دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ عقیقہ میں جانور ذبح کرنے کی بجائے اگر جانور یا اس کی قیمت عقیقہ کی نیت سے صدقہ کر دی جائے، تو کیا اس سے عقیقہ کی سنت ادا ہو جائے گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
عقیقہ میں جانور ذبح کرنا ہی ضروری ہے، کیونکہ شرعی اصطلاح میں عقیقہ اُسی عمل کو کہا جاتا ہے جس میں بچہ پیدا ہونے کے شکرانہ میں جانور ذبح کیا جائے۔ احادیثِ طیبہ سے بھی ثابت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے عقیقہ کے موقع پر جانور ذبح کرنے کا حکم فرمایا، نیز عقیقہ کے احکام، قربانی کے احکام کی طرح ہیں اور قربانی کے دنو ں میں جانور ذبح کرنا ہی لازم ہوتا ہے، لہٰذا قربانی کی طرح عقیقہ میں بھی جانور ذبح کرنے کی بجائے جانور یا اس کی قیمت صدقہ کرنے سے عقیقہ کی سنت ادا نہیں ہوگی، البتہ جداگانہ صدقہ کرنے کا ثواب مل جائے گا اور عقیقہ کی سنت اپنی جگہ باقی رہے گی۔
لفظِ عقیقہ کے معنی کے متعلق مرآۃ المناجیح میں ہے: ”عقیقہ بنا ہے عق سے بمعنی کاٹنا الگ کرنا۔۔۔ اصطلاح شریعت میں عقیقہ،بچے نومولود کے سر سے اتارے ہوئے بال بھی عقیقہ ہیں اور اس حجامت کے وقت ذبح کیا ہوا جانور بھی عقیقہ ہے، یعنی الگ کیے ہوئے بال اور سر کاٹا ہوا جانور۔“ (مراٰۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 01، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ، گجرات)
عقیقہ کی شرعی تعریف کے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:
العقيقة عن الغلام وعن الجارية وهی ذبح شاة فی سابع الولادة
ترجمہ: لڑکے اور لڑکی کی طرف سے عقیقہ ، ولادت کے ساتویں دن بکری ذبح کرنا ہے۔ (الفتاوى الھندیۃ، جلد 5، صفحہ 362، مطبوعہ کوئٹہ)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ / 1947ء) لکھتے ہیں: ”بچہ پیدا ہونے کے شکریہ میں جو جانور ذبح کیا جاتا ہے اس کو عقیقہ کہتے ہیں۔“ (بھارِ شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ 355، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عقیقہ کے موقع پر جانور ذبح کرنے کا حکم فرمایا، جیسا کہ صحیح بخاری، ابوداؤد، ترمذی، ابنِ ماجہ ودیگر کتبِ احادیث میں ہے،
و النظم للاول: سلمان بن عامر الضبی قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم يقول: مع الغلام عقيقة فاهريقوا عنه دما
ترجمہ: حضرت سلمان بن عامر ضبی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کو فرماتے ہوئے سنا:بچہ کے ساتھ عقیقہ ہے، لہٰذا اس کی طرف سے خون بہاؤ (یعنی جانور ذبح کرو)۔ (الصحیح البخاری، کتاب العقیقۃ، جلد 7، صفحہ 87، مطبوعہ دار طوق النجاة، بيروت)
مذکورہ بالا حدیث کے تحت علامہ شرف الدین حسین بن عبد اللہ طیبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سال وفات: 743ھ / 1342ء)لکھتے ہیں:
ای مع ولادته عقيقة مسنونة و هي شاة تذبح عن المولود اليوم السابع من ولادته سميت بذلك لانها تذبح حين يحلق عقيقته و هو الشعر الذی يكون على المولود حين يولد من العق و هو القطع
یعنی بچہ کی ولادت کے وقت عقیقہ کرنا سنت ہے اور وہ ایک بکری ہے جسے ولادت کے ساتویں دن بچہ کی طرف سے ذبح کیا جاتا ہے۔ اسے عقیقہ نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ جانور اس وقت ذبح کیا جاتا ہے جب بچے کے سر پر موجود پیدائشی بالوں کو مونڈا جاتا ہے کہ یہ عق سے ماخوذ ہے جس کا معنی قطع کرنا ہے۔ (شرح الطيبي على مشكاة المصابيح، جلد 09، صفحہ 2831، مطبوعہ ریاض)
عقیقہ کے احکام، قربانی کے احکام کی طرح ہیں، جیسا کہ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”عقیقہ کے احکام مثلِ اضحیہ ہیں، اس سے بھی مثلِ اضحیہ تقرب الی اللہ عزوجل مقصود ہوتا ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 20، صفحہ 501،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
اور قربانی کے دنو ں میں جانور ذبح کرنا ہی لازم ہوتا ہے، چنانچہ شمس الاَئمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 483ھ / 1090ء) لکھتے ہیں:
ان الواجب التقرب باراقة الدم ولا يحصل ذلك بالتصدق بالقيمة
ترجمہ:(قربانی میں) واجب تقرب (یعنی اللہ کا قرب حاصل کرنا) خون بہانے کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، تو (قربانی کی بجائے) قیمت صدقہ کرنے سے یہ تقرب حاصل نہیں ہوسکتا۔ (المبسوط، جلد 12، صفحہ 13، مطبوعہ دارالمعرفۃ، بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے: ”عقیقہ اور قربانی دونوں اراقتِ دم لوجہ اللہ ہیں (یعنی ان دونوں میں اللہ کی رضا کے لیے جانور ذبح کیا جاتا ہے)۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 20، صفحہ 595، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
لہٰذا قربانی کی طرح عقیقہ میں بھی جانور ذبح کرنے کی بجائے کوئی صدقہ وغیرہ کافی نہیں ہوگا، جیساکہ بہارِ شریعت میں ہے: ”قربانی کے وقت میں قربانی کرنا ہی لازم ہے کوئی دوسری چیز اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتی، مثلاً بجائے قربانی اس نے بکری یا اس کی قیمت صدقہ کر دی، یہ ناکافی ہے۔“ (بھارِ شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ 335، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FSD-9596
تاریخ اجراء: 07 جمادی الاولیٰ 1447ھ / 30 اکتوبر 2025 ء