قربانی کی کھال سے کوئی چیز تیار کر کے بیچنا

اپنی قربانی کی کھال سے کوئی چیز تیار کر کے بیچنا کیسا ؟

دارالافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ یہ مسئلہ تو معلوم ہے کہ اپنی قربانی کی کھال کو بیچ نہیں سکتے، البتہ اگر کوئی شخص اپنی قربانی کی کھال سے جوتے یا پرس بناکر پیسوں کے بدلے بیچ دے، تو کیا حکم ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں قربانی کی کھال سے جوتے یا پرس بنا کر پیسوں کے بدلے بیچنا جائز نہیں ہے۔

تفصیل اس میں یہ ہے کہ قربانی کی کھال کو باقی رکھ کر اپنے استعمال میں لانا یا ایسی کسی چیز سے بدلنا کہ جسے باقی رکھ کر نفع حاصل کیا جاتا ہو(مثلاً قربانی کی کھال کو کتاب، کپڑے، چٹائی وغیرہ سے بدلنا)، شرعاً جائز ہے کہ گویا یہ عین ہی سے نفع اٹھانا ہوا، البتہ اپنے ذاتی یا اہل و عیال کے فائدے کے لیے کسی ایسی چیز سے بدلنا جائز نہیں کہ جسے ہلاک کرکے نفع حاصل کیا جاتا ہو(مثلاً روپیہ پیسہ، کھانے پینے کی اشیاء وغیرہ سے بدلنا)، خواہ وہ عین کھال کو بدلنا ہو یا کھال سے بنی کسی چیز کو بدلنا کہ دونوں صورتوں میں یہ مال حاصل کرنے کی غرض سے تصرف کرنا ہے، جو کہ قربانی کے جانور کے کسی جزء سے جائز نہیں اور مسئولہ صورت میں بھی چونکہ قربانی کی کھال سے بنے جوتے وغیرہ کو ایسی چیز سے بدلنا پایا جارہا ہےکہ جسے ہلاک کرکے نفع حاصل کیا جاتا ہے(یعنی پیسوں سے)، لہذا اس طور پر بیچنا جائز نہیں ہے اور اگر کسی نے ایسا کیا، تو اُس پر لازم ہے کہ وہ اس رقم کو صدقہ کرے۔

قربانی کی کھال کو اپنے استعمال میں لانا یا ایسی چیز سے بدلنا جسے باقی رکھ کر نفع حاصل کیا جاتا ہو، شرعاً جائز ہے۔ جیسا کہ مبسوط سرخسی اور ہدایہ میں ہے:

والنظم للآخر: ”( ويتصدق بجلدها ) لأنه جزء منها ( أو يعمل منه آلة تستعمل في البيت ) كالنطع والجراب والغربال ونحوها، لأن الانتفاع به غير محرم ( ولا بأس بأن يشتري به ما ينتفع بعينه في البيت مع بقائه ) استحسانا، وذلك مثل ما ذكرنا لأن للبدل حكم المبدل“

ترجمہ: یعنی قربانی کی کھال کو صدقہ کردے کہ یہ اُسی جانور کا جزء ہے یا پھر اُس کی کھال سےگھر میں استعمال ہونے والے آلات بنائے جائیں مثلاً بچھونا، تھیلا، چھلنی جیسی چیزیں، کیونکہ کھالوں سے انتفاع حرام نہیں ہے۔ اور ان سے گھر میں استعمال کے لئے ایسی چیز خریدنا کہ جو بعینہ باقی رہیں، استحساناً اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی مثال ہماری ذکر کردہ چیزیں ہیں، کیونکہ بدل کاحکم مبدل منہ والا ہے۔(الھدایہ، جلد4، صفحہ360، مطبوعہ دار احياء التراث العربي، بيروت)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں: ”قربانی کے چمڑے کو خود بھی اپنے کام میں لاسکتا ہے، یعنی اس کو باقی رکھتے ہوئے اپنے کسی کام میں لاسکتا ہے مثلاً اس کی جانماز بنائے، چھلنی، تھیلی، مشکیزہ، دسترخوان، ڈول وغیرہ بنائے یا کتابوں کی جلدوں میں لگائے یہ سب کر سکتا ہے۔ چمڑے کا ڈول بنایا تو اسے اپنے کام میں لائے اُجرت پر نہ دے اور اگر اُجرت پر دے دیا تو اس اُجرت کو صدقہ کرے۔ قربانی کے چمڑے کو ایسی چیزوں سے بدل سکتا ہے جس کو باقی رکھتے ہوئے اس سے نفع اٹھایا جائے جیسے کتاب۔“ (بہارِ شریعت، جلد 03، صفحہ 346-345، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

قربانی کی کھال کو ایسی چیز سے بدلنا جسے ہلاک کرکے ذاتی نفع اٹھایا جائے، یہ جائز نہیں۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری، رد المحتار، بدائع الصنائع وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:

”و النظم للآخر“ ولا يحل بيع جلدها وشحمها ولحمها وأطرافها ورأسها وصوفها وشعرها ووبرها ولبنها الذى يحلبه منها بعد ذبحها بشئ لا يمكن الانتفاع به الا باستهلاك عينه من الدراهم والدنانير والمأكولات والمشروبات“

یعنی قربانی کے جانور کی کھال، چربی، گوشت، اعضاء، سر، اون، بال، وہ دودھ کہ جسے جانور ذبح کرنے کے بعد دوہا ہو، ایسی کسی بھی چیز سے بیع کرنا، جائز نہیں کہ جسے ہلاک کرکے نفع اٹھایا جاتا ہو، جیسا کہ دراہم و دینار، کھانے پینے کی اشیاء۔ (بدائع الصنائع، جلد05، صفحہ81، دار الكتب العلمية، بيروت)

قربانی کی کھال سے بنی اشیاء کو پیسوں کے بدلے بیچنا یا اجرت پر دینا جائز نہیں، جیسا کہ علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:

”وفي الدر المنتقى عن الظهيرية: وعمل الجلد جرابا وأجره لم يجز وعليه التصدق بالأجرة “

 یعنی درِ منتقی میں ظہیریہ کے حوالے سے منقول ہے کہ اگر کسی نے قربانی کے چمڑے پر عمل کرکے اُسے موزہ بنایا پھر اُس موزے کو آگے اجرت پر دے دیا تو ایسا کرنا اُس کے لیے جائز نہیں، اس پر لازم ہے کہ وہ اس اجرت کو صدقہ کردے۔ (رد المحتار، کتاب الاضحیۃ، جلد 06، صفحہ 329، مطبوعہ دار الفكر، بيروت)

سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں: ”(قربانی کی کھال کو) باقی رکھ کریا باقی رہنے والی چیز سے بدل کر اسے کرائے پر نہیں دے سکتا مثلاً کھال کی مشک بنائی یا اس سے کوئی برتن خریدا، اور اس مشک یا برتن کو کرایہ پر دیا یہ ناجائز ہے۔ اس کرائے کو تصدق کرنا ہوگا۔ “ (فتاوٰی رضویہ، جلد 20، صفحہ492، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

ممانعت کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ عینی علیہ الرحمۃ ”البنایہ شرح ہدایہ“ میں لکھتے ہیں:

”ای المعنٰی فی اشتراء ما لاینتفع بہ الا بعد استھلاکہ انہ تصرف علی قصد التمول، وھو قد خرج عن جھۃ التمول، فإذا تمولته بالبيع وجب التصدق؛ لأن هذا الثمن حصل بفعل مكروه، فيكون خبيثا فيجب التصدق“

 ترجمہ: ”یعنی ایسی چیزیں خرید نے کی ممانعت میں وجہ یہ ہے کہ ہلاک کرکے نفع کے حاصل کرنے کی صورت میں مال حاصل کرنے کی غرض سے تصر ف کرنا ہے، حالانکہ قربانی مال حاصل کرنے کی غرض سے خارج ہے۔ پس جب اس نے بیع کے ذریعے مال حاصل کرلیا تو اس پر تصدق واجب ہے کیونکہ یہ ثمن ایک مکروہ فعل سے حاصل ہوا ہے پس یہ ثمن خبیث ہوا، تو اس کا تصدق واجب ہوا۔ “ (البنایۃ شرح الھدایۃ، جلد 12، صفحہ 54-55، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر : OKR-0153

تاریخ اجراء : 28جمادی الاولی1447ھ/20نومبر 2025 ء