کسی کی زکوٰۃ کی رقم خود استعمال کرلینا کیسا؟

کسی کی زکوٰۃ کی رقم خود استعمال کر لی تو کیا اپنے پاس سے اتنی رقم زکوٰۃ میں دینی ہوگی؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے ایک عزیز نے اپنی ایک سال کی پیشگی زکوۃ کی رقم مجھے دے دی اور اپنا وکیل بناتے ہوئے کہا کہ پندرہ شعبان کو میرا سال ختم ہوجاتا ہے، لہذا اس سے پہلے آپ کے پاس جو بھی کوئی زکوۃ کا مستحق شخص آئے اس کی ان پیسوں سے مدد کردینا۔ دورانِ سال مجھے پیسوں کی ضرورت پڑ ی، اس وقت میرے پاس وہی زکوۃ کے پیسے پڑےتھے، تو میں نے ان پیسوں میں سے کچھ پیسے ذاتی کام کے لیے اس نیت سے خرچ کردیے کہ بعد میں اپنے پیسوں سے اتنے پیسے اپنے عزیز کی زکوۃ کے ادا کر دوں گا۔مجھے یہ رہنمائی چاہیے تھی کہ میرا اس طرح کرنا کیسا ہے؟نیز بعد میں جب میں اتنے پیسے ادا کر دوں گا، تو کیا میرے عزیز کی زکوۃ ادا ہوجائے گی یا نہیں؟ نوٹ: میرے عزیز کو اس بات کا علم نہیں ہے اور نہ ہی اس کی طرف سے ایسی کوئی اجازت تھی، نیز میں خود صاحب نصاب ہوں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

قوانین شرعیہ کے مطابق زکوۃ کی ادائیگی کے وکیل کے پاس مالِ زکوۃ امانت ہوتا ہے، اگر اس نے مالِ زکوۃ کو خود ہلاک کردیا یا اس کی غفلت و کوتاہی سے ہلاک ہوگیا، تو اس پر اتنے مال کا تاوان مؤکل کو دینا لازم ہوتا ہے، اگر وکیل، مؤکل کو تاوان دینے کی بجائے اتنے پیسے بطور زکوۃ کسی شرعی فقیر کو دید ے، تو اس سے مؤکل کی زکوۃ ادا نہیں ہوگی، بلکہ وہ وکیل کی طرف سے صدقہ ہوگا۔ پوچھی گئی صورت میں اولاً آپ کے لیے یہ جائز ہی نہیں تھا کہ آپ زکوۃ کے پیسوں کو ذاتی کام میں خرچ کرتے، لیکن آپ نے ایسا کر لیا ہے، لہذا اب آپ اپنے اس فعل سے توبہ کریں اور اپنے مؤکل کو اتنے پیسے بطور تاوان ادا کریں، پھر آپ کا مؤکل دوبارہ آپ کو وکیل بنادے، تو آپ اس کی زکوۃ ادا کرسکتے ہیں۔

وکیل کےمال زکوۃ کو ذاتی کام میں خرچ کرنے کے حوالے سےرد المحتار علی در مختار میں ہے:

”وكيل بدفع الزكاة إذا أمسك دراهم الموكل ودفع من ماله ليرجع ببدلها في دراهم الموكل صح. بخلاف ما إذا أنفقها أولا على نفسه مثلا ثم دفع من ماله فهو متبرع“

ترجمہ: زکوۃ دینے کا وکیل، مؤکل کے دئیے ہوئے دراہم اپنے پاس رکھ لے اور اپنے مال سے زکوۃ اس نیت سے ادا کرے کہ مؤکل کے دئیے ہوئے دراہم سے لے لے گا، تو یہ صحیح ہے، بخلاف اس صورت کے کہ وکیل اولاً مؤکل کے دئیے ہوئے دراہم اپنے اوپر خرچ کردے پھر اپنے مال سے زکوٰۃ ادا کرے، (تو اس صورت میں زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی) پس وکیل متبرع قرار پائے گا۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الزکاۃ، ج 2، ص 269، 270،دار الفکر، بیروت)

صدر الشریعہ، بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”اگر وکیل نے پہلے اس روپیہ کو خود خرچ کر ڈالا بعد کو اپنا روپیہ زکاۃ میں دیا تو زکاۃ ادا نہ ہوئی بلکہ یہ تبرع ہے اور مؤکل کو تاوان دے گا۔(بہار شریعت، جلد 1، حصہ 5، صفحہ 888، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

وکیل کے پاس مالِ زکوۃ امانت ہوتا ہے، عمدا یا اس کی غفلت و کوتاہی کے سبب ہلاک ہوجائے تو اس پر تاوان لازم ہوتا ہے، چنانچہ مفتی اعظم پاکستان ،مفتی محمد وقار الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ”کوئی بھی ایسوسی ایشن جو زکوۃ و صدقات وغیرہ جمع کرتی ہے وہ دینے والوں کی وکیل ہوتی ہے، خود مالک نہیں ہوتی،جس طرح کوئی شخص زکوۃ نکال کر اپنے پاس رکھے،جب تک مصارف زکوۃ میں خرچ نہیں کردیتا، زکوۃ ادا نہیں ہوتی ہے۔ اسی طرح وکیل بھی جب تک زکوۃ مستحقین میں تقسیم نہ کردے، زکوۃ ادا نہیں ہوتی ہے۔ لہذا صورت مسئولہ میں ایسوسی ایشن وکیل تھی، اس کی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے اسٹاف نے غبن کیا جتنا روپیہ غبن کیا گیا ہے، اس کا تاوان ایسوسی ایشن کے ممبران پر واجب ہے۔اور جن لوگوں کا روپیہ غبن ہوا ہے ان کی زکوۃ ادا نہیں ہوئی۔ ایسوسی ایشن کے ممبران تاوان، زکوۃ دینے والوں کو ادا کریں، وہ پھر دوبارہ نیتِ زکوۃ سے خود مستحقین میں تقسیم کریں یا ایسو سی ایشن کو وکیل بناکردیں۔(وقار الفتاوی، جلد 02، صفحہ 410، بزم وقار، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: OKR- 0068

تاریخ اجراء: 03 ربیع الاول 1447ھ/28 اگست 2025ء