دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ زید نے فون پر کار کے ڈرائیور کے ساتھ دو ہزار روپے کرایہ طے کیا اور کہا کہ جائیں اور ائیرپورٹ سے میری فیملی کو لیکر آئیں، ڈرائیور ائیرپورٹ کےباہر پہنچ گیا، فیملی کے پاس تو ڈرائیور کا نمبر تھا مگر ڈرائیور کے پاس فیملی کا نمبر نہیں تھا، فیملی ڈرائیور کو ڈھونڈتی رہی مگر فون نہ کرسکی، اسی طرح ڈرائیور فیملی کو ڈھونڈتا رہا اور ائیرپورٹ پر انتظار بھی کیا، مگر فیملی کسی اور ذریعہ سے گھر پہنچ گئی، اب پوچھنا یہ ہے کہ کار کا ڈرائیور آدھے کرائے کا مطالبہ کرسکتا ہے یا نہیں؟ اور کیا فیملی کار کےڈرائیور کو آدھا کرایہ دینے کی پابند ہے یا نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں کار کے ڈرائیور کو طے کردہ کرایہ میں سے کچھ بھی نہیں ملےگا اور وہ اس کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتا، البتہ زید خیر خواہی کی نیت سے کار کے ڈرائیور کو کچھ رقم دیدے تو یہ بہتر ہے۔
تفصیل یہ ہے کہ صورتِ مذکورہ میں کار کےڈرائیور کی شرعی حیثیت اجیرِ مشترک کی ہے اور اجیر مشترک اپنا کام مکمل کرنے کے بعد ہی اُجرت کا مستحق ہوتاہے،صورتِ مذکورہ میں چونکہ کار کے ڈرائیور کے ساتھ فیملی کو ائیر پورٹ سے لیکر گھر پہنچانے پر عقد ہوا تھا اور وہ اس کام کو نہ کر سکا، لہٰذا معقود علیہ (جس چیز پر عقدِاجارہ کیا گیا تھا) کے نہ پائے جانے کی وجہ سے کار کا ڈرائیور اُجرت کا مستحق نہیں ہوگا۔
سامان اٹھانے والا شخص اجیر مشترک ہوتا ہے، چنانچہ شمس الآئمہ، امام سَرَخْسِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 483ھ / 1090ء) لکھتے ہیں:
اعلم بأن الحمال أجیر مشترک
ترجمہ: تو جان لےکہ لوگوں کا سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے والا شخص اجیر مشترک ہوتا ہے۔ (المبسوط للسرخسی، کتاب الإجارات، باب متی یجب للعامل الأجر، جلد 15، صفحہ 107، مطبوعه دار المعرفة بيروت)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ / 1947ء) لکھتے ہیں: ”کام میں جب وقت کی قید نہ ہو، اگرچہ وہ ایک ہی شخص کا کام کرے، یہ بھی اجیر مشترک ہے۔“ (بہارِ شریعت، جلد 3، حصہ 14، صفحہ 155، مکتبۃ المدینہ کراچی)
اجیر مشترک کام مکمل کرنے کے بعد ہی اجرت کا مستحق ہوتا ہے، چنانچہ امام کمال الدین ابنِ ھُمَّام رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 861ھ / 1456ء) لکھتےہیں:
أن الأجیر المشترک لایستحق الأجرۃ حتی یفرغ من عملہ
ترجمہ: بیشک اجیر مشترک کام مکمل کرنے کے بعد ہی اجرت کا مستحق ہوتا ہے۔ (فتح القدیر، کتاب الإجارات، باب الأجر متی یستحق، جلد 9، صفحہ 77، مطبوعه دار الفكر بيروت)
ڈرائیور اجیر رکھنے والےکےاہل و عیال کو نہ لانے کی صورت میں اجرت کا مستحق نہیں ہوگا، چنانچہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:
(استأجره ليأتي بعياله فمات بعضهم فجاء بمن بقي فله أجره بحسابه لو كانوا معلومين والا) یکونوا معلومین (فکلہ)
ترجمہ: کسی شخص نے کسی کواجیر رکھا کہ وہ اس کے اہل و عیال کو لیکر آئے، تو ان میں سے بعض وفات پاگئے، تو اجیر بقیہ کو لے آیا۔ اگر دونوں (اجیر و مستاجر) کو اہل و عیال کی تعداد معلوم تھی تو اجیر کو زندہ افراد کو لے آنے کی اجرت ملے گی، اور اگر تعداد معلوم نہ ہو تو پوری اجرت ملے گی۔(تنویر الابصار مع در مختار، کتاب الاجارۃ، صفحہ 572، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
در مختارکی مذکورہ بالا عبارت کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1252ھ) لکھتے ہیں:
فلو ماتوا جميعا لا أجر أصلا،لأن المعقود عليه المجيء بهم و لم يوجد
ترجمہ: اگر اس شخص کے تمام اہل فوت ہوگئے تو اجیر کو بالکل ہی اجرت نہیں ملے گی، کیونکہ معقود علیہ (جس پر عقد کیا گیا تھا) اہل و عیال کو لانا تھا، جو کہ نہ پایا گیا۔(رد المحتار علی در مختار، جلد 06، صفحہ 19، دار الفکر بیروت)
علامہ اَحمد طَحْطاوی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1231ھ / 1815ء) درمختار کی مذکورہ بالا عبارت کے الفاظ (بحسابہ) کے تحت لکھتے ہیں:
ان الاجر مقابل بنقل العیال لا بقطع المسافۃ و لھذا اذا ذھب و لم ینقل احدا منھم لا یستوجب شیئًا منھم
ترجمہ: بیشک اجرت اہل و عیال کو منتقل کرنے کے بدلے میں ہے نہ کہ سفر طے کرنے کے بدلے میں ہے، اسی لیے جب اجیر گیا اور اہل و عیال میں سے کسی کو نہ لے آیا تو کچھ بھی اجرت ثابت نہیں ہوگی۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد 10، صفحہ 39، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ / 1947ء) لکھتے ہیں: ”ایک شخص کو اجیر مقرر کیا کہ میری عیال کو فلاں جگہ سے لے آؤ، وہ لینے گیا مگر اُن میں سے بعض کا انتقال ہوگیا، جو باقی تھے اُنہیں لے آیا، اگر دونوں کو تعداد معلوم تھی تو اُجرت اُسی حساب سے ملے گی یعنی مثلاًچار بچے تھے اور اُجرت چارروپے تھی تین کو لایا تو تین روپے پائے گا اور اگر تعداد معلوم نہیں تھی تو پوری اُجرت پائے گا اور اگر گیا اور وہاں سے کسی کو نہیں لایاتو کچھ بھی اُجرت نہیں ملے گی کہ کام کیا ہی نہیں۔‘‘ (بہارِ شریعت، جلد 03، صفحہ 120مکتبۃ المدینہ کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: OKR-0099
تاریخ اجراء: 06 ربیع الثانی 1447ھ / 30 ستمبر 2025ء