
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے معاشرے میں یہ رواج ہے کہ جس شخص کی اولاد نہ ہو تو وہ کسی کا بچہ گود لے لیتا ہے، پھر گود لینے کے بعد بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ گود لینے والا چاہتا ہے کہ میرے بعد اس بچے کو کوئی پریشانی نہ ہو اس لئے وہ اپنی مرضی اور رضامندی سے اپنی کچھ متعین جائیداد اس نابالغ بچے کو ہبہ کردیتا ہے۔ نابالغ بچے کا جو حقیقی والد ہے وہ بھی موجود ہوتا ہے مگر حقیقی والد جب اپنے بچے کو کسی کے ہاں پرورش کے لیے اس کے قبضے میں دے دیتا ہے تو اس بچے سے لاتعلق ہوجاتا ہے، وہ یہ سمجھتا ہے کہ اب مجھ پر اس بچے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، ساری ذمہ داری گود لینے والے کی ہے کہ اسی کے قبضے میں ہی بچہ ہے، اس لئے گود لینے والا شخص جب اپنی کوئی جائیداد اس نابالغ کے نام ہبہ کرواتا ہے تو حقیقی والد کا کوئی قبضہ نہیں دیا جاتا۔ سوال یہ ہے کہ حقیقی والد کے قبضے کے بغیر کیا نابالغ اس جائیداد کا مالک بنے گا جو گود لینے والے نے اس کے نام ہبہ کی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں مفتیٰ بہ قول کے مطابق پرورش کرنے والے نے جو متعین جائیداد نابالغ کو ہبہ کی ہے، نابالغ اس جائیداد کا مالک بن جائے گا، اگرچہ وہ جائیداد حقیقی والد کے قبضے میں نہ دی جائے بلکہ گود لینے والے کے قبضے میں ہی رہے، کیونکہ جس کو نابالغ پرولایت حاصل ہو، اس کے محض عقد ِہبہ کرتے ہی نابالغ مالک بن جاتا ہے، اس کے ولی کا قبضہ، نابالغ کا قبضہ شمار ہوتا ہے۔ یہاں پر بھی پرورش کرنے والا مفتیٰ بہ قول کے مطابق، باپ کی موجودگی میں بھی نابالغ کی طرف سے قبضہ کا ولی قرار پاتا ہے اور اس کی طرف سے ہبہ پرقبضہ کرسکتا ہے، لہذا نابالغ اس جائیداد کا مالک بن جائے گا۔
تفصیل اس میں یہ ہےکہ پرورش کرنے والاجیسے نابالغ کا بھائی، ماں یا کوئی اجنبی، کیا نابالغ کے باپ کی موجودگی میں نابالغ کی طرف سے قبضہ کا ولی بن سکتا ہے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے۔ بعض مشائخ کرام جیسے امام فخرالاسلام علی البزدوی رحمہ اللہ کامؤقف یہ ہے کہ جب نابالغ، ان کی پرورش میں ہے تو یہ افراد نابالغ کو دیے جانے والے ہبہ پر بھی قبضہ کرسکتے ہیں اگرچہ باپ موجودہو، جیسا کہ اگر نابالغہ کا نکاح کسی سے کردیا جائے اور نابالغہ اس کے پاس بھیج بھی دی جائے تو اب باپ کی موجودگی میں بھی نابالغہ کا شوہر، نابالغہ کو دیے جانے والے ہبہ پر قبضہ کرسکتا ہے، کیونکہ نابالغہ اس کی پرورش میں ہوتی ہے۔ بعض مشائخ کرام جیسے امام شمس الائمہ سرخسی رحمہ اللہ کا مؤقف یہ ہے کہ نابالغہ کا شوہر تو باپ کی موجودگی میں نابالغہ کے ہبہ پرقبضہ کر سکتا ہے مگر دیگر افراد باپ کی موجودگی میں نابالغ کے ہبہ پرقبضہ نہیں کرسکتے۔ امام قاضی خان رحمہ اللہ نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے اور اسی کو صحیح فرمایا ہے کہ جس کی عیال میں بھی نابالغ ہو وہ نابالغ کو دیے گئے ہبہ پر قبضہ کرسکتا ہے اگرچہ باپ موجود ہو۔اسی قول کوعلامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ نے ترجیح دی اور امام اہلسنت امام احمدرضا خان رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو ترجیح دے کر اسی کے مطابق فتوی دیا ہے۔
اس تفصیل کے دلائل:
جسے نابالغ پر ولایت ہو، اس کے محض عقدِہبہ سے ہی ہبہ مکمل ہوجاتا ہے۔
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:”(ھبۃ من لہ ولایۃ علی الطفل فی الجملۃ تتم بالعقد) لو الموھوب معلوما و کان فی یدہ أو ید مودعہ، لأن قبض الولی ینوب عنہ، و الأصل أن کل عقد یتولاہ الواحد یکتفی فیہ بالایجاب
ترجمہ: جسے بھی بچے پرولایت حاصل ہو، اس کا بچے کو ہبہ کرنا، محض عقد سے ہی مکمل ہوجاتا ہےجبکہ جو چیز ہبہ کی جا رہی ہے وہ معلوم ہے اور ہبہ کرنے والے کے قبضہ میں ہو یا اس کے مودَع کے قبضہ میں ہو، کیونکہ ولی کا قبضہ ہی بچے کی طرف سے قبضہ کہلائے گا۔ اس میں قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ عقد جو ایک شخص سے ہی مکمل ہوجاتا ہے، اس میں ایجاب کردینا ہی کافی ہے۔ (تنویر الابصار مع الدر المختار، کتاب الھبۃ، جلد 8، صفحہ 498، مطبوعہ بیروت)
پرورش کرنے والا، نابالغ کے باپ کی موجودگی میں نابالغ کی طرف سے قبضہ کرسکتا ہے یا نہیں، اس کے بارے میں محیط برہانی میں ہے:
فمن المشايخ من سوى بين الزوج و الجد و الأم و الأخ الذی يعوله و قالوا: يصح القبض من هؤلاء على الصغير، و ان كان الأب حاضرا، و ما ذكر من الشرط وقع اتفاقا فی الكتب و اليه ذهب الشيخ الامام الأجل الزاهد فخر الإسلام علی البزدوی و منهم من فرق بين الزوج و غيره، و قال يصح قبض الهبة عليها من الزوج حال حضرة الأب و لا يصح قبض غيره حال حضرة الأب و ان كان الصغير فی عياله، و اليه ذهب الشيخ الامام شمس الأئمة السرخسی، وجه ما ذهب اليه فخر الاسلام: أن الزوج انما ملك القبض حال حضرة الأب بسبب العول موجود فی حق هؤلاء۔
ترجمہ: بعض مشائخ رحمھم اللہ نےنابالغ کی پرورش کرنے والوں میں شامل شوہر، دادا، ماں اور بھائی، سب کا ایک ہی حکم بیان فرمایا ہےکہ نابالغ کی طرف سے ان افرادکا قبضہ درست ہے اگرچہ نابالغ کا باپ موجود ہو۔کتب فقہ میں جو یہ شرط ذکرکی گئی ہے (کہ باپ، باپ کا وصی، دادا، دادا کا وصی نہ ہوں تو پرورش کرنے والے نابالغ کی طرف سے قبضہ کرسکتے ہیں) یہ شرط اتفاقی ہے۔ اسی کو شیخ، امام اجل فخر الاسلام علی بزدوی رحمہ اللہ نے اختیار فرمایا۔ بعض مشائخ رحمھم اللہ نے شوہر اور دیگر پرورش کرنے والے افراد میں فرق کیا ہے اور فرمایا: باپ کی موجودگی میں نابالغہ کی طرف سے اس کے شوہر کا قبضہ کرنا تو درست ہے مگر دیگر افراد کا باپ کی موجودگی میں نابالغ کی طرف سے قبضہ کرنا درست نہیں ہے اگرچہ نابالغ ان کی پرورش میں ہو۔ اس مؤقف کو شیخ امام شمس الائمہ سرخسی رحمہ اللہ نے اختیار فرمایا ہے۔ امام فخر الاسلام رحمہ اللہ کے مؤقف کی وجہ یہ ہے کہ شوہر کو، باپ کی موجودگی میں نابالغہ کی طرف سے قبضہ کرنے کی اجازت ملنے کا سبب، نابالغہ کی پرورش کرنا ہے اور یہی سبب دیگر افرادکے حق میں بھی موجود ہے۔ (المحیط البرھانی، کتاب الھبۃ، جلد 6،صفحہ 252، مطبوعہ بیروت)
فتاوی قاضی خان میں ہے:
و لو کان الصغیر فی عیال الجد اوالاخ او الام او العم، فوھب لہ ھبۃ، فقبض الھبۃ من کان الصغیر فی عیالہ والاب حاضر، اختلف المشائخ رحمھم اللہ تعالٰی فیہ، قال بعضھم: لایجوز، و الصحیح ھو الجواز کما لو قبض الزوج و ابوالصغیرۃ حاضر۔۔۔۔ و کذا لو کان الصغیر فی عیال اجنبی، کان لذلک الاجنبی حق القبض۔
ترجمہ: اگر نابالغ، دادا یا بھائی یا ماں یا چچا کی پرورش میں ہواور اسے کوئی چیز ہبہ کی جائے اور نابالغ کے باپ کی موجودگی میں، ہبہ پرقبضہ وہ کرے جس کی پرورش میں نابالغ ہو، تو اس میں مشائخ رحمھم اللہ کا اختلاف ہے،بعض نے فرمایا یہ جائز نہیں ہے جبکہ صحیح یہ ہے کہ یہ جائز ہے جس طرح نابالغہ کو کوئی چیز ہبہ کی گئی اور اس کے شوہر نے نابالغہ کے باپ کی موجودگی میں قبضہ کیا (تو جائز ہے۔)۔۔۔۔ اسی طرح اگر نابالغ، اجنبی کی پرورش میں ہو تو اس اجنبی کو بھی قبضے کا حق حاصل ہے۔ (فتاوی قاضی خان جلد 3، صفحہ 151، مطبوعہ بیروت)
رد المحتار میں ہے:
لو قبض لہ من ھو فی عیالہ مع حضور الاب، قیل لایجوز و قیل یجوز، و بہ یفتی۔ مشتمل الاحکام۔ و الصحیح الجواز کما لوقبض الزوج و الاب حاضر۔ خانیہ۔ و الفتوی علی انہ یجوز۔ اسروشنی۔ فقد علمت ان الھدایۃ و الجوھرۃ علی تصحیح عدم جواز قبض من یعولہ مع عدم غیبۃ الاب، و بہ جزم صاحب البدائع، و قاضیخان و غیرہ من اصحاب الفتاوی صححوا خلافہ، و کن علی ذکر مما قالوا لایعدل عن تصحیح قاضیخان، فانہ فقیہ النفس، و لا سیما و فیہ ھنا نفع للصغیر، فتامل عند الفتوی۔
ترجمہ: اگر بچے کے ہبہ پرباپ کی موجودگی میں، اس نے قبضہ کیا، جس کی پرورش میں بچہ ہے تو ایک قول کے مطابق یہ جائز نہیں ہے اور ایک قول کے مطابق جائز ہے اور اسی پر فتوی ہے۔ (اسی طرح مشتمل الاحکام میں ہے)۔ صحیح یہ ہے کہ جائز ہے جس طرح باپ کی موجودگی میں نابالغہ کا شوہر قبضہ کرسکتا ہے۔ (اسی طرح خانیہ میں ہے)۔ فتوی اس پر ہے کہ یہ جائز ہے۔ (علامہ اسروشنی رحمہ اللہ نے یہ ذکر کیا ہے)۔ تو نے جان لیا کہ ہدایہ اور جوہرہ میں اس قول کی تصحیح کی گئی ہے کہ جب باپ غائب نہ ہو، موجود ہو تو پرورش کرنے والے کا قبضہ کرنا، جائز نہیں ہے۔ صاحب بدائع نے اسی پر جزم فرمایا۔ امام قاضی خان اور دیگر اصحاب فتاوی نے اس کے خلاف کو صحیح قراردیا ہے، اور تجھے مشائخ کا وہ قول یاد رہے کہ امام قاضی خان رحمہ اللہ کی تصحیح سے عدول نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ فقیہ النفس ہیں، خصوصا یہاں تو بچے کا نفع بھی ہے۔ لہذا فتوی دیتے وقت غوروفکرکریں۔ (رد المحتار جلد، کتاب الھبہ، جلد 8، صفحہ 500، مطبوعہ بیروت)
العقود الدریہ میں ہے:
(أقول) فقد اختلف التصحيح كما ترى و أنت على علم مما قاله العلامة قاسم من أن قاضی خان من أجل من يعتمد على تصحيحه، لأنه فقيه النفس و قد صحح جواز قبض من يعول الصغير و لو مع حضرة الأب لأنه نفع محض للصغير و يشهد له صحة قبول الصغير بنفسه اذا كان مميزا و لو كان الأب حاضرا وأيضا قد وجدت دلالة تفويض الأب أمور الصبی الى من يعوله كما مر فی الزوجة الصغيرة بعد الزفاف فليكن العمل على هذا القول و لا سيما و قد صحح بلفظ الفتوى و هی آكد ألفاظ التصحيح وفی القهستانی عن المضمرات أنه المختار و المضمرات من الشروح فانه شرح القدوری و ظاهر كلام الشيخ علاء الدين اختياره حيث نقل تصحيحه عن البرجندی مستدركا على ظاهر عبارة متن التنوير
ترجمہ: میں کہتا ہوں: تصحیح میں اختلاف ہوگیا جیساکہ تو نے دیکھا، اور تجھے وہ بھی معلوم ہے جو علامہ قاسم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ قاضی خان رحمہ اللہ ان عظیم فقہاء میں سے ہیں جن کی تصحیح پر اعتماد کیا جاتا ہے، کیونکہ وہ فقیہ النفس ہیں، انہوں نے ہی اس کی تصحیح کی کہ نابالغ کی پرورش کرنے والے کا نابالغ کے ہبہ پرقبضہ کرنا،جائز ہے اگرچہ باپ موجود ہو، کیونکہ یہ نابالغ کیلئے محض نفع والا معاملہ ہے۔ اس کی تائید اس سےبھی ہوتی ہے کہ نابالغ اگر سمجھدار ہو تو وہ خود اس کا قبضہ کرنا بھی درست ہے، اگرچہ باپ موجود ہو، نیز دلالۃً یہ بھی ثابت ہے کہ باپ، بچے کے سارے معاملات پرورش کرنے والے کو ہی سونپ دیتا ہے، لہذا اسی قول پر عمل ہونا چاہیے، خصوصا جبکہ اس قول کی تصحیح ”فتوی“ کے لفظ سے کی گئی ہے جو کہ تصحیح کے تمام الفاظ میں سے زیادہ تاکید والا ہے۔ قھستانی میں مضمرات کے حوالے سے ہے کہ یہی قول مختار ہے اور مضمرات شروحات میں سے ہے کیونکہ یہ قدوری کی شرح ہے اور شیخ علاء الدین رحمہ اللہ کے قول سے بھی یہی ظاہر ہے کہ انہوں نے اسی قول کو اختیار کیا ہے کیونکہ انہوں نے تنویرالابصار کے متن کی عبارت کے ظاہر پر استدراک کرکے امام برجندی رحمہ اللہ سے اسی قول کی تصحیح نقل کی ہے۔ (العقود الدریہ،کتاب الھبۃ جلد 2، صفحہ 155، مطبوعہ بیروت)
امام اہلسنت امام احمدرضاخان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”نابالغہ نواسی اگر نانی کے پاس رہتی تھی،نانی کے قبضہ میں تھی،تو جو ہبہ اس کیلئے ہوا،نانی کا اس پر قبضہ جائز وموجب تمامی ہبہ تھا۔اگر ہبہ مشاع نہ ہوتا تو اس صورت میں باپ کا اسی شہر میں موجود ہونا، نانی کے قبضہ کا مانع نہیں، یہی صحیح ہے اور اسی پر فتوی، ہاں اگر نواسی اس کے قبضہ میں نہ ہوتو باپ کے ہوتے نانی وغیرہ کسی کا قبضہ جائز نہیں۔“ (فتاوی رضویہ جلد 19، صفحہ 339، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابومحمد محمد فراز عطاری مدنی
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: OKR- 0007
تاریخ اجراء: 09 ذو الحجہ 1446ھ / 06 جون 2025ء