
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے پاس ساڑھے چار تولہ سونا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں، کیا قربانی واجب ہے؟ اسے میں کبھی کبھار پہن لیتی ہوں لیکن نیت یہ ہے کہ یہ میرے بچوں کے لیے ہے، کیا میں ایسی صورت میں اس کی شرعی مالک ہوں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قربانی کے ایام میں جس شخص کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا سونا چاندی دونوں ہوں مگر نصاب سے کم، لیکن ان کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچتی ہو، یا پھر حاجت اصلیہ سے زائد کرنسی یا ایسی اشیا ہوں جن کی قیمت ساتھ ملانے سے ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد بن جائے، تو بقیہ شرائط کی موجودگی میں اس پر قربانی واجب ہوتی ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر واقعی اس ساڑھے چار تولہ سونے کے علاوہ حاجت اصلیہ سے زائد کرنسی وغیرہ کوئی شے نہیں تو قربانی واجب نہیں ہوگی۔ لیکن فی زمانہ یہ مشکل ہے، کیونکہ عام طور پر کچھ نہ کچھ حاجت اصلیہ سے زائد پیسے یا چیزیں موجود ہوتی ہی ہیں، جن کو سونے کی قیمت کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو قربانی کا نصاب بن جاتا ہے، مثلاً ساڑھے چار تولہ سونے کے ساتھ حاجت اصلیہ سے زائد چند سو روپے یا اضافی کپڑے، جوتے یا سامان وغیرہ موجود ہے تو قربانی واجب ہوگی۔ نیز پوچھی گئی صورت میں وہ سونا شرعاً آپ ہی کی ملک شمار ہوگا؛ کیونکہ محض نیت کرنے سے مملوکہ چیز پر سے ملکیت ختم نہیں ہو جاتی۔
ملک العلما علامہ ابوبکر بن مسعود كاسانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 587ھ / 1191ء) لکھتے ہیں:
و منها الغنى لما روي عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه قال: من وجد سعة فليضح، شرط عليه الصلاة و السلام السعة و هي الغنى و لأنا أوجبناها بمطلق المال و من الجائز أن يستغرق الواجب جميع ماله فيؤدي إلى الحرج فلا بد من اعتبار الغنى و هو أن يكون في ملكه مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء تبلغ قيمته ذلك سوى مسكنه و ما يتأثث به و كسوته و خادمه و فرسه و سلاحه و ما لا يستغني عنه و هو نصاب صدقة الفطر
ترجمہ: اور قربانی کے وجوب کی شرائط میں سے ایک شرط غنی ہونا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی حدیث پاک کی وجہ سے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: "جو شخص وسعت پائے، تو وہ قربانی کرے۔ "(پس اس حدیث پاک میں) نبی معظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قربانی کو وسعت یعنی غنی ہونے کے ساتھ مشروط فرمایا۔ اور اس لیے بھی کہ ہم نے قربانی کو مطلق مال پر واجب قرار دیا ہے، اور ممکن ہے کہ یہ واجب انسان کے سارے مال کو محیط ہو جائے، پس یہ حرج کا باعث ہوگا، لہذا (قربانی میں) غنی ہونے کا اعتبار ضروری ہے، اور غنی ہونا یہ ہے کہ آدمی کی ملکیت میں دو سو درہم(ساڑھے باون تولہ چاندی) یا بیس دینار(ساڑھے سات تولہ سونا) ہو، یا رہنے کے مکان، خانہ داری کی چیزوں، کپڑے، خادم، گھوڑا، ہتھیار اور وہ اشیا جن کے بغیر چارہ نہیں، اُن کے علاوہ کوئی ایسی شے موجود ہو جس کی قیمت اس (دو سو درہم یا بیس دینار کی قیمت) تک پہنچے، اور یہی صدقۂ فطر کا نصاب ہے۔ (البدائع الصنائع، كتاب التضحية، فصل في شرائط وجوب في الأضحية، جلد 5، صفحہ 64، دار الكتب العلمية، بیروت)
امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”قربانی واجب ہونے کے لیے صرف اتنا ضرور ہے کہ وہ ایام قربانی میں اپنی تمام اصل حاجتوں کے علاوہ ۵۶ روپیہ (ساڑھے باون تولہ چاندی) کے مال کا مالک ہو، چاہے وہ مال نقد ہو یا بیل، بھینس یا کاشت۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 370، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1367ھ/1948ء) لکھتے ہیں: ”جو شخص دو سو درہم(ساڑھے باون تولہ چاندی) یا بیس دینار (ساڑھے سات تولہ سونے) کا مالک ہو یا حاجت کے سوا کسی ایسی چیز کا مالک ہو جس کی قیمت دوسو درہم ہو، وہ غنی ہے، اوس پر قربانی واجب ہے۔ حاجت سے مراد رہنے کا مکان اور خانہ داری کے سامان جن کی حاجت ہو اور سواری کا جانور اور خادم اور پہننے کے کپڑے، ان کے سوا جو چیزیں ہوں وہ حاجت سے زائد ہیں۔“ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ 333، مکتبة المدینہ، کراچی)
مفتی محمد وقار الدین قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1413ھ / 1993ء) لکھتے ہیں: ”صدقہ فطر اور قربانی کے لیے مقدار نصاب تو وہی ہے جو زکوۃ کا ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ صدقہ فطر اور قربانی کے لیے مال کے نامی ہونے اور سال گزرنے کی شرط نہیں۔ اسی طرح جو چیزیں ضرورت سے زیادہ ہیں اور ان کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہو تو ان اشیا کی وجہ سے قربانی اور صدقہ فطر واجب ہیں، مثلاً کسی شخص کو ایک کار کی ضرورت ہے، لیکن اس کے پاس دو کاریں ہیں، ایک ٹی وی کی جگہ دو ٹی وی ہوں، یا گھریلو سامان جو روزانہ کام میں نہیں آتا ہے موجود ہو، بلکہ عام استعمال کے کپڑے بھی اگر ضرورت سے زیادہ ہوں، اور کتب فتاوی میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کسی کے پاس اتنا قیمتی قرآن ہے، جس کی قیمت نصاب کے برابر ہے مگر وہ قرآن دیکھ کر نہیں پڑھ سکتا تو اس قرآن کی وجہ سے صدقہ فطر اور قربانی واجب ہے۔“ (وقار الفتاوی، جلد 2، صفحہ 385- 386، بزم وقار الدین، کراچی)
الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:
و لا تعد النية هنا شروعا في البيع، أو النكاح، أو الإجارة، أو الهبة، أو الوقف، أو الوصية، أو العارية، أو غيرها من أصناف المعاملات؛ لأننا لا نعلم القصد المنوي، فهذه المعاملات مبنية على الإيجاب و القبول
ترجمہ: اور یہاں خرید و فروخت، نکاح، اجارہ، ہبہ، وقف، وصیت، عاریت یا ان کے علاوہ دیگر معاملات کی انواع میں محض نیت کو آغاز (ان کا شروع کرنا) شمار نہیں کیا جاتا؛ کیونکہ ہم (کسی کے) نیت کردہ قصد کو نہیں جانتے، پس یہ معاملات ایجاب و قبول پر مبنی ہوتے ہیں۔ (الموسوعة الفقهية الكويتية، جلد 26، صفحہ 96، مطابع دار الصفوة، مصر)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-775
تاریخ اجراء: 13 ذو الحجة الحرام 1446ھ / 10 جون 2025ء