دونوں بیٹوں کے عقیقے میں دو بکرے کافی ہیں؟

عقیقہ کرنے میں لڑکے اور لڑکی کی طرف سے کتنے بکرے ہونے چاہیے؟

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ میرے دو بیٹے ہیں اور میں نے نیت کی ہےکہ مجھے ان کا عقیقہ کرنا ہے، البتہ میرے پاس زیادہ وسائل نہیں ہیں، تو کیا دونوں بیٹوں کی طرف سے دو بکرے قربان کر سکتی ہوں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

مستحب اور بہتر یہ ہے کہ لڑکے کے عقیقہ کے لیے دو بکرے یا دو دُنبے یا دو بکریاں یا بڑے جانور میں دو حصے شامل کیے جائیں، لیکن اگر دو کی بجائے ایک بکرا قربان کیا تو یہ بھی جائز ہے۔ سنتِ عقیقہ ادا ہو جائے گی۔ ایک روایت کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہما کی طرف سے ایک ایک دنبہ ہی بطورِ عقیقہ ذبح فرمایا تھا، لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ دونوں بیٹوں کی طرف سے دو بکرے قربان کر سکتی ہیں۔

سنن ابی داؤد  میں حدیث صحیح ہے:

أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم عق عن الحسن و الحسين کبشا کبشا

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہما کی طرف سے ایک ایک دنبہ بطورِ عقیقہ ذبح فرمایا۔ (سنن ابی داؤد، جلد 04، صفحہ 461، مطبوعہ دار الرسالۃ العالمیۃ، بیروت)

یعنی ایک دنبہ ایک نواسے کی طرف سے تھا، چنانچہ اس حدیث کی شرح میں علامہ طیبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لکھا:

عق عن كل واحد بكبش۔

ترجمہ: یعنی ہر ایک نواسے کی طرف سے ایک دنبہ عقیقہ کے لیے قربان فرمایا۔ (شرح المشكاة للطيبي، جلد 09، صفحہ 2835، مطبوعہ ریاض)

لڑکے کی طرف سے دو بکروں یا دنبوں کا ہونا مستحب ہے، شرط نہیں، چنانچہ ”فتح الباری بشرح صحيح البخاري“ میں ہے:

على تقدير ثبوت رواية أبي داود فليس في الحديث ما يرد به الأحاديث المتواردة في التنصيص على التثنية للغلام، بل غايته أن يدل على جواز الاقتصار، و هو كذلك، فإن العدد ليس شرطا بل مستحب۔

ترجمہ: اگر سنن ابو داؤد کی روایت کو ثابت مان لیا جائے، تب بھی یہ روایت اُن احادیث کو رد نہیں کرتی جن میں لڑکے کے لیے دو جانوروں کی صراحت متواتر طور پر وارد ہوئی ہے۔ بلکہ سنن ابو داؤد کی روایت زیادہ سے زیادہ ایک جانور پر اکتفا کرنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے، کیونکہ عقیقہ میں تعداد شرط نہیں، بلکہ مستحب ہے۔ (فتح الباری بشرح صحيح البخاری، کتاب العقيقة، جلد 09، صفحہ 592، دار المعرفۃ، بیروت)

فتح الودود في شرح سنن أبي داود  میں ہے:

فعلم أن الاكتفاء بواحد جائز وأن الأمر بالاثنين محمول على الندب۔

ترجمہ: پس معلوم ہوا کہ ایک جانور پر بھی اکتفاء کرنا جائز ہے اور روایات میں دو جانوروں والی بات کو ”مستحب“ پر محمول کیا جائے گا۔ (فتح الودود في شرح سنن أبي داود، جلد 03، صفحۃ 229، مطبوعہ مصر)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية میں ہے:

لو ذبح عن الغلام شاة وعن الجارية شاة جاز؛ لأن «النبي صلى اللہ عليه و سلم عق عن الحسن و الحسين كبشا كبشا»۔

ترجمہ: اگر لڑکے لڑکی دونوں کی طرف سے ایک ایک بکری ہی عقیقہ میں قربان کر دی، تو یہ بھی جائز ہے، کیونکہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہما کی طرف سے ایک ایک دنبہ بطورِ عقیقہ ذبح فرمایا۔ (العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوٰی الحامدیۃ، جلد 2، صفحہ 212، مطبوعہ دار المعرفۃ، بیروت)

مفتی محمد نور اللہ نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1403ھ / 1982ء) لکھتے ہیں: عقیقہ میں ایک لڑکے کے لیے ایک بکری یا گائے کا ساتواں حصہ جائز ہے اور بہتر یہ ہے کہ ایک لڑکے کے عقیقے میں دو بکریاں یا گائے کے دو حصے چاہیے۔ (فتاوٰی نوریہ، جلد 03، صفحہ 504، مطبوعہ دار العلوم حنفیہ فریدیہ، بصیر پور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FSD-9607

تاریخ اجراء: 14جمادی الاولیٰ 1447ھ/06 نومبر 2025 ء