دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ اجرت کے بدلے نر جانور سے جفتی کروانا شرعاً جائز نہیں ہے اور بغیر اجرت کے کرواسکتے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے رہنمائی چاہیے تھی کہ کیا قربانی کے جانور سے بھی بغیر اجرت کے جفتی کرواسکتے ہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قربانی کے جانور سے بغیر اجرت کے بھی جفتی کروانا شرعاً مکرو ہ و ممنوع ہے۔
تفصیل یہ ہے کہ جس جانور پر قربانی کی نیت کرلی جائے، اس سے کسی بھی قسم کی منفعت (یعنی فائدہ) حاصل کرنا، جائز نہیں ہوتا، کیونکہ وہ جانوراپنےتمام اجزاء کے ساتھ قربت (یعنی نیکی) کيلئے متعین ہوجاتا ہے اور یہ قربت اسی وقت حاصل ہوگی جب اس جانور کو اللہ عزوجل کے نام پر ذبح کیا جائےگا، اس سے پہلے اس جانور کے کسی بھی جزء سے ہر قسم کا انتفاع مکروہ و ممنوع ہے۔ جانور سے منفعت حاصل کرنے کی فقہاء کرام نے کئی صورتیں بیان فرمائیں ہیں جیسے؛ اس پر سواری کرنا، سامان لادنا،دودھ دھونا اور اون کاٹنا وغیرہ، چونکہ نر جانور سے جفتی کروانا، افزائش نسل کا ذریعہ و سبب ہے، اسی لیے فقہاء کرام نے بغیر اجرت کے اس کی اجازت دی ہے، بلکہ بعض مقامات پر اسے مستحب لکھا ہے، تو گویا وہ شخص جو نر جانور کے ذریعے جفتی کروارہا ہے، وہ اس جانور سے افزائش نسل کےذریعے و سبب کو اختیار کررہا ہے اور یہ بھی جانور سے ایک طرح کی منفعت حاصل کرنا ہے، لہٰذا قربانی کے جانور سے بغیر اجرت بھی جفتی کروانا مکروہ و ممنوع ہے۔
جزئیات:
جس جانور پر قربانی کی نیت ہوچکی ہو، اس سے کسی قسم کا نفع نہیں لے سکتے، چنانچہ علامہ ابو المَعَالی بخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 616ھ / 1219ء) لکھتےہیں:
و يكره له أن يحلب الأضحية، و يجز صوفها قبل الذبح، و ينتفع به؛ لأن الحلب، و الجز يفوّت جزءاً منها، و قد التزم التضحية بجميع أجزائها، فلا يجوز له أن يحبس شيئاً منها
ترجمہ: قربانی کے جانور کا ذبح سے پہلے دودھ دوھنا اور اس کا اون کاٹنا اور ان سے نفع اٹھانا مکروہ ہے؛ کیونکہ دودھ نکالنا اور اون کاٹنا جانور کے کچھ حصے کو ضائع کرنا ہے، حالانکہ اس نے جانور کے تمام اجزاء کے ساتھ قربانی کرنے کا التزام کیا ہے، لہٰذا اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ قربانی کے جانور کا کوئی حصہ روک لے۔ (المحیط البرھانی، جلد 06، صفحہ 94، دار الكتب العلمية، بيروت)
قربانی کے جانور سے نفع کے مکروہ و ممنوع ہونے کی علت کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے:
لأنه عينها للقربة فلا يحل له الانتفاع بجزء من أجزائها قبل إقامة القربة فيها، كما لا يحل له الانتفاع بلحمها إذا ذبحها قبل وقتها۔۔۔و يكره له ركوب الأضحية و استعمالها و الحمل عليها
ترجمہ: کیونکہ اس نے جانور کو قربت کے لیے معین کرلیا، تو اب قربت قائم کرنے سے پہلے اس کے کسی بھی جزء سے نفع حاصل کرنا،حلال نہیں ہے، جیسے وقت سے پہلے ذبح کرنے کی صورت میں اس کے گوشت سے نفع حاصل کرنا حلال نہیں۔ اور قربانی کے جانور پر سوار ہونا، اس سے کوئی کام لینا، اور اس پر بوجھ لادنا مکروہ ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد 05، صفحہ 78 تا79، مطبوعہ مصر)
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سُنَّت، امام اَحْمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”قربانی میں اصل کارثواب اللہ کے لئے خون کا بہانا ہے۔ اسی لئے جب تک جانور سے یہ اصل غرض حاصل نہیں ہوتی اس سے ہر قسم کا انتفاع مطلقا منع ہے۔ حد یہ ہے کہ اون اور دودھ سے بھی انتفاع جائز نہیں، نہ قربانی کرنے والے کو نہ غیر کو، اور جب اصل غرض حاصل ہوگئی تو اس کے تمام اجزاء سے ہر قسم کا انتفاع جائز ہوگیا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 512، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
نر جانور سے جفتی کروانا، افزائش نسل کا سبب ہے، لہذا یہ بھی انتفاع ہے، چنانچہ علامہ ابن نجیم مصری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 970ھ / 1562ء) لکھتے ہیں:
أما لو فعل ذلك من غير أجر لا بأس به؛ لأن به يبقى النسل
ترجمہ: بہر حال اگر بغیر اجرت کے جفتی کروائی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ یہ بقائے نسل کا ذریعہ ہے۔ (البحر الرائق، جلد 08، صفحہ 22، دار الكتاب الإسلامي)
اسی طرح مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر میں ہے:
حقيقة العسب ليس بمكروه؛ لأنه سبب لبقاء النسل
ترجمہ: نر جانور کی جفتی، مکروہ نہیں کہ یہ بقائے نسل کا سبب ہے۔ (مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر، جلد 02، صفحہ 383، دار إحياء التراث العربي - بيروت)
بغیر اجرت کے مستحب ہے، چنانچہ علامہ زَیْلَعی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 743ھ / 1342ء) لکھتےہیں:
و إنما أراد النهي عن الكراء الذي يؤخذ عليه فإن إعارة الفحل مندوب
ترجمہ: حدیث مبارکہ میں جو نہی وارد ہے اس سے مراد نر جانور کی جفتی کی اجرت ہے، پس بغیر اجرت کے عاریتا دینا مستحب ہے۔ (تبیین الحقائق، جلد 05، صفحہ 104، المطبعة الكبرى، القاهرة)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: OKR-0113
تاریخ اجراء: 16 ربیع الثانی 1447 ھ/ 10اکتوبر 2025ء