قربانی کے گوشت میں کیڑے نکلیں تو قربانی کا حکم

قربانی کرنے کے بعد گوشت میں کیڑے پڑے ہوئے ملے تو قربانی کا کیا حکم ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم نے قربانی کا جانور لیا تھا، جو صحت مند تھا اور دو سال کا مکمل تھا، لیکن جب اس کی قربانی کی گئی تو اندر سے تقریباً گوشت میں کیڑے پڑے ہوئے تھےاور وہ گوشت قابل استعمال نہ رہا تھا۔ اس صورت میں قربانی ہوگئی یا ہمیں دوبارہ قربانی کرنا تھی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

ایسی صورت میں قربانی نہیں ہوئی، جس پر قربانی لازم تھی، اب اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک بکری کی قیمت صدقہ کرے گا۔

تفصیل کچھ یوں ہے کہ فقہائے کرام نے متعدد مقامات پر اس بات کی صراحت کی ہے کہ ہر ایسا عیب جس کی وجہ سے جانور کی منفعت مکمل طور پر ختم ہوجائے اس عیب کے پائے جانے کی صورت میں قربانی نہیں ہوتی خصوصا ایسا عیب جو گوشت میں اثر انداز ہو وہ قربانی سے مانع ہے، اور یقینا ایسا عیب عیب فاحش بھی ہے۔ عیب فاحش کے حوالے سے بہت سے مسائل میں دار و مدار گوشت کا صحیح ہونا بھی رکھا گیا ہے۔ فقہائے کرام کے کلام میں اس کی نظائر موجود ہیں، (1) خارشی جانور کہ جس کے گوشت تک خارش پہنچ جائے، اس کی قربانی درست نہیں کہ گوشت میں نقصان ہے۔

(2) خنثی جانور کہ اس کا گوشت پکتا نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کی قربانی ناجائز ہے۔ اور پوچھی گئی صورت میں جب جانور کے گوشت میں کیڑے نکل آئے ہیں اور ان کیڑوں کی وجہ سے گوشت میں اثر (فساد) آیا ہےاور جانور کی سب سے بڑی منفعت گوشت ہے جو کہ اب نہ رہی کہ اب اس سے نفع اٹھانا کسی طرح ممکن نہ رہا، لہٰذا قربانی نہیں ہوگی۔

ہر ایسا عیب جو جانور کی منفعت کو کلیۃًختم کردے وہ قربانی سے مانع ہے۔ فتاوی عالمگیری میں ہے:

كل عيب يزيل المنفعة على الكمال أو الجمال على الكمال يمنع الأضحية، و ما لا يكون بهذه الصفة لايمنع

ترجمہ: ہر وہ عیب جو منفعت کومکمل طورپر ختم کردے یا اس کی خوبصورتی کو کامل طورپر ختم کردے، قربانی سے مانع ہوگا، اور جو عیب ایسا نہ ہو وہ قربانی سے بھی مانع نہیں ہوگا۔ (الفتاوی الهندية، جلد 05، صفحہ 299، طبع دار الفکر، بیروت)

جوعیب گوشت میں اثر انداز ہو وہ قربانی سے مانع ہوگا۔ بنایہ میں ہے:

و الأصل عند العلماء كل عيب يؤثر في اللحم يمنع

ترجمہ: علماء کرام کے نزدیک اصول یہ ہے کہ ہر وہ عیب جو گوشت پر اثر انداز ہو، وہ قربانی سے مانع ہوتا ہے، اور اگر اثر انداز نہ ہو تو مانع نہیں ہوتا۔ (البناية شرح الهداية، جلد 12، صفحہ 41، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

عیب فاحش قربانی سے مانع ہے۔ ملك العلماء امام کاسانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

و أما الذي يرجع إلى محل التضحية فنوعان: أحدهما: سلامة المحل عن العيوب الفاحشۃ

ترجمہ: وہ شرط جس کا تعلق قربانی کے جانور سے ہے دو قسم پر ہیں، ان میں سے پہلی شرط یہ ہے کہ قربانی کا جانور بڑے عیوب سے پاک ہو۔ (بدائع صنائع، جلد 05، صفحہ 75،دار الکتب العلمیہ)

اسی طرح بہار شریعت میں ہے: ’’قربانی کے جانور کو عیب سے خالی ہونا چاہیے اور تھوڑا سا عیب ہو تو قربانی ہو جائے گی مگر مکروہ ہوگی اور زیادہ عیب ہو تو ہوگی ہی نہیں۔‘‘ (بہار شریعت، جلد 03، حصہ 15، صفحہ 340، المدینۃ العلمیہ)

خارش والے جانور کی قربانی کے متعلق بنایہ میں ہے:

و الجرباء إن كانت سمينة جاز؛ لأن الجرب في الجلد و لا نقصان في اللحم، و إن كانت مهزولة لا تجوز؛ لأن الجرب في اللحم فانتقص و الأصل عند العلماء كل عيب يؤثر في اللحم يمنع و إلا فلا

ترجمہ: خارش والاجانور اگرصحت مند ہوتو اس کی قربانی جائز ہے، کیونکہ خارش صرف جلد میں ہے اور گوشت میں کوئی نقصان نہیں۔ لیکن اگر وہ کمزورہو تو قربانی جائز نہیں، کیونکہ خارش گوشت میں ہے، جس سے گوشت میں کمی ہوگئی ہے،اور علماء کے نزدیک اصول یہ ہے کہ ہر وہ عیب جو گوشت پر اثر انداز ہو، وہ قربانی سے مانع ہوتا ہے، اور اگر اثر انداز نہ ہو تو مانع نہیں ہوتا۔ (البناية شرح الهداية، جلد 12، صفحہ 41، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

خنثی جانور کی قربانی جائز نہیں کہ اس کا گوشت پکتا نہیں ہے۔ فتاوی عالمگیری میں ہے:

لا تجوز التضحية بالشاة الخنثى؛ لأن لحمها لا ينضج

ترجمہ: یعنی خنثٰی بکرے کی قربانی جائزنہیں کیونکہ اس کا گوشت پکتانہیں ہے۔ (الفتاوی العالمگیریہ، جلد 05، صفحہ 299، مطبوعہ، دار الفکر، بیروت)

اسی طرح فتاوی رضویہ میں ہے: ”خنثٰی کہ نر ومادہ دونوں کی علامتیں رکھتاہو، دونوں سے یکساں پیشاب آتا ہو، کوئی وجہ ترجیح نہ رکھتاہو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں، کہ اس کا گوشت کسی طرح پکائے نہیں پکتا، ویسے ذبح سے حلال ہوجائے گا، اگر کوئی کچا گوشت کھائے، کھائے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 255، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

جس پر قربانی لازم تھی اور وہ قربانی نہ کرسکا اور قربانی کے ایام نکل گئے اور اس کے پاس قربانی کے لیے لیا گیا جانور نہ ہو تو اس پر بکری کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہوتا ہے۔ بدائع الصانع میں ہے:

و ان کان لم یوجب علی نفسہ و لا اشتری و ھو موسر حتی مضت أیام النحر تصدق بقیمۃ شاۃ تجوز فی الأضحیۃ

ترجمہ: اگر قربانی اپنے اوپرخود واجب نہیں کی تھی اور نہ ہی قربانی کے لیے جانور خریدا تھا اور وہ صاحب نصاب بھی تھا (اور اس نے قربانی نہیں کی) یہاں تک کہ ایام نحر گزر گئے تو اب ایک ایسی بکری کی قیمت صدقہ کرے گا جس کی قربانی جائز ہوتی ہو۔ (بدائع الصنائع، جلد 4، صفحہ 203، مطبوعہ کوئٹہ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حمزہ محمد حسان عطاری

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: HAB-587

تاریخ اجراء: 15 ذو الحجۃ 1446ھ / 12 جون 2025ء