
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بقرہ عید کے موقع پر بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ قربانی میں جانور خریدنے میں اتنا خرچہ ہوجاتا ہے۔ جانور خرید کر اس کو ذبح کرکے اتنا فائدہ نہیں، جتنا فائدہ غریب کی مدد کرنے میں ہے۔ یہی رقم اگر کسی غریب آدمی کو دیدی جائے تو اس کی اچھی مالی مدد ہوسکتی ہے، اس کے گھر کا چولہا جل سکتا ہے، غریب کی بیٹی کی شادی کا انتظام ہوسکتا ہے، وہ غریب شخص کرایہ کے گھر سے نکل کر اچھا گھر خرید سکتا ہے، کچھ چھوٹا موٹا سا اپنا کام کاج شروع کرکے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے بچ سکتا ہے، لہذا غربت کے حالات کے پیش نظر قربانی کیلئے اتنے مہنگے مہنگے جانوروں کو خریدنے کے بجائے غریبوں کی مالی مدد کی جائے، اور جتنی رقم سے جانور خریدنا ہو، اتنی رقم اپنے کسی غریب رشتے دار شخص کو دے دیں تو یہی قربانی ہو جائے گی۔ کیا یہ کہنا درست ہے اور اس طرح قربانی ہوجائے گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
قربانی کے دِنوں میں انسان کا کوئی عمل اللہ عزوجل کے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ محبوب نہیں ہوتا، اور قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی مقامِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے اور قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی قربانی کرنے والے کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ یہ اولاً کچھ قربانی کی فضیلت بیان ہوئی۔ جہاں تک قربانی کے بجائے غریب کی مدد کرنے کی بات ہے، تو قربانی کے بدلے جتنا بھی صدقہ و خیرات کردیا جائے، یہ کسی صورت قربانی کے قائم مقام نہیں ہوسکتا، لہذا قربانی کے بجائے غریب کی مدد کرنے کو ہی قربانی قراردینا، دراصل شرعی احکامات میں مداخلت کرنا ہے جو کہ بہت بڑا گناہ ہے۔ مسلمان اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا پابند اور اس کے حکم کے آگے سرتسلیم خم کرنے والا ہوتا ہے۔ احکامِ الہیہ میں انسان کے لئے کثیر دینی و دنیاوی فوائد ہوتے ہیں، خواہ انسان کی عقل میں آئیں یا نہ آئیں۔ درحقیقت انسان کی عقل، اُس کی سوچنے کی صلاحیت سب کچھ محدود ہے، لہذا بندے کو چاہئے کہ صرف بندگی بجالائے ، اللہ عزوجل زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اس کے بندوں کے لیے کیا نفع بخش ہے۔ غریبوں کی مدد قربانی کے حکمِ خداوندی سے منہ پھیر کر ہی کرنا ضروری نہیں بلکہ دینِ اسلام کے دیگر احکام پر عمل کرکے غریبوں کی جتنی چاہیں، مددکریں۔ زکوٰۃ، فطرانہ، کفارات، صدقات، بھوکوں کو کھانا کھلانا، کپڑے پہنانایہ سب غریبوں کی فلاح کے لیے ہیں۔
قربانی بھی ایک ایسا موقع ہے جس میں عبادت کے ساتھ اَز اَوّل تا آخِر غریبوں بلکہ پورے معاشرے کی مدد کا بہت واضح اور خوبصورت پہلو شامل ہے۔ غریب کسان اور چرواہے سال بھر قربانی کے جانور پالتےاور اس کی پرورش میں بے حد مشقت برداشت کرتے ہیں، ان سے جانور خریدنے میں ایسے غریب لوگوں کو عید سے قبل اچھی قیمت پر اپنا جانور بیچ کر مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے، پھر خریدنے سے لیکر جانور کی قربانی تک لاکھوں افراد کو روزگار ملتا ہے، جیسے ٹرانسپورٹرز، چارہ فروش، ویٹرنری ڈاکٹرز، قصاب، مزدور وغیرہ۔ قربانی کے بعد شریعت مطہرہ کی طرف سے قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی ترغیب، رشتہ داروں میں اُلفت اور غریبوں کو عزت سے گوشت فراہم کرنے کا سبب بنتی ہے۔ قربانی کے جانور کی کھالیں غریبوں، یتیموں کو یا ان کے اخراجات کا انتظام کرنے والی تنظیموں، نیز مساجد، مدارس و جامعات کو دی جاتی ہیں، جن سے غریبوں اور علم دین کی خدمت والوں کی تعلیم و خوراک کا بندوبست ہوتا ہے۔ لہذا قربانی محض ایک عبادت نہیں،بلکہ صدقہ و خیرات اور غریب کی مدد کرنے کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قربانی ہویا حج کا معاملہ، غریب کی مدد میں عبادات ہی کو کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟ کیا یہی ایک غریب کی مدد کرنے کا ذریعہ رہ گئے ہیں؟ اگر واقعی ان کو غریب کی فکر ہوتی، تو وہ اپنے ارد گرد موجود ہزاروں فضول خرچیاں بند کروانے کی بات کرتے۔ آج سوسائٹی میں مہنگے موبائل، قیمتی گاڑیاں، پرتعیش بنگلے، شادیوں پر لاکھوں روپے کا خرچ ، فیشن، برانڈڈ اشیاء، ہوٹلنگ، سیاحتی ٹرپ اور دیگر کئی غیر ضروری اخراجات عام ہیں، جن پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا لیکن جیسے ہی کوئی مسلمان سنتِ ابراہیمی ادا کرنے نکلتا ہے، تو فوراً "غریبوں کی مدد" کی آواز بلند ہو جاتی ہے، یہ دوہرا معیاراور قلبی و عملی منافقت کے سوا کچھ نہیں۔
قربانی کے دنوں میں خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل اللہ عزوجل کو قربانی سے زیادہ پیارانہیں ہوتا، چنانچہ جامع ترمذی کی حدیث مبارکہ ہے:
’’عن عائشۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ما عمل آدمی من عمل یوم النحر احب الی اللہ من اھراق الدم،انھا لتأتی یوم القیامۃ بقرونھا و أشعارھا وأظلافھا،وأن الدم لیقع من اللہ بمکان قبل أن یقع من الارض،فطیبو ابھا نفسا‘‘
ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قربانی کے دن ابنِ آدم (یعنی انسان) کا کوئی عمل اللہ کو خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادہ پسندیدہ نہیں۔ بے شک وہ (قربانی کا جانور) قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھُروں (یعنی پاؤں) سمیت آئے گا۔ اور بے شک قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقامِ(قبولیت) حاصل کر لیتا ہے، لہٰذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔ (جامع ترمذی، ابواب الاضاحی عن رسول اللہ، صفحہ 645، رقم الحدیث: 1493، مؤسسۃ الرسالۃ ناشرون)
قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی قربانی کرنے والے کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، چنانچہ سنن کبری للبیہقی کی حدیث پاک ہے:
’’عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: یا فاطمۃ قومی فأشھدی اضحیتک فانہ یغفر لک بأول قطرۃ تقطر من دمھا کل ذنب عملتیہ‘‘
ترجمہ: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے فاطمہ! کھڑی ہو جاؤ اور اپنی قربانی کے پاس حاضر ہو جاؤ، کیونکہ اس کے خون کے پہلے قطرے کے گرتے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ (السنن الکبری للبیھقی، جلد 9، صفحہ 476، رقم الحدیث: 19162، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
قربانی میں خون بہانے کے بدلے کوئی صدقہ وغیرہ کافی نہیں ہوسکتا، چنانچہ مبسوط سرخسی میں ہے:
’’أن الواجب التقرب بإراقة الدم، و لا يحصل ذلك بالتصدق بالقيمة ففي حق الموسر الذي يلزمه ذلك لا إشكال أنه لا يلزمه التصدق بقيمته، و هذا؛ لأنه لا قيمة لإراقة الدم و إقامة المتقوم مقام ما ليس بمتقوم لا تجوز و إراقة الدم خالص حق الله تعالى، و لا وجه للتعليل فيما هو خالص حق الله تعالى و أشرنابهذا إلى الفرق بين هذا و الزكاة و صدقة الفطر و أما في حق الفقير التضحية أفضل لما فيه من الجمع بين التقرب بإراقة الدم و التصدق، و لأنه متمكن من التقرب بالتصدق في سائر الأوقات، و لا يتمكن من التقرب بإراقة الدم إلا في هذه الأيام فكان أفضل‘‘
ترجمہ:(قربانی میں) واجب تقرب (اللہ کا قرب حاصل کرنا) خون بہانے کے ذریعے ہے، تو قیمت صدقہ کرنے سے یہ تقرب حاصل نہیں ہوتا۔ لہذا صاحبِ استطاعت (مالدار) جس پر قربانی واجب ہے، اس کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ اس پر صرف قیمت صدقہ کرنا لازم نہیں، اس پر خون بہانا لازم ہے، کیونکہ خون بہانے کی (عبادت) کی کوئی قیمت نہیں، اور جو چیز قیمت والی نہیں، اس کی جگہ قیمت دینا جائز نہیں۔ اور خون بہانا اللہ تعالیٰ کا خالص حق ہے، اور جو چیز اللہ کے خالص حق میں ہو، اس میں عقلی قیاس کی کوئی گنجائش نہیں۔ اور اس سے ہم نے قربانی اور زکوٰۃ و صدقہ فطر کے درمیان فرق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ البتہ فقیر کے حق میں قربانی کرنا افضل ہے، کیونکہ اس میں خون بہا کر تقرب حاصل کرنے اور (قربانی کرکے گوشت کو) صدقہ کرنے، دونوں (طرح کی مالی قربتوں یعنی تملیک اور اِتلاف) کو جمع کرنا ہے۔ اور اس لئے بھی کہ باقی دِنوں میں صدقہ کے ذریعے تقرب حاصل کیا جا سکتا ہے، لیکن خون بہا کر قرب الٰہی حاصل کرنے کا موقع صرف اِنہی دنوں میں ہوتا ہے، اس لیے یہ (قربانی) افضل ہے۔ (مبسوط سرخسی، جلد 12، صفحہ 14،13، دار المعرفۃ، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-738
تاریخ اجراء: 10 ذی القعدۃ الحرام 1446 ھ / 08 مئی 2025 ء