے مکمل سامان اسی مجلس میں ایک دوسرے کو اس طرح سپرد کیا جائے کہ دونوں فریق بالفعل قبضہ کرلیں،محض تخلیہ کرنا کافی نہ ہوگا۔

   پوچھی گئی صورت میں نو تولہ سونے کی ادائیگی اسی مجلس میں نہیں کی جاتی بلکہ بعد میں کی جاتی ہے لہٰذا مذکورہ شرائط میں سے دوسری اور تیسری شرط نہ پائے جانے کے باعث یہ معاملہ خالص سودی معاملہ قرار پائے گا اور ایسی خرید و فروخت ناجائز و حرام ہوگی۔

   صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو سعید  خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا منها غائبا بناجز‘‘یعنی:سونے کو سونے کے بدلے نہ بیچو مگر برابر برابر، ان میں ایک کو دوسرے پر زیادہ نہ کرو۔چاندی کو چاندی کے بدلے نہ بیچو مگر برابر برابر ، ان میں ایک کو دوسرے پر زیادہ نہ کرو اور ان دونوں میں سے کسی غائب چیز کو حاضر کے بدلے نہ بیچو۔(صحيح البخارى،جلد 3، صفحہ74،مطبوعه دار طوق النجاۃ)

   سونے چاندی کی خرید و فروخت کی بنیادی شرائط کے متعلق درمختار میں ہے:’’(ويشترط) عدم التاجيل...و(التماثل) اى التساوى وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية(قبل الافتراق ۔۔۔ان اتحدا جنسا)‘‘یعنی:اتحاد جنس کے وقت یعنی جب سونے کی سونے یا چاندی کی چاندی کے بدلے خرید و فروخت ہو تو اس میں یہ شرط ہے کہ سودا ادھار نہ ہو،۔۔۔ دونوں طرف وزن بالکل برابر برابر ہو اور عاقدین کے جدا ہونے سے پہلے پہلے دونوں طرف سے انگلی کے پوروں سے قبضہ کیا جائے نہ کہ تخلیہ کے ذریعے۔

   لا بالتخلیۃ کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’اشار الى ان التقييد بالبراجم للاحتراز عن التخلية، واشتراط القبض بالفعل لا خصوص البراجم، حتى لو وضعه له فى كفه او فى جيبه صار قابضا‘‘یعنی:لا بالتخلیۃ سے شارح علیہ الرحمۃ نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ انگلی کے پوروں سے قبضہ کرنے کی قید تخلیۃ کو خارج کرنے کے لئے ہے ورنہ یہاں قبضے میں شرط یہ ہےکہ  قبضہ بالفعل ہو، انگلیوں سے قبضہ  کرنا ضروری نہیں یہاں تک کہ   اگر کسی نے سامنے والے کی  ہتھیلی پر رکھ دیا، یا جیب میں ڈال دیا تو یہ سامنے والے کا قبضہ شمار ہوگا۔(درمختار مع رد المحتار، جلد7،صفحہ 553،مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطا)

   فتاوی رضویہ میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے ہم جنس اور ہم قدر اشیاء کی آپس میں خرید و فروخت کا اصول یوں بیان فرمایا:”جو دو چیزیں  اندازہ میں  مشترک ہیں  یعنی ایک ہی قسم کے اندازہ سے ان کی تقدیر کی جاتی ہے مثلاًدونوں  وزنی ہیں  یا دونوں  کیلی، اور دونوں  ہیں  بھی ایک جنس کے، مثلاً گیہوں  گیہوں  یا لوہا لوہا، تو ایسی دو چیزوں  کی آپس میں  بیع اسی وقت صحیح ہے جب دونوں  اپنے اسی اندازہ میں  جو شرعاً یا عرفاً ان کا مقرر ہے بالکل برابر ہوں  اور ان میں  کوئی ادھار بھی نہ ہو، اور اگر ایسی دو چیزیں  ایک یا دونوں  ادھار ہوں۔۔۔ تو یہ بیع محض ناجائز اور ربوٰ قرار پائے گی۔“ (فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ291، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور، ملتقطا)

   بہارشریعت میں ہے:”چاندی کی چاندی سے یا سونے کی سونے سے بیع ہوئی یعنی دونوں طرف ایک ہی جنس ہے تو شرط یہ ہے کہ دونوں وزن میں برابر ہوں اور اُسی مجلس میں دست بدست قبضہ ہویعنی ہر ایک دوسرے کی چیز اپنے فعل سے قبضہ میں لائے۔  اگر عاقدین نے ہاتھ سے قبضہ نہیں کیا بلکہ فرض کرو عقد کے بعد وہاں اپنی چیز رکھ دی اور اُس کی چیز لے کر چلا آیا یہ کافی نہیں ہے اور اس طرح کرنے سے بیع ناجائز ہوگئی بلکہ سود ہوا۔“ (بہار شریعت،جلد2،صفحه821،مطبوعه مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم