سینگ ٹوٹے جانور کا عقیقہ اور گوشت ولیمے میں استعمال کرنا

سینگ ٹوٹے جانور کا عقیقہ کرنے اور عقیقے کا گوشت ولیمے میں استعمال کرنےکا حکم

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین درج ذیل سوالات کے بارے میں کہ:

(1) ہم نے عقیقہ کے لیے بکراخریدا تھا، کسی جانور سے لڑنے کی وجہ سے اس کاایک سینگ جڑ سے ٹوٹ گیا ہے اور زخم بھی ابھی تک نہیں بھرا، کیا یہ بکرا عقیقہ کے لیے قربان کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

(2) کیا عقیقہ کے جانور کا گوشت ولیمہ میں استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

(1) اگر بکرے کا سینگ جڑ تک ٹوٹ جائے اور زخم بھی نہ بھرا ہو، تو اسے عقیقہ کے لیے قربان نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ جانور کی جنس، عمر اور عیوب سے پاک ہونے میں عقیقے کے جانور کی بھی وہی شرائط ہیں جو قربانی کے جانور کی ہیں، لہذا جس طرح ایسے بکرے کی قربانی نہیں ہوسکتی، تو عقیقہ بھی نہیں ہوسکتا، البتہ زخم بھر جانے کے بعد دیگر شرائط کی موجودگی میں اس کو عقیقہ کے لیے ذبح کیا جاسکتا ہے۔

عقیقہ بھی اسی جانور کا ہوسکتا ہے جس جانور کی قربانی جائز ہے۔ چنانچہ سننِ ترمذی میں ہے:

لا يجزئ في العقيقة من الشاة إلا ما يجزئ في الأضحية

ترجمہ: عقیقہ میں وہی بکری ذبح کرنا جائز ہےجو قربانی میں جائز ہے۔ (سنن ترمذی،ابواب الاضاحی، جلد 3، صفحہ 364، مطبوعہ دار الرسالۃ العالمیۃ)

عقیقہ بھی قربانی کی طرح ہے۔ چنانچہ شرح السنۃ للبغوی میں ہے:

و قال الحسن۔۔ و سئل عن العقيقة، فقال: هي مثل الأضحية، كل منها و أطعم

ترجمہ: (امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے) عقیقہ کے بارے میں سوال کیا گیا، تو فرمایا: وہ قربانی کی مثل ہے ،اس سے کھاؤ اور کھلاؤ۔ (شرح السنة للبغوی، باب العقیقہ، جلد 11، صفحہ 267، مطبوعہ، بیروت)

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال ہوا: کیا حکم ہے شرع مطہر ہ کا دربارہ عقیقہ کے جانور ذبح کئے جائیں ان کی عمر کیا ہونا چاہئے، ا ور اگر کسی عضو میں نقصان رکھتے ہوں وہ کام میں آسکتے ہیں یانہیں؟“ تو جواباً ارشاد فرمایا: ”ان امور میں احکام عقیقہ مثلِ قربانی ہیں، اعضا سلامت ہوں، بکرا بکری ایک سال سے کم کی جائز نہیں، بھیڑ، مینڈھا چھ مہینہ کا بھی ہوسکتا ہے، جبکہ اتنا تازہ وفربہ ہو کہ سال بھر والوں میں ملادیں تو دور سے متمیز نہ ہو۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد 20، صفحہ 584، مطبوعہ، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

جس جانور کا سینگ جڑ سے ٹوٹ جائے اس کی قربانی کےمتعلق بدائع الصنائع، درر الحكام اور فتاوی ہندیہ میں ہے:

و اللفظ للاول:  و تجزي الجماء و هي التي لا قرن لها خلقة و كذا مكسورة القرن تجزي، فإن  بلغ  الكسر المشاش لا تجزيه و المشاش رءوس العظام

ترجمہ: جماء یعنی وہ جانور جس کے پیدائشی سینگ نہ ہو ،اس کی قربانی جائز ہے، اسی طرح جس کا سینگ ٹوٹا ہو ،اس کی قربانی بھی جائز ہے اور اگر (سینگ کا ٹوٹ جانا) مشاش تک پہنچ جائے ،تو اس کی قربانی ناجائز ہے اور مشاش ہڈی کے سرے کو کہتے ہیں۔  (بدائع الصنائع، کتاب التضحیۃ، جلد5، صفحہ 76، مطبوعہ، مصر)

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: ’’سینگ ٹوٹنا اس وقت قربانی سے مانع ہوتا ہےجبکہ سر کے اندر جڑ تک ٹوٹے، اگر اوپر کا حصہ ٹوٹ جائے تو مانع نہیں۔“ (فتاوی رضویہ جلد 20، صفحہ 460، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

زخم بھرنے کے بعد قربانی جائز ہے۔ چنانچہ اسی میں ہے: ”اور پھر اگر ایسا ہی ٹوٹا تھا کہ مانع ہوتا، مگر اب زخم بھر گیا، عیب جاتا رہا تو حرج نہیں

لان المانع قد زال وھذا ظاھر

ترجمہ:کیونکہ مانع جاتا رہا اور یہ ظاہرہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 460، مطبوعہ، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

(2) عقیقےکا گوشت ولیمہ میں استعمال کرنا بھی جائز ہے ،کیونکہ ولادت کے شکرانے میں جانور قربان کرنے کا نام عقیقہ ہے اوروہ جانور قربان کرنے سے ادا ہوچکا ،اب عقیقہ کرنے والا گوشت کا مالک ہے، لہذا وہ اسے ولیمہ کی دعوت میں بھی استعمال کر سکتا ہے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کی طرح اس کے بھی تین حصے کیے جائیں،  ایک حصّہ فقراء میں اور ایک حصّہ رشتہ داروں میں تقسیم کردیا جائے اور تیسرا حصّہ اپنے گھر والوں کو کھلا یا جائے۔

بہار شریعت میں ہے: ”عقیقہ۔۔کا گوشت فقرا اور عزیز و قریب دوست و احباب کو کچا تقسیم کر دیا جائے یا پکا کر دیا جائے یا ان کو بطورِ ضیافت و دعوت کھلایا جائے یہ سب صورتیں جائز ہیں۔“ (بہار شریعت، جلد 3، صفحہ 357، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

عقیقہ کا گوشت ولیمہ میں استعمال کرنے کے متعلق مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا: اگر کوئی شخص ولیمہ کے کھانے میں عقیقہ کا گوشت ملا کر مہمانوں کو کھلائے، تو ازروئے شرع اس کا کیا حکم ہے؟ توجواباً ارشاد فرمایا: ”عقیقہ کے گوشت کا وہی حکم ہے، جو قربانی کے گوشت کا حکم ہے۔ قربانی اور عقیقہ کی عبادت اللہ تعالی کے نام پر ذبح کر دینے سے ادا ہو جاتی ہے۔ گوشت عقیقہ اور قربانی کرنے والے کی ملکیت ہوتا ہے، اسے فروخت نہیں کر سکتا اور نہ کسی کام کے معاوضہ میں دے سکتا ہے، خود کھائے، دوسروں کو کھلائے، غریب و مالدار جس کو چاہے دے۔ فقہاء نے قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کو مستحب لکھا ہے، واجب کسی نے نہیں لکھا اور قربانی اور عقیقہ کا حکم ایک ہے، لہذا ولیمہ میں عقیقہ کا گوشت شامل کرنا اور کھلانا جائز ہے۔“ (وقار الفتاوی، جلد 3، صفحہ 138، مطبوعہ، بزم وقار الدین، کراچی)

مزید ایک مقام پر فرماتے ہیں: ”عقیقے میں صرف اللہ تعالیٰ کے نام پر جانور ذبح کردینے سے سنت ادا ہوجاتی ہے۔ گوشت عقیقہ کرنے والے کی ملکیت ہے مستحب یہ ہے کہ قربانی کی طرح اس کے بھی تین حصے کئے جائیں، ایک حصہ غرباء کو، ایک حصہ رشتہ داروں کو اور ایک حصہ خود کھانے کے لیے رکھ لیں۔ اور اگر سارا گوشت تقسیم کردیں یا سارا گوشت خود پکا کر کھالیں جب بھی عقیقہ ہوجائے گا۔ لہذا صورت مسئولہ میں اگر وہ عقیقہ کے گوشت رشتہ داروں کو کھلائے تو جائز ہے۔“ (وقار الفتاوی، جلد 3، صفحہ 140، مطبوعہ بزم وقار الدین، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: GUJ-0063

تاریخ اجراء: 13جمادی الاولی 1447ھ/ 05نومبر 2025ء