
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کے پاس گائے تھی جو اس نے پالنے کے لئے خریدی تھی۔ اب اس نے مجھے دی ہے اور یہ کہا ہے کہ اس گائے میں سے چار حصے میری طرف سے قربانی کرنا اور تین حصے آپ کے۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ صاحبِ نصاب ہونے کی وجہ سے مجھ پرقربانی واجب ہے تو کیا ان حصوں میں اپنی قربانی کی نیت کرنے سے میری قربانی ہوجائے گی یا مجھے الگ سے جانور خرید کر قربان کرنا ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں جب گائے کے مالک نے آپ کو شرعی طور پر جانور کے سات حصوں میں سے تین حصے مالک بنا کر دے دئیے اور آپ نے قبضہ بھی کر لیا ہے تو شرعاً آپ ان تین حصوں کے مالک شمار ہوں گے کہ گائے، بھینس، اونٹ وغیرہ زندہ جانور جو ناقابلِ تقسیم ہیں، ان کا کوئی حصہ تقسیم کئے بغیر ہبہ (گفٹ) کیا جائے تو اس کا ہبہ درست ہوجاتا ہے اور جس کو ہبہ کیا جائے، اس کے قبضہ کرتے ہی ہبہ تام و مکمل ہوجاتا ہےاور وہ اس حصہ کا مالک قرار پاتا ہے۔
اب جبکہ قبضہ کرتے ہی اس جانور کے تین حصوں میں آپ کی ملکیت ثابت ہوچکی، توقربانی واجب ہونے کی صورت میں ان تین حصوں میں سے ایک حصہ میں قربانی کی نیت کرکے قربان کرنے سے شرعاً آپ کی قربانی ادا ہوجائے گی، واجب قربانی کو ادا کرنے کے لئے الگ سے جانور خریدنے کی ضرورت نہیں کہ قربانی کے صحیح ہونے کے لئے جانور میں ملکیت کا ہونا ضروری ہے اور مذکورہ صورت میں آپ کی ملکیت موجود ہے۔
ناقابلِ تقسیم چیز کو تقسیم سے پہلے ہبہ کیا تو قبضہ کرتے ہی ہبہ تام ہوجائے گا اور موہوب لہ مالک قرار پائے گا۔ اس کے متعلق تنویر الابصار و درمختار میں ہے:
”(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (في) متعلق بتتم (محوز) مفرغ (مقسوم ومشاع لا) يبقى منتفعا به بعد أن (يقسم) كبيت وحمام صغيرين“
یعنی تقسیم اور علیحدہ کی ہوئی چیز میں کامل قبضہ سے ہبہ تام ہوجاتا ہے اور ایسی مشاع چیز میں کہ تقسیم کے بعد جو قابلِ انتفاع نہیں رہتی جیسے چھوٹا کمرہ اور چھوٹا حمام۔ (تنویر الابصار و در مختار، ملتقطاً، جلد5، صفحہ 690۔ 692، مطبوعہ: بیروت)
فتاوی خیریہ میں ایک سوال پوچھا گیا:
”اذا ملک زوجتہ نصف جمل ونصف بقرۃ ونصف غراس زیتون وربع بَدّ وشاۃ تملیکا شرعیاً بایجاب منہ وقبول منھا وقبضت الزوجۃ الانعام المذکورات بوضع یدہ علیھا کما قبضت العقار وتسلمت ذلک کلہ بعد التخلیۃ من زوجھا ثم مات الزوج ویرید وارثہ ان یجعل المملکات میراثا بینہ وبین الزوجۃ فھل حیث خرجت المذکورات عن ملکہ بتملیک صحیح لا تکون میراثا عنہ بل ھی للزوجۃ بالتملیک المذکور“
یعنی اگر شوہر نے ایجاب و قبول کے ذریعہ نصف اونٹ، نصف گائے، نصف زیتون کا باغ، اورزیتون پیسنے کا پتھر اور بکری کے چوتھائی حصے کا اپنی بیوی کو شرعی مالک بنایا اور بیوی نے ان مذکورہ جانوروں پر اپنا قبضہ کرلیا جیسے زمین پر قبضہ کیا جاتا ہے اور شوہر کی طرف سے تخلیہ کے بعد ان سب چیزوں کو بیوی نے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ پھر شوہر کا انتقال ہوگیا اور شوہر کا وارث چاہتا ہے کہ ان دی ہوئی چیزوں کو بیوی اور وارث کے درمیان میراث میں تقسیم کرے، تو جب یہ چیزیں تملیکِ صحیح کے ذریعہ شوہر کی ملکیت سے نکل چکی ہیں، تو کیا وہ اب اس کی میراث نہیں ہوں گی بلکہ وہ تملیکِ مذکور کے سبب زوجہ کی ملکیت ہوں گی؟
اس کے جواب میں علامہ خیر الدین رملی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:
”ھی ملک للزوجۃ المذکورۃ بالتملیک علی الوجہ المذکور ولیست میراثا عن المیت ھذا وقد تقرر ان ھبۃ المشاع الذی لا یحتمل القسمۃ صحیحۃ وما ذکر منہ سوی الغراس ان احتملھا بان امکن التساوی فیہ ولا فھو مما لا یقسم فتصح ھبۃ النصف منہ والحال ھذہ والبد مما لا یقسم کالطاحونۃ والحمام فتصح ھبۃ المشاع فیہ وکذاالجمل والبقرۃ والشاۃ مما لا یمکن قسمۃ الواحد منھا فصحت فیھا الھبۃ المذکورۃ“
یعنی مذکورہ طریقہ کار کے مطابق مالک بنانے سے یہ چیزیں بیوی کی ملک ہیں اور اس میت کی میراث نہیں بنیں گی اور بے شک یہ بات ثابت ہے کہ ناقابلِ تقسیم مشاع چیز کا ہبہ صحیح ہوتا ہےاور جو چیزیں ذکر کی گئی ان کا ہبہ بھی درست ہے، سوائے باغ کے بشرطیکہ وہ تقسیم کا احتمال رکھتا ہو کہ اس میں تساوی ممکن ہو ، ورنہ وہ بھی ناقابلِ تقسیم چیزوں سے ہوگا، تو اس کے نصف کا ہبہ بھی صحیح ہوگا اور زیتون پیسنے کا پتھر بھی ناقابلِ تقسیم اشیا سے ہے جیسے آٹا پیسنے کی چکی اور حمام، لہٰذا اس میں بھی مشاع کا ہبہ صحیح ہوگا، اسی طرح اونٹ، بیل اور بکری ان میں سے ہیں جن میں سے کسی کا بھی تقسیم ہونا ممکن نہیں، لہٰذا ان چیزوں میں مذکورہ ہبہ صحیح ہوا۔ (فتاوی خیریہ، ملتقطاً، جلد 2، صفحہ 110، مطبوعہ مصر)
فتاوی رضویہ میں ہے: ”تمامی ہبہ کے لئے واہب کا موہوب لہ کو شے موہوب پرقبضہ کاملہ دلانا شرط ہے۔ قبضہ کاملہ کے یہ معنی کہ وہ جائداد یا تو وقت ہبہ ہی مشاع نہ ہو (یعنی کسی اور شخص کی ملک سے مخلوط نہ ہو جیسے دیہات میں بغیر پٹہ بانٹ کے کچھ بسوے یا مکانات میں بغیر تقسیم جدائی کے کچھ سہام) اور واہب اس تمام کو موہوب لہ کے قبضہ میں دے دے، یا مشاع ہو تو اس قابل نہ ہو کہ اسے دوسرے کی ملک سے جدا ممتاز کرلیں تو قابل انتفاع رہے، جیسے ایک چھوٹی سی دکان دو شخصوں میں مشترک کہ آدھی الگ کرتے ہیں تو بیکار ہوئی جاتی ہے، ایسی چیز کا بلا تقسیم قبضہ دلادینا بھی کافی وکامل سمجھا جاتاہے، یا مشاع قابل تقسیم بھی ہو تو واہب اپنی زندگی میں جدا ومنقسم کرکے قبضہ دے دے کہ اب مشاع نہ رہی۔ یہ تینوں صورتیں قبضہ کاملہ کی ہیں۔ “ (فتاوی رضویہ، جلد19، صفحہ 219، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
فتاوی ولوالجیہ ومحیطِ رضوی وغیرہ میں ہے:
”لا يمكن تصحيح التضحية عنه إلا بإثبات الملك له في الشاة، ولن تثبت إلا بالقبض“
یعنی کسی شخص کی طرف سے قربانی شرعاً درست نہیں ہو سکتی مگر یہ کہ اس کے لیے (قربانی کے) جانور میں ملکیت ثابت ہو، اور (ہبہ میں ) ملکیت اس وقت تک ثابت نہیں ہو گی جب تک قبضہ نہ ہو جائے۔ (المحیط الرضوی، جلد 6، صفحہ 63، مطبوعہ: بیروت)
فتاوی امجدیہ میں ہے: ”قربانی کی قیمت پہلے ہی ادا کردینا ضرور نہیں، ہاں ملک ضروری ہے اور وہ حاصل۔ “ (فتاوٰی امجدیہ، جلد3، صفحہ 315، مکتبہ رضویہ، آرام باغ، کراچی)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”جانور قابلِ قسمت نہیں، جو شے ناقابلِ قسمت ہو، اس میں ہبہ مشاع صحیح ہے، تو تنہا یہی جانور کا مالک ہوگیا اور قربانی اس کی بلا دغدغہ صحیح ہوگئی۔ “ (فتاوی رضویہ، جلد20، صفحہ 375، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-13824
تاریخ اجراء: 07 ذوالقعدۃ الحرام 1446 ھ/05 مئی 2025 ء