
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید نے واٹس ایپ پر ایک شادی گروپ بنایاہواہے۔ جس میں تقریباً 800 سے زائدافراد ایڈ ہیں۔اس گروپ میں ایڈتو کوئی بھی ہوسکتا ہے ،البتہ کوئی ممبر اس گروپ میں میسج نہیں کرسکتا۔اگر کوئی ممبر اپنی پروفائل شیئر کرنا چاہتا ہے، تو اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ ممبر ایڈمن سے پرسنل پر رابطہ کرکے اسےاپنی پروفائل سینڈ کردیتا ہے ۔ایڈمن اس پروفائل کی سیٹنگ وغیرہ کرکے ، ایک کوڈ لگاکر اس فائل کو اپنے پاس سیو کرلیتاہے اور ہر 15دن بعداسے گروپ میں شیئر کرتا رہتا ہےاورچھ ماہ تک یہ پروفائل شیئر کی جاتی ہے۔اس سارے پروسیس کے بدلے ایڈمن اس ممبر سے 500 روپے اجرت کے طور پر لیتا ہے۔ آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا ایڈمن کا اس پروسیس کے بدلے 500 روپے لینا جائز ہے؟
نوٹ:پروفائل میں لڑکے / لڑکی کی عمر،تعلیم،شہراورجاب وغیرہ کی صرف معلومات درج ہوتی ہیں۔کسی لڑکی کی تصویر شیئر نہیں کی جاتی ۔
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں بیان کردہ طریقہ کار کے مطابق پروفائل شیئر کرنے کے بدلے ایڈمن کا ممبر سے پیسے لینا شرعاًجائز ہے۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ ایڈمن کا کسی ممبر کی پروفائل کی سیٹنگ وغیرہ کرنا ،اس پر کوڈ لگانا اور چھ ماہ تک ہر 15 دن بعد اسے اپنے گروپ میں شیئر کرنے کے بدلے طے شدہ اجرت لیناعقدِاجارہ ہے۔اجارے کے درست ہونے کے لیے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ جس کام پر اجارہ کیا جارہا ہے، وہ کام شریعت کی نظر میں منفعت ِمقصودہ ہو، عقل وشعور رکھنے والے لوگ اسے قابلِ اجارہ کام سمجھتے ہوں۔ ہمارے زمانے میں ممبر کی پروفائل پر کام کرکے اسے گروپ میں شیئر کرتے رہنا منفعت مقصودہ ہے اور اس کام کے عوض اجر ت کا لین دین لوگوں میں رائج بھی ہے،لہذا اس طے شدہ کام کے بدلے ایڈمن کا ممبر سےمقررہ اجرت لینا جائز ہے،جیسا کہ فقہائے کرام نے تحریر و کاغذ وغیرہ کی مقدار طے ہونے کی صورت میں مکتوب و تعویذوغیرہ تحریر کرنے پر عقدِاجارہ کو جائز قرار دیا ہے،یونہی اکابر علمائے اہلسنت نےمنی آرڈر کے ذریعے پیسے بھیجنے پراجرت کے لین دین کوجائز قرار دیا ہے۔
اجارہ صحیح ہونے کے لیے اجر ت اور منفعت کا معلوم ہونا ضروری ہے ۔العنایہ شرح ہدایہ میں ہے:
”(ولا تصح الإجارۃ حتی تکون المنافع معلومۃ، والأجرۃ معلومۃ، لماروینا)من قولہ صلی اللہ علیہ وسلم(من استأجرأجیرا،فلیعلمہ أجرہ)“
ترجمہ:اجارہ صحیح نہیں جب تک کہ منافع اور اجرت معلوم نہ ہو،اس وجہ سےجوہم نے یہ روایت کیاکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہےجو کسی کو اجرت پر رکھے ،تو اُسے اُس کی اجرت بتا دے۔ (العنایۃ شرح الھدایہ،کتاب الاجارات،جلد9،صفحہ61،دارالفکر،بیروت)
درمختار میں ہے:
”شرطھا :کون الأجرۃ ،والمنفعۃ معلومتین؛ لأن جھالتھما تفضی إلی المنازعۃ“
ترجمہ:اجارے کی شرط ہے کہ اجرت اور منفعت دونوں معلوم ہوں، کیونکہ ان کی جہالت جھگڑے کی طرف لے جاتی ہے۔ (ردالمحتارعلی الدرالمختار، جلد6،صفحہ5، دار الفکر، بیروت)
عقدِاجارہ میں مدت کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے۔
’’مواہب الرحمن فی مذھب ابی حنیفۃ النعمان ‘‘میں ہے:
”تفسد ۔۔۔بجھالۃ المعقود علیہ، او المدۃ، او الاجر“
ترجمہ:معقود علیہ ، مدت یا اجرت کے مجہول ہونے کی وجہ سے اجارہ فاسد ہوجاتا ہے۔(مواھب الرحمن فی مذھب ابی حنیفۃ النعمان،کتاب الاجارۃ ،ص 448،کتاب ناشرون،بیروت)
فتاوی رضویہ میں امام اہلسنت ،مجدد دین و ملت، الشاہ امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات: 1340ھ) لکھتے ہیں:”اجارہ جو امرجائز پر ہو، وہ بھی اگربے تعین ِاجرت ہو ،تو بوجہ جہالتِ اجارہ فاسدہ اور عقد حرام ہے۔“ (فتاوی رضویہ،کتاب الحوالہ ،جلد19،صفحہ529،رضافاؤنڈیشن،لاھور)
جو منفعت شریعت اورعقل وشعور رکھنے والے لوگوں کی نظر میں قابل اجارہ ہو،تو اس کے بدلے اجرت لیناجائزہے،چنانچہ اجارے کی تعریف میں منفعت مقصودہ کے متعلق تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:
” تمليك نفع مقصود من العين بعوض“
ترجمہ:ایسی منفعت جو عین شے سے مقصود ہو،اس کا عوض کے بدلے مالک بنادینا اجارہ کہلاتا ہے ۔
علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ در مختار کی اس عبارت کے تحت لکھتے ہیں:
’’(قوله تمليك) يشمل بيع العين والمنفعة۔۔۔(قوله مقصود من العين)اى فى الشرع ونظر العقلاء، ملتقطاً “
ترجمہ: مالک بنانا،عین اور منفعت دونوں کی بیع کو شامل ہے۔ شریعت اور عقلاء کی نظر میں وہ منفعت ، منفعتِ مقصودہ ہو۔ (در مختار مع رد المحتار،کتاب الاجارۃ،ج 6،ص 4،دار الفکر،بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے:
’’ومنها ان تكون المنفعة مقصودة يعتاد استيفاؤها بعقد الاجارة “
ترجمہ:اجارے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ وہ منفعت مقصودہ ہو کہ عادتا ً عقد اجارہ سے اس منفعت کا حصول کیا جاتا ہو۔(بدائع الصنائع ،کتاب الاجارۃ، ج 4، ص 192، دار الكتب العلمية، بیروت)
صدر الشریعہ ،مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:1367ھ) بہار شریعت میں فرماتے ہیں:” کسی شے کے نفع کاعوض کے مقابل کسی شخص کو مالک کردینا اجارہ ہے۔مزدوری پر کام کرنا اور ٹھیکہ اور کرایہ اور نوکری یہ سب اجارہ ہی کے اقسام ہیں۔۔۔اجارہ کے شرائط یہ ہیں۔۔۔ اجرت کا معلوم ہونا۔منفعت کا معلوم ہونا،اور ان دونوں کو اس طرح بیان کردیا ہو کہ نزاع کا احتمال نہ رہے۔“ (بھارشریعت، اجارہ کا بیان ،ج3،ح14،ص108،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
جادو کا توڑ کرنے کے لیےتعویذلکھنے پر اجارہ کرنا، جائز ہے۔ درمختار میں ہے:
”استأجره ليكتب له تعويذا لأجل السحر، جاز إن بين قدر الكاغد والخط، وكذا المكتوب“
ترجمہ:کسی شخص کو جادو کا توڑ کرنے کے لیے تعویذ لکھنے پر اجیر کیا، تو جائز ہے، جبکہ کاغذ اور خط کی مقدار بیان کر دی ہو۔ یونہی مکتوب لکھنے پر اجارہ بھی جائز ہے۔ (الدرالمختار مع ردالمحتار، جلد9،صفحہ155، مطبوعہ کوئٹہ)
خط لکھنے پر اجارہ کرنا، جائز ہے۔ردالمحتار میں ہے:
”استأجر رجلا ليكتب كتاباً إلى حبيبه، فإنه يجوز إذا بين قدر الخط والكاغد، منح“
ترجمہ: کسی شخص سے اپنے دوست کو خط لکھنے کے لئے اجارہ کیا، تو اگر خط اور کاغذ کی مقدار بیان کردے ،تو یہ اجارہ جائز ہوگا۔(الدرالمختار مع ردالمحتار، جلد9،صفحہ155، مطبوعہ کوئٹہ)
منی آرڈر کےذریعے پیسے بھیجنے پر اجرت کے بارے سوال کے جواب میں اعلی حضرت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :” بات یہ ہے کہ منی آرڈر کرنے میں دو قسم کے دام دئے جاتے ہیں، ایک وہ رقم جو مرسل الیہ کو ملنی منظور ہے، دوسرا محصول مثلا دس روپے دو آنے اور جس طرح ہر عاقل فقیہ پر واضح کہ یہ پہلے دام اگر بعینہٖ پہنچائے جاتے، جیسے پارسل میں، تویہ خاص اجارہ ہوتا، یا یوں ہوتا کہ مرسل بعینہٖ انہیں کاپہنچانا چاہتا اور ڈاک والے ان داموں کے یہاں رکھ لینے اور وہاں ان کی نظیر دینے کا ضابطہ مقررنہ کرلیتے، بلکہ کبھی بعینہٖ انہیں کو پہنچاتے، کبھی بطور خود انہیں یہاں رکھ کر مرسل الیہ کو وہاں کے خزانے سے دیتے، تو بھی محض اجارہ رہتا اور صورت خلاف میں ان اجیروں کافعل ناجائز ہوتا ۔۔۔ ہر ذی عقل نبیہہ پریہ بھی روشن ہے کہ یہ دوسرے دام اگر کسی کام کے عوض نہ دئے جاتے تو یہ عقد، خالص قرض اور یہ زیادت بیشک ربا ہوتی ،یایوں ہوتاکہ جس کا م کے عوض دئے جاتے ،وہ کوئی منفعت مقصودہ صالح ورود عقد اجارہ نہ ہوتا، تو بھی محض قرض رہتا ،مگر حاشایہاں ہر گز ایسا نہ،بلکہ وہ مثل سائر کا روائیہائے ڈاکخانہ کے یقیناً اجرت میں دینے والے اجرت ہی سمجھ کردیتے، لینے والے اجرت ہی جان کرلیتے ہیں، ہر گز کسی کے خواب میں بھی یہ خیال نہیں ہوتا کہ یہ ۲/سود کے ہیں، جو الٹا مدیون دائن سے لیتا ہے، ڈاکخانے کی اصل وضع ہی اس قسم کی اجارات کے لیے ہے، تویہاں عقد اجارہ کا تحقق اور ان داموں کا اُجرت ہونا اصلاً محل تردد نہیں، اگر کہئے کا ہے کی اجرت، ہاں مرسل الیہ کے گھر تک جانے اور اسے روپیہ دینے اور وہاں سے واپس آنے اور اس سے رسید لانے کی ،کیا یہ منفعت مقصودہ مباحہ نہیں، جس پر شرعاً ایراد وعقد اجارہ کی اجاز ت ہو، او ر جب ہے ،بیشک ہے ،تو عجب عجب ہزار عجب کہ عاقدین ایک منفعت مقصودہ جائزہ پر قصد اجارہ کریں، عوض منفعت جو کچھ دیں اور اسے اجرت ہی کہیں، اجرت ہی سمجھیں او رخواہی نخواہی ان کے قصد جائز کو باطل کرکے ،اس اجرت کو معاوضہ قرض وربا قرار دیں،شرع مطہر میں معاذاللہ اس حکم کی کوئی نظیر ہے؟ ‘‘(فتاوی رضویہ،جلد19، صفحہ566-565،رضافاؤنڈیشن،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : محمد ساجد عطاری
مصدق : مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: NRL-0258
تاریخ اجراء: 15ذوالقعدہ شریف1446 ھ/13مئی2025ء