مقروض کو قیامت کے دن نمازیں دینی ہوں گی؟

مقروض نے قرض ادا نہ کیا تو قیامت کے دن نمازیں دینی پڑیں گی ؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر مقروض نے قرض ادا نہ کیا تو کیا اسے قرض کے بدلے قیامت کے دن اپنی با جماعت نمازیں دینی پڑیں گی؟ کیا حدیث پاک میں اس کا ذکر آیا ہے؟ رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

اگر کوئی شخص قرض لیتا ہے تو اسے چاہیے کہ جلد از جلد اسے لوٹانے کی کوشش کرے، مقررہ میعاد پوری ہو جانے کے باوجود بلا وجہ قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا یا جان بوجھ کر قرض کے پیسے دبا لینا ناجائز و گناہ اور ظلم ہے، اور حدیث پاک سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن ظالم کی نیکیاں مظلوم کو اور نیکیاں نہ ہونے کی صورت میں مظلوم کے گناہ ظالم کو دلوائے جائیں گے۔ نیز کئی معتمد و مستند علمائے دین نے اپنی کتب میں مذکورہ بات بھی ذکر کی ہے کہ جو دنیا میں کسی کا مال ناحق دبائے گا، اسے قیامت کے دن اس کے بدلے اپنی با جماعت نمازیں دینی پڑ جائیں گی۔ البتہ اسے بطور حدیث بیان نہیں کیا گیا، نہ ہی خاص ان الفاظ کے ساتھ کوئی حدیث مل سکی ۔

صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ، مسند احمد وغیرہ کثیر کتب حدیث میں ہے:

عن أبي هريرة رضي اللہ عنه أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: مطل الغني ظلم

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: مالدار کا (قرض کی ادائیگی میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔(صحيح البخاري، كتاب الحوالات، باب في الحوالة... الخ، جلد 2، صفحہ 799، حدیث 2166، دار ابن كثير، دمشق)

علامہ زین الدین محمد عبد الرؤوف مناوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1031ھ/1622ء) اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں:

تسويف القادر المتمكن من اداء الدين الحال ظلم منه لرب الدين فهو حرام بل كبيرة

ترجمہ: ایسا قادر شخص جو ادائیگی کی استطاعت رکھتا ہو اس کا دینِ حال (قرضہ) ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنا، اس کی طرف سے قرض خواہ پر ظلم ہے، پس یہ حرام ہے بلکہ کبیرہ گناہ ہے۔(التيسير بشرح الجامع الصغير، حرف الميم، جلد 2، صفحہ 376، مكتبة الإمام الشافعي، الرياض)

صحیح بخاری، صحیح ابن حبان، مسند احمد اور مشکوۃ المصابیح کی حدیث پاک ہے:

و اللفظ للبخاری عن أبي هريرة رضي اللہ عنه قال:قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: من كانت له مظلمة لأحد من عرضه أو شيء فليتحلله منه اليوم، قبل أن لا يكون دينار ولا درهم، إن كان له عمل صالح أخذ منه بقدر مظلمته، وإن لم تكن له حسنات أخذ من سيئات صاحبه فحمل عليه

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جس شخص کا کسی پر کوئی ظلم ہو (خواہ) آبرو کا یا کسی اور چیز کا، تو اسے چاہیے کہ اس سے آج ہی اس کی معافی لے لے، اس سے پہلے کہ (وہ دن آئے جب اس کے پاس) نہ دینار ہوگا اور نہ درہم۔ اگر اس ظالم کے پاس نیک عمل ہوں گے تو اس کے ظلم کی مقدار اس سے لے لیے جائیں گے، اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو اس مظلوم کے گناہوں میں سے کچھ لے کر اس پر ڈال دیے جائیں گے۔(صحيح البخاري، كتاب المظالم، باب من كانت له مظلمة عند الرجل... الخ، جلد 2، صفحہ 865، حدیث 2317، دار ابن كثير، دمشق)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1391ھ/1971ء) اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: ”یعنی جس نے اپنے بھائی مسلمان کی ناحق بے آبروئی کی ہو یا اس کا مال مارا ہو یا ناحق دبایا ہو یا کسی اور طرح کا اس پر ظلم کیا ہو (اسے چاہیے کہ اس سے آج ہی اس کی معافی لے لے) یعنی اپنی اور اس کی موت سے پہلے اس سے معافی لے لے، آج سے مراد دنیا کے دن ہیں۔ ... (اس سے پہلے کہ نہ دینار ہو اور نہ درہم) اس سے مراد قیامت کا دن ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو روپیہ پیسہ خرچ کر کے معافی ہو سکتی ہے مگر قیامت میں یہ صورت ناممکن ہے، وہاں نہ تو کسی کے پاس مال ہوگا اور نہ مال کے ذریعہ معافیاں حاصل ہوں گی۔ (اس کے ظلم کی مقدار اس کے نیک عمل لے لیے جائیں گے) اور مظلوم کے نامہ اعمال میں لکھ دیے جائیں گے، جیسے ظالم کے صدقات، خیرات وغیرہ شامل ہیں کہ تین پیسہ قرضے کے عوض مقروض کی سات سو نمازیں قرض خواہ کو دلوا دی جائیں گی، نمازیں بھی وہ جو باجماعت ادا کی ہوں۔ اگر قرض خواہ کافر ہے تو اس کا عذاب ہلکا کر دیا جائے گا یا اس کے گناہ اس ظالم پر ڈال دیے جائیں گے۔ (اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی) یا اس طرح کہ ظالم کے پاس نیکیاں ہوں ہی نہیں یا اس طرح کہ نیکیاں تو تھیں مگر حقوق والے لے گئے، اس کے پاس سے ختم ہو گئیں مگر حقوق باقی رہے۔“ (مرآۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 456، مکتبہ اسلامیہ، لاہور)

امام ابو القاسم عبد الکریم بن ھوازن قشیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 465ھ/ 1072ء) فرماتے ہیں:

قيل: إن الدانق من الفضة يؤخذ به يوم القيامة سبعمائة صلاة مقبولة فتعطى إلى الخصم

ترجمہ: کہا گیا ہے کہ قیامت کے دن چاندی کا ایک دانق (درہم کا چھٹا حصہ بھی اگر کسی پر آتا ہوا تو اس) کے بدلے سات سو مقبول نمازیں لے کر خصم (مظلوم مدعی) کو دے دی جائیں گی۔(شرح اسماء اللہ الحسنی، صفحہ 246، دار آزال، بیروت)

بعد کے تقریباً علمائے کرام نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہی کے حوالے سے یہ بات اپنی کتب میں نقل کی ہے، جیسے کہ امام ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 671ھ) نے التذکرہ میں، علامہ ابو حفص عمر بن علی ابن ملقن شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 804ھ) نے التوضيح میں، علامہ حافظ الدین محمد بن محمد بزّازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 827ھ) نے فتاوی بزازیہ میں، علامہ عبد الرحمن بن عبد السلام صفوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 894 ھ) نے نزہۃ المجالس میں، شارح بخاری علامہ احمد بن محمد قسطلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 923ھ) نے مواہب اللدنیہ میں، علامہ زین الدین بن ابراہیم ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 970ھ) نے الاشباہ میں۔ یوں ہی علامہ علاؤ الدین محمد بن علی حصکفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1088ھ/1677ء) لکھتے ہیں:

جاء أنه يؤخذ لدانق ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة

ترجمہ: یہ بات (نقل ہوتے) آئی ہے کہ دانق (درہم کے چھٹے حصے کے برابر مال) کی وجہ سے سات سو باجماعت نمازوں کا ثواب لے لیا جائے گا۔ (الدر المختار شرح تنویر الابصار، کتاب الصلاة، صفحہ 62، دار الکتب العلمیة، بیروت)

علامہ ابن عابدین سید محمد امین بن عمر شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1252ھ/ 1836ء) اس کے تحت لکھتے ہیں:

جاء أي في بعض الكتب أشباه عن البزازية، ولعل المراد بها الكتب السماوية أو يكون ذلك حديثا نقله العلماء في كتبهم

ترجمہ: "(نقل ہوتے)آئی ہے" یعنی یہ بات بعض کتابوں میں آئی ہے، یہ الاشباه میں بزازیہ کے حوالے سے ہے، اور شاید اس سے مراد آسمانی کتابیں ہوں، یا پھر یہ کوئی حدیث ہو جسے علما نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، جلد 1، صفحہ 439، دار الفکر، بیروت)

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ/1921ء) سے قرضے کی ادائیگی میں سستی اور جھوٹے حیل و حجت کرنے والے ایک شخص کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: ”زید فاسق و فاجر، مرتکب کبائر، ظالم، کذاب، مستحق عذاب ہے۔ اس سے زیادہ اور کیا القاب اپنے لئے چاہتا ہے، اگر اس حالت میں مرگیا اور دین لوگوں کا اس پر باقی رہا (تو) اس کی نیکیاں اُن کے مطالبہ میں دی جائیں گی اور کیونکر دی جائیں گی، تقریباً تین پیسہ دین کے عوض سات سو نمازیں باجماعت،

کما فی الدر المختار و غیرہ من معتمدات الاسفار و العیاذ باللہ العزیز الغفار

(جیسا کہ درمختار وغیرہ معتمد کتب میں یہ مذکور ہے۔ اللہ عزیز و غفار کی پناہ۔) جب اس کے پاس نیکیاں نہ رہیں گی، ان کے گناہ ان کے سرپر رکھے جائیں گے، ویلقی فی النّار اور آگ میں پھینک دیا جائے گا، یہ حکم عدل ہے، اور اللہ تعالی حقوق العباد معاف نہیں کرتا جب تک بندے خود معاف نہ کریں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 25، صفحہ 69، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: FAM-866

تاریخ اجراء: 05 ربيع الاول 1447ھ/30 اگست 2025ء